تین ناموں والا کہانی کار/ڈاکٹر عادل سعید قریشی

فرحین خالد کے توسط سے ملنے والا ناولٹ ”دی فادر، دی سن اینڈ دی ہولی گھوسٹ“پڑھنے کو ملا،ایک نشست میں پڑھ ڈالا۔ مجھے اوروں کا معلوم نہیں میں جب بھی کوئی کتاب پڑھنے کے لیے  ہاتھ میں تھامتا ہوں تو خالی الذہن نہیں رہ سکتا ،کچھ نہ کچھ اندازے لگا لیتا ہوں جو عموماً  غلط  ہی ثابت ہوتے ہیں۔قیصر نذیر خاور کا ناولٹ ہاتھ میں لیا تو سارہ اور میتھیو کے دو بیانیوں نے خوشگوار  حیرت سے ہم کنار کیا اور بس پھر رہا نہ گیا تا وقتیکہ اس کے آخری جملے کو پڑھ کر حیرت و استعجاب میں کھڑا رہ گیا۔ اور اب الٹا اسی ناولٹ کو اپنے دل ہی دل میں دہرانے لگا۔ کہانی نادر، بیان پختہ،اسلوب البیلا،کہانی سلگتی ہوئے حقائق مسلمہ،نفسیات اجزا مجتمع،مصنف عنقا، کردار مضبوط اور میرے محلے دار،ایمائیت اوج پر، جامعیت محیطوی، تلخیاں اور گھلاوٹ کا مقیاس مساوی،کہانی کی روانی میرے کنہار کے بہاؤ جیسی، اخفا عروج پرتو پھر کون کافر ہو گا جو اس ناولٹ کو مکمل کیے بنا چھوڑ دیتا۔ ہاں میں نے بھی آخر میں لکھے تاثرات اور آرا کو درخور اعتنا نہ جانا کہ میں اس کہانی کو اپنی نگاہ سے دیکھ چکا تھا،قیصر نذیرخاور (تین ناموں والا کہانی کار)میرے دل میں اپنی جگہ بنا چکا تھا۔

کہانی اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک طویل افسانہ معلوم ہوتی ہے،جس کے دو کردار ایک ہی کہانی کو مل کر آگے بڑھاتے ہیں،واقعات محدود،کردارمعلوم، کہانی سیدھی اور داؤ پیچ سے عاری،یہاں پُرپیچ راہ گزاروں سے نہیں،کوئی بین السطور پیغام ہے نہ مطالب،سیدھی سادی اور دلچسپی کا رس لیے ہوئے، جو اپنے وحدت تاثر کو کہیں بھی کھونے میں کامیاب نہیں ہوتی، کہانی کار کی موجودگی بھی کہیں معلوم نہیں ہوتا  کہ اس کہانی کار نے اپنی اس کہانی کو ایسے بہاؤ میں ڈال دیا ہے کہ کہانی اور قاری کے بیچ کو یہ تیسرا وسیلہ اضافی اور فالتو ہی محسوس ہوتا اگر ہوتا تو۔کہانی ایک یتیم لڑکے اور لڑکی کی ہے جو یتیم خانے میں پلتے بڑھتے ہیں اور یہ یتیم خانہ عیسائی مذہب کے پیروکاروں کا ہے،جہاں اسی مذہب کے ماننے والے اپنی مکمل آزادی کے ساتھ اپنے ادارے کو چلار ہے ہیں۔ اس کہانی سے ہمیں اس طرح اداروں کے مزاج اور وہاں کام کرنے والے کرداروں سے واقفیت ہوتی ہے،وہاں کا کلچر، ان لوگوں کے سوچنے کے انداز،ان کے مسائل،بچوں اور بچیوں کی طرز زندگی اور ان کے خوابوں کا پتا چلتا ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ کہانی اور کہانی کار دونوں کا مقصد یہ معلومات فراہم کرنا ہر گز نہیں تھا بلکہ یہ معلومات تو ان کرداروں کے تعارف اور ان کے نفسیات سے تعارف کے باب میں ہمیں ملتی جاتی ہیں۔دونوں کردار اس یتیم خانے میں ملتے ہیں اور ایک روایتی محبت کی داستان کا گمان گزرتا ہے لیکن یہاں تو عشق اور زندگی کی مساوات مل جاتی ہے جس میں سارہ اور میتھیو کے کردار اپنے اپنے نفسیاتی اور سماجی مسائل اور پھر جسمانی عارضوں کے ساتھ سامنے آ تے جاتے ہیں،تعلیم کے حصول سے ملازمت کے حصول تک اور پھر محبت کی کامرانی تک یہ دونوں کردار حقیقی انسانی روپ میں ہمارے سامنے کھڑے نظرآتے ہیں اور پھر زندگی کے حقائق کا سامنا کرتے ہیں۔کہانی کار نے اس کہانی میں عشق کی کامرانی کا موضوع برتا ہے اور کہانی کو افسانوی رنگ میں ایک خوبصورت،متجسس، کلائمکس پر چھوڑکے قاری کو حیران کر دیا ہے،ا س کہانی کا خاتمہ ایک ایسے موڑ پر ہوتا ہے جس موڈ (Mode)کو افسانوی موڈ کہنا چاہیے۔یہ ایک ناولٹ کے بجائے ایک طویل افسانہ مانا جائے تو اس کی حیثیت کئی درجہ بڑھ جائے گی کہ اس میں تمام افسانوی اجزاء  ناولٹ کی نسبت بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں اور،اس کی برت(Treatment) بھی خالصتاًافسانوی ہے۔”دی فادر، دی سن اینڈ دی ہولی گھوسٹ“ کی کہانی اس قدر نادر، جان دار، منفرد ہے کہ آپ اس کی صنف کا فیصلہ کہانی کے ختم ہونے تک کرنے کے دھیان میں ہی نہیں رہتے، ناولٹ ہے تو نہیں لیکن بالفرض مان بھی لیں کہ ہے تو ناولٹ ہو لیکن جب کہانی اپنے د و مرکزی کرداروں کے ساتھ آگے بڑھتی ہے تو پھر کو ئی کردار ایسا نہیں آتا کہ جو آپ یا ان دو مرکزی کرداروں سے قاری کی توجہ ہٹا سکے، صالح وہ مسلمان لڑکا جو کالج میں سارہ اور میتھیو کے ساتھ تھوڑی دیر کے لیے آتا ہے لیکن وہ بھی ایک بودا اور کمزور کردار ہے جو سارہ کو چاہتا ہے لیکن کہہ نہیں سکتا،میتھیو جیسے کمزور اورناقابل اعتنا بندے کی موجودگی میں بھی وہ سارہ کو اپنے دل کی بات نہیں جتلا پایا، بلکہ وہ اس کو شادی کا انکار کر دیتا ہے۔سٹیو اور ایلورا کی کہانی بھی صفحہ نمبر ۹۳ پر بنتی دکھائی دیتی ہے لیکن پھر وہ بھی ان کہی رہ جاتی ہے کیوں کہ تین ناموں والا لکھاری ایک افسانہ لکھنے بیٹھ جاتا ہے،مجھے لگا یہ ایلورا کہ جو مصور ہے اور سٹیو کہانی کو ایک مکمل محبت میں ڈھال دیں گے لیکن کہانی تو تھی ہی سارہ اور میتھیو کی۔غرض یہ کہانی قیصر نذیر خاور نے خوب لکھی ہے۔

اب ذرا اس کہانی کے ساتھ ایک معتدل سا ذکر پاکستان کے  سماجی اور معاشرتی حوالوں کا بھی ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جو بہت سے حوالوں سے زیر بحث ہے،یہاں اس بات کا اعادہ شاید میری بات کو زیادہ لحاظ کے قابل بنا دے کہ اقلیتیں پاکستان میں خوش اور خوشحال ہیں اور یہ ان کے اپنے بیانات سے عام مسلمان کو پتا چلتا ہے،پاکستان کی اکثریت کا مسئلہ مذہبی تقسیم نہیں ہے،ہاں کچھ نہ کچھ ایسے حلقے ضرور ہیں کہ جو مذہب کی بناپر تعصب برتتے ہوں اور ایسا ہر ملک اور ہر سوسائٹی میں ہوتا ہے اور شدت کا عالم بھی اسی خطے کے میڈیا سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔احادیث اور قرآن کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کی تقاریر اور اقوال بھی موجود ہیں جو اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ اس کہانی میں یہ معاملہ کسی خاص پس منظر کے ساتھ نہیں آیالیکن اقلیت کے مسائل اور اقلیت کی طرز فکر کے الگ ہونے سے آیا ہے۔ اگر یہ بات صرف عیسائی اقلیت کے حوالے سے ہوتی تو شاید یہاں مذکور ہی نہ ہوتی لیکن اس کہانی میں ایک کردار قادیانی بھی مذکور ہے اور اس کے بارے میں اشارۃً ہی سہی، بات ہوئی ہے تو قادیانیوں کو پاکستان اسمبلی سے اقلیت قرار دیا ہے، وہ یہ مقدمہ ہارے ہیں اور عیسائی شروع ہی سے اقلیت ہیں لہذا ان دونوں کا آپس میں جوڑ نہیں بنتا تھا شاید یہ کہانی کار کا مقصود نہ ہو لیکن زیریں سطح پہ  ایک قسم کی ہمدردی کا اظہار ضرور محسوس ہوتا ہے،جو تخلیق کار کا حق ہے اور یہ بھی میں ماننے کے لیے تیار ہوں ”جو مچھیرے کا جال پانی کے اندر دیکھتا ہے،وہ مچھیرا دیکھے تو۔۔۔“قیصر نذیر خاور کی اس کہانی میں بارہا ایسا گمان بھی گزرا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن وہ چھوڑدیتا ہے، اس کا من چاہتا ہے کہ کچھ حقائق کہانی میں پرو دے لیکن اس کا مزاج یا اس کی اس کہانی کے تقاضے اس کے   قلم کو روک لیتے ہیں۔ البتہ کئی حوالے کہانی میں آ بھی گئے۔قیصر نذیر خاور نے بہت کو شاید اس خوف سے بھی چھوڑ دیا ہو گا:
وہ بات سارے فسانے میں جس کاذکر نہ تھا وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کہانی میں کچھ معلومات بھی مجھے اضافی بلکہ غیر ضروری لگیں (شاید اس کی وجہ میرا مزاج یا میری بد ذوقی ہو،ان کو دہرانے سے  احتراز کرتے ہوئے)۔ وہ بات کہ جس سے کہانی پر براہ راست کوئی  فرق نہیں پڑتا اس کا ذکر کہانی کی لذت کو خراب کر سکتا ہے گو اس کہانی کی لذت کو اس نے نقصان نہیں پہنچایا لیکن طبیعت مکدر ضرور ہوئی۔چونکہ کہانی اس قدر مضبوط اور جاذب ہے کہ قاری ان مقامات پر اٹکتا نہیں اور نکل جاتا ہے، سارہ اور میتھیو ایسے جاندار، خوبصورت، مکمل کردار ہیں کہ وہ اپنے قاری کی توجہ اور روانی کو بھٹکنے نہیں دیتے۔قیصر نذیرخاور کی اس کہانی میں بہت زمانے پہلے پڑھا ایک انگریزی”Orphanage“ بار بار یاد آیا گو اس کی کہانی اس کہانی سے بالکل جدا ہے لیکن یتیم خانے کا ماحول،مدر کیتھرین، فرنینڈس،کیوبیکل روم،دیگر معاونین اور مددگاروں کا ذکر مجھے وہاں لے جاتا رہا۔ یوں کہوں تو شاید میری بات زیادہ فصیح ہو کہ اس ناول کو پڑھتے وقت انگلش ناول کے انداز کا گماں گزرتا رہے،لگتا ایسا ہے کہ تین ناموں والے لکھاری کا انگلش ادب سے خاصا شغف ہے۔
مختصراً،ناولٹ”دی فادر، دی سن اینڈ دی ہولی گھوسٹ“کو میں ایک طویل افسانے کے طور دیکھتا ہوں، جس کی کہانی  منفرد ہے، جس کہانی کے کردار  جانے پہچانے ہیں،وہ جس ماحول میں اٹھ بیٹھ رہے ہیں میں اس سے نامانوس نہیں ہوں، باہمی چپقلشیں،شکر رنجیاں،گلہ مندیاں، زندگی کی کریہہ حقیقتیں، کامرانی پرمسرت اور ناکامی پر اشک باری،یک طرفہ محبت، قرب کی لذت اور نفسیاتی الجھاؤ،یتیمی کے پیدا کردہ خوف،مستقبل کی منصوبہ بندیاں،یہ سب کچھ ایسا ہے کہ کہانی کو مکمل پڑھے بنا چھوڑنے نہیں دیتا۔ اقلیتی اعتبار سے بھی اس ادب پارے کی حیثیت مسلم ہے کہ پاکستان میں اس حولے سے ادبی کام کی اشد ضرورت ہے اور پاکستانی قومیت کے مرکزی دھارے(main stream)میں ایسے افکارا ور خیالات کی ضرورت بھی ہے جو پاکستانی قومیت کے احساس کو محکم کریں اور آنے والے دنوں میں مذہبی ہم آہنگی اور قومی فکری یگانگت پید اہو کیوں ہم نے بہر حال پاکستان میں ہی پاکستانی بن کر رہنا ہے۔ قیصر نذیر خاور کے ناولٹ کا اسلوب اردو فکشن کا مقبول اسلوب نگارش ہے جو ہمیں اردو فکشن میں ممتاز مفتی، اشفاق احمد، ابن انشا،احمد ندیم قاسمی کے ہاں دکھائی دیتا ہے،تین ناموں والے اس لکھاری کے پاس مضبوط لفظیات،خیال کی پختگی،بیان کی ندرت، زبان کی چاشنی اور شیرینی ہے، چار پانچ الفاظ ہندی کے بھی برتے ہیں جن کا لطف مستزاد ہے۔ یہ ناولٹ اردو ادب میں اہل فکرونظر سے داد و تحسین ضرور پائے گا اور وقت اس کی قدر کا تعین بھی کرے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply