خواجہ سرا حقوق بِل سیاست کی نذر ہوگیا/ثاقب لقمان قریشی

چند سال قبل میرے دل میں عالمی سیاست اور سازشوں کو پڑھنے کا شوق پیدا ہُوا۔ پھر میں ڈیرھ سال تک انہی چیزوں کو پڑھتا رہا۔ محدود معلومات اور علم کی بِنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت دنیا کا ہر بحران، جنگ، روشن خیالی اور انسانی حقوق کے نام پر شروع کی گئی ہر بڑی تحریک میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ میں نے وطن عزیز کے نامور علما کرام کو سننے کی کوشش کی تو مجھے سب موجودہ دور کے تقاضوں سے دور نظر آئے۔ پھر میں نے لبرل قوتوں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ مجھے لبرلز کہلانے والا طبقہ پڑھا لکھا اور باشعور نظر آیا۔ میں نے محسوس کیا کہ لبرلز کا کام صبح سے شام تک دین اور مولوی کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے۔ ہمارے ملک میں دین پر تنقید ایک فیشن بن گیا ہے۔ جو شخص دین کے بارے میں جتنی سخت بات کرتا ہے وہ اتنا بڑا لبرل کہلاتا ہے۔

علما اور لبرلز سے قربت کا مقصد انسانیت کی بھلائی تھا جو مجھے دونوں سے نہیں ملا۔ وقت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ پھر میں نے معذور افراد کے حقوق کی تاریخ کو پڑھنا شروع کیا اور دو سال تک معذور افراد کے حقوق پر لکھتا رہا۔ اتنا لکھا جتنا شاید پہلے کبھی کسی نے نہ لکھا تھا۔ اسی دوران مجھے سوشل میڈیا پر خواجہ سرا نظر آئے۔ مجھے خواجہ سرا بھی معذور افراد کی طرح مظلوم اور بے بسمحسوس ہوئے۔ آئے روز قتل اور تشدد کے واقعات نے میرے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ پھر میں نے قلم  کا رخ خواجہ سراؤں کے حقوق کی طرف موڑ دیا۔ اس وقت خواجہ سراؤں کے حقوق پر میری تیس کے لگ بھگ تحریریں شائع ہوچکی ہیں۔ خواجہ سراؤں کے حقوق پر بھی شائد پہلے کبھی کسی نے اتنا نہیں لکھا۔

یہ دو کام وہ سعادتیں ہیں جو کسی مولوی اور لبرل کے حصے میں نہیں آئیں۔ خواجہ سرا ہمارے ملک کا پسماندہ ترین طبقہ ہے۔ ہر چند روز بعد خواجہ سراؤں پر تشدد یا قتل معمول کے واقعات بن گئے ہیں۔ پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ جب بھی کوئی کمپنی خواجہ سرا  کی سی-وی مانگتی ہے تو میں ڈھوندتا رہ جاتا ہوں مجھے کوئی پڑھا لکھا خواجہ سرا نہیں ملتا۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق صاحب نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے بل کی ایک شق پر طوفان برپا کر رکھا ہے۔ جس کے مطابق خواجہ سرااگر اپنے آپ کو مرد محسوس کرتے ہیں تو مردوں کا شناختی کارڈ بنوا سکتے ہیں اور عورت محسوس کریں تو خواتین کا شناختی کارڈ بنوا سکتے ہیں، سینیٹر صاحب نے اس شِق کو  چیلنج کر رکھا ہے۔ سینیٹر صاحب کے مطابق اس شق سے ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا۔ ہمارا خاندانی نظام تباہ ہو جائے گا۔ وراثت کی تقسیم جیسے مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ بل کی اس شق پر ترمیم علماء، پارلیمنٹ اور خواجہ سراؤں نے مل کر کرنی ہے میں اس پر اپنی رائے نہیں دینا چاہتا۔

اس موضوع پر سینیٹر صاحب کے کچھ انٹرویوز دیکھے جن کے بعد ذہن میں کچھ سوالات گردش کرنے لگے۔

سینیٹر صاحب کہتے ہیں کہ وہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے داعی ہیں۔ پچھلے دور ِحکومت میں خیبرپختون خوا  میں جماعتِ  اسلامی کے امیر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خیبرپختون خوا  خواجہ سراؤں پر ظلم و ستم کے حوالے سے ہمیشہ سے پہلے نمبر پر رہا ہے۔ جماعت اسلامی تشدد کی لہر روکنے میں کیوں ناکام رہی۔؟

سینیٹر صاحب کہتے ہیں کہ خواجہ سراؤں کیلئے ایک سٹیٹ آف دی آرٹ ادارہ قائم ہونا چاہیے جہاں انھیں تعلیم اور ہنر سکھائے جائیں۔ سوال پھر وہی ہے کہ آپ حکومت کا حصہ رہے تو ایسا ایک ادارہ کیوں نہ بنا سکے۔؟

سینیٹر صاحب کہتے ہیں کہ یہ بِل ہم جنس پرستی کو پھیلانے کی ایک سازش ہے جس میں نون لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ملوث ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ملک پر حکمرانی کر چکی ہیں۔ جماعت اسلامی تینوں جماعتوں بلکہ ڈکٹیٹرز کے ساتھ بھی کام کرچکی ہے۔ انسان کے بنائے قوانین کبھی سو فیصد درست اور مکمل نہیں ہوتے ان میں کمی بیشی کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ اس طرح الزام تراشی، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور سیاست میں دین کو گھسیٹنے کے مترادف ہے۔

معذور افراد کیلئے نوکریوں میں پانچ فیصد کوٹہ مختص ہے۔ لیکن ان سیٹوں پر زیادہ تر نارمل لوگ معذوری کا سرٹیفکیٹ بنوا کر ملازمت کر رہے ہیں۔ اب ہم کہیں کہ اس قانون کو ختم کر دو کیونکہ اس سے نارمل لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سینیٹر صاحب خواجہ سراؤں کے بل پر تو خوب سیاست کر رہے ہیں لیکن ان اٹھائیس ہزار لوگوں کی لسٹ کیوں نہیں مانگتے جنہوں نے شناختی کارڈ میں جنس تبدیل کروائی ہے۔؟

سینیٹر صاحب کہتے ہیں پارلیمنٹ میں سارے ایسے لوگ بیٹھے ہیں جو کسی چیز کو پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔ ہم سینیٹر صاحب سے کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان بائیس کروڑ آبادی کا ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک ہے۔ لوگ کام  کررہے ہیں تو یہ ملک قائم اور دائم ہے۔

سینیٹر صاحب کہتے ہیں کہ یہ سینیٹ میں سب سے ذیادہ بولنے والے ممبر ہیں۔ میں کہنا چاہونگا کہ آپ کے بولنے سے ملک کو کوئی فائدہ تو نہیں ہوا، البتہ بہت سے خواجہ سرا  قتل ضرور ہوئے ہیں۔

خواجہ سرا کا لفظ پورے ملک میں گالی بن گیا ہے۔

ڈیرھ سال سے جماعت اسلامی کے جلسوں میں خواجہ سراؤں کا نام لے کر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کے علما  ٹاک شوز میں چسکے لے لے کر خواجہ سراؤں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے خیبر پختون خوا  کے تمام اضلاع میں خواجہ سراؤں کے خلاف پُر تشدد کاروائیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ اس سال صوبے میں جتنے خواجہ سرا قتل ہوئے پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ فائرنگ اور قتل کے بڑھتے واقعات کا ذمہ دار کون ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کا مقصد اگر دین کی خدمت اور خاندانی نظام کو بچانا ہوتا تو وہ ان نازک معاملات کو سڑکوں پر نہ اچھالتی۔ جماعت کے اس سیاسی کارڈ کی وجہ سے پورے ملک میں خواجہ سراؤں کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ خواجہ سراؤں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات میں مزید اضافہ ہوگا اور اسکی ذمہ داری سینیٹر مشتاق، اوریا مقبول جان اور انصار عباسی پر عائد ہوگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply