قرآن مجید کو کیسے سمجھا جائے ؟/کبریٰ پوپل

( اے پیغمبر ! ) یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تم پر اس لیے اتاری ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غوروفکر کریں ، اور تاکہ عقل رکھنے والے نصیحت حاصل کریں ۔ (ص: 14)

اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت قرآن مجید فرقان حمید کی طرف اشارہ فرما رہا ہے کہ یہ ایک بابرکت کتاب ہے برکت کے لغوی معنی ہیں باسعادت یعنی یہ ایک باسعادت کلام ہے اور یہ خاص انسانوں پر نازل کیا گیا ہے آگے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ قرآن میں موجود آیات میں غور و فکر کرو اور یہ کام عقل و شعور والوں کا ہے جس سے وہ نصیحت حاصل کریں گے۔ مندرجہ بالا آیت میں جو بات قابل غور ہے وہ یہ کہ اللہ نے خاص طور پر 3 باتوں کا ذکر کیا ہے، قرآن کا انسان پر نازل کرنے کا سبب ان تین باتوں میں پوشیدہ ہے .

پہلی بات: غور و فکر کرو ( لِّیَدَّبَّرُوۡۤ )
دوسری بات: تاکہ عقل رکھنے والے( اُولُوا الۡاَلۡبَابِ )
تیسری بات: نصیحت حاصل کریں ( لِیَتَذَکَّرَ )

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غور و فکر سے آخر کیا مراد ہے ؟
اس عمل کو خاص طور پر صاحب عقل کے ساتھ ہی کیوں منسوب کیا گیا ہے ؟
اور اس سے نصیحت کیسے حاصل ہو سکتی ہے ؟

پہلی بات

اس آیت میں لِّیَدَّبَّرُوۡۤ درج ہے جو کہ لفظ دبر سے نکلا ہے
دبر کے معنی ہے زيرک
تدبر کے معنی ہیں، کسی چیز کے نتیجہ اور انجام پر نظر رکھنا

کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور و فکر نہیں کیا ؟ (الروم: 8)

کسی بھی معاملے کے انجام پر نظر رکھنے کے لئے یا نتیجہ پر پہنچنے کے لیے پہلے آغاز اور پیج کے مراحل سے گزرنا ضروری ہے اور جاننے سمجھنے کے اس پورے عمل کو تدبر کہتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے قرآن پاک میں تدبر کیسے کیا جائے اور قرآن کا انجام یا نتیجہ کیا ہے ؟

قرآن کو پڑھنا اور کتنی ہی خوبصورت آواز سے اس کی تلاوت کرنا اور سننا اس کا اجر اور اس سے محسوس ہونے والی لذت اور وہ کیفیت ایک الگ معاملہ ہے لیکن قرآن کو پڑھنے کے بعد اس کی آیات میں موجود پیغام اور اس کے جوہر کو سمجھنا یہ تدبر ہے اس پر سوچنا اور فکر کرنا۔
قرآن کا نزول بنی آدم پر محض سکون پہنچانے یا اس کو خوبصورت آواز میں پڑھ  کر میٹھی نیند سلانا اس کا مقصد نہیں بلکہ یہ تو انسان کو غفلت کی نیند سے جگانے کے لیے اتارا گیا ہے انسان کی رہنمائی اور زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق آگہی دیتا ہے ۔

کیا آگہی محض الفاظ کے دوہرانے سے ممکن ہے ؟
کیا اس سے کوئی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے ؟
تدبر کا عمل شروع ہی تب ہوتا ہے جب ہم کسی ایک آیت پر غور کرنا اور سوچنا شروع کرتے ہیں لیکن انسان کی سوچ کہاں تک جا سکتی ہے ؟
سوچ تو انسان کو گمراہ بھی کر سکتی ہے شیطان ہر پل بہکاتا ہے اور پھر اتنا علم بھی نہ ہو کہ صحیح اور غلط میں واضح فرق کرسکیں تو پھر سوچ کی حد کیا ہے ؟
اللہ نے ہر انسان کو مختلف بنایا نا صرف رنگ و روپ کے لحاظ سے بلکہ سوچ ،عادات اور صفات کے لحاظ سے بھی ہر انسان کی سوچنے کی صلاحیت اور وسعت مختلف ہے اور یہی بات انسان کی تخلیق کی خوبصورتی اور مالک کی عظمت بھی بیان کرتی ہے.

مثلا ًقرآن کی آیت ہے :

اور مشرق و مغرب سب اللہ ہی کے ہیں ۔ لہذا جس طرف بھی تم رخ کرو گے ، وہیں اللہ کا رخ ہے بیشک اللہ بہت وسعت والا ، بڑا علم رکھنے والا ہے ۔
(سوره البقرۃ: 115 )

مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالی فرما رہا ہے کہ مشرق اور مغرب دونوں کا مالک وہی ہے پھر فرمایا جس طرف تم اپنا رخ پھیرو گے اسی جانب اللہ کا رخ پاؤ گے عربی میں وَجۡہُ کا  معنی ہے چہرہ اور وَجۡہُ اللّٰہِ سے مراد ہے الله کا چہرہ پڑھنے والا، اسے پڑھ کر یہ اخذ کرتا ہے کہ بندہ جہاں بھی اپنا رخ پھیریگا تو وہاں الله کا چہرہ پاۓ گا لیکن اللہ تو چہرے،ہاتھ اور انسانی اعضاء و شکل سے پاک ہے وقت و مکان سے ماورا ہے جیسا کہ حدیث کے الفاظ ہیں :

-” تفكروا في آلاء الله، ولا تفكروا في الله عز وجل”.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کرو اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور و فکر مت کرو۔“
(37733 – 9)

اس آیت میں تدبر کۓ بغیر اگر اس کو پڑھا جائے تو اس کے ظاہری معنی یہی سمجھ میں آتے ہیں کہ انسان جہاں دیکھے اسے اللہ کا چہرہ نظر آئے لیکن یہ اس کے لغوی معنی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ ہر وقت موجود ہے یعنی وہ مشرق اور مغرب دونوں میں سماتا ہے انسان جس طرف نظر اٹھا کر دیکھے وہاں اللہ کا نور موجود ہے اور اسی کی ذات جلوہ گر ہے اسی کے رنگ بکھرے ہیں. آسمان سورج چاند ستارے سیارے زمین پھول پودے جانور انسان چرند پرند یہ سب آخر کس کی تخلیق ہے؟ اور بھلا ان کو دیکھ کر دل میں کس کا خیال آتا ہے؟ جب مشرق اور مغرب اسی کا ہے تو اس میں سمانے والی مخلوقات بھی اسی کی ہے ۔ اس آیت میں وَجۡہُ اللّٰہِ کو يوں سمجھا جا سکتا ہےکہ جب دو لوگ آپس میں مخاطب ہو تو اپنا رخ بولنے والے کی طرف کرنا اس بات کی علامت ہے کہ سننے والا متوجہ ہے اگر سننے والا کہے کہ تم بات کرو میں سن رہا ہوں لیکن رخ موڑ کر بیٹھ جائے تو یہ انسانی نفسیات ہے کہ بولنے والا زیادہ دیر بات کو جاری نہ رکھ سکے گا کیونکہ اسے اپنی بات غیر اہم لگے گی اور سامنے والے کی طرف سے دلچسپی کا اظہار نہ ملنے پر وہ روٹھ بھی جائے گا
اسکا مطلب یہ ہوا “چہرہ ” توجہ (Attention) کی مثل ہے ۔اللہ نے قرآن میں بعض جگہ پر انسان کو انسان ہی کی عقل کے ذریعہ سے سمجھانے کی کوشش کی ہے اور ایسی مثالیں اور تشبیہات دی ہیں کہ جس سے وہ آیات کا مطلب سمجھ سکے اس آیات میں وَجۡہُ اللّٰہِ کے اصلی معنی الله کا متوجہ ہونے کے ہیں ..

دوسری بات

اُولُوا الۡاَلۡبَابِ: اس کا  معنی ہے دانا لوگ عقل رکھنے والے

” اس کی آیتوں پر غوروفکر کریں ، اور تاکہ عقل رکھنے والے ”

علامہ زبیدی نے علامہ مجددالدین کی اس تعریف کو ذکر کیا ہے کہ:
عقل وہ قوت ہے جس سے اچھی اور بری چیزوں میں   تمیز حاصل ہوتی ہے
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے:
عقل دماغ میں ہے ۔
(تاج العروس ،ج٨، ص٢٥،مطبوعہ مصر)

علامہ محمد فرید وجدی لکھتے ہیں: عقل انسان میں ادراک کرنے کی قوت اور یہ روح کے مظاہر سے ایک مظہر ہے اور اس کا مرکز (مغز) ہے جیسا کہ روح کے خصائص میں سے ایک خاصہ ہے اور اس کا آلہ آنکھ ہے .
(دائرۃ المعارف القرآن الحشرین ج ٦،ص٠٢٢, مطبوعہ بیروت )

قرآن میں تدبر کا حکم دیا تو ساتھ ہی عقل والوں کا تذکرہ کیا ہے :
ہم یہ مثالیں لوگوں کے فائدے کے لیے دیتے ہیں ، اور انہیں سمجھتے وہی ہیں جو علم والے ہیں ۔
(سوره العنکبوت: 43)

اور حقیقت یہ ہے کہ شیطان نے تم میں سے ایک بڑی خلقت کو گمراہ کر ڈالا ۔ تو کیا تم سمجھتے نہیں تھے ؟
(یس: 62)

بیشک ان میں عقل مند کے لئے بڑی قسم ہے
(فجر: 5)

کبھی تم نے غور کیا ، یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو ؟
(واقعہ: 58)

کبھی تم نے غور کیا ، یہ بیچ جو تم بوتے ہو ؟
(واقعہ: 63)

کیا کبھی سوچا ہے تم نے کہ یہ پانی جو تم پیتے ہو ؟
(واقعہ: 68)

نیز رات اور دن کے آنے جانے میں ، اور اللہ نے آسمان سے رزق کا جو ذریعہ اتارا ، پھر اس سے زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد نئی زندگی دی ، اس میں اور ہواؤں کی گردش میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیں ۔
(جاثیۃ: 5)

ان تمام آیات میں اللہ عقل والوں سے مخاطب ہے کیونکہ تدبر کا عمل عقل کے بغیر ناممکن ہے سوچ کا تعلق عقل کے ساتھ ہے اور سوچ کے زاویے اور حدود کا تعین بھی عقل کرتی ہے گزشتہ آیت میں وَجۡہُ اللّٰہِ کا ایک اعتبار سے تدبّر کے بعد جو نتیجہ نکلا وہ تو ٹھیک ہے لیکن صاحب عقل اس پر مطمئن نہیں رہتے بلکہ مزید گہرائی میں جاکر آیت کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں . آیت کو پڑھنے کے بعد پہلی بات جو ہمارے ذہن میں آتی ہے وہ ہماری محدود معلومات اور علم ہےلیکن عقل سے کام لینے والوں کے لۓ دوسرا مرحلہ تفسیر اور احادیث سے استدلال ہے . جس سے ہماری سوچ کا ایک اور زاویہ کھلتا ہے اس آیت کو اب اگر تفسیر سے دیکھیں تو :

اور مشرق و مغرب سب اللہ ہی کے  ہیں ۔ لہذا جس طرف بھی تم رخ کرو گے ، وہیں اللہ کا رخ ہے ۔ بیشک اللہ بہت وسعت والا ، بڑا علم رکھنے والا ہے ۔

اہلِ کتاب بیت المقدس کی طرف رخ کرتے تھے اور مشرکین بیت اللہ کو قبلہ سمجھتے تھے۔ مسلمان بھی اسی کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے تھے، اور یہ بات یہودیوں کو ناگوار تھی، ایک مختصر عرصے کے لئے مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف رُخ کرنے کا حکم دیا گیا تو یہودیوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ دیکھو ! مسلمان ہماری بات ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں، پھر دوبارہ بیت اللہ کو مستقل قبلہ بنادیا گیا، جس کی تفصیل اِن شا اللہ اگلے پارے کے شروع میں آنے والی ہے، یہ آیت بظاہر اُس موقع پر نازل ہوئی ہے جب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ رہے تھے۔ بتلانا یہ مقصود ہے کہ کوئی بھی سمت اپنی ذات میں کسی تقدس کی حامل نہیں۔، مشرق ومغرب سب اللہ کی مخلوق اور اسی کی تابعِ فرمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی ایک جہت میں محدود نہیں، وہ ہر جگہ موجود ہے، چنانچہ وہ جس سمت کی طرف رُخ کرنے کا حکم دیدے، بندوں کا کام یہ ہے کہ اسی حکم کی تعمیل کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ ہو جہاں قبلے کی صحیح سمت پتہ نہ چل رہی ہو تو وہاں وہ اپنے اندازے سے جس سمت کو قبلہ سمجھ کر نماز پڑھے گا اس کی نماز ہوجائے گی، یہاں تک کہ اگر بعد میں پتہ چلے کہ ……( معارف القران )

تیسری بات

لِیَتَذَکَّرَ : ذکر سے نکلا ہے جس کا  معنی ہے یاد دہانی اور نصیحت

” تاکہ عقل رکھنے والے نصیحت حاصل کریں ”

تدبر کرکے عقل سے کام لے کر اب انسان جس نتیجے پر پہنچتا ہےجو چیز اسے حاصل ہونی ہے جس کے لۓ محنت کی وہ ہے نصیحت۔ عقل والوں کے لیے نصیحت میں حکمت اور عبرت دونوں ہوتی ہے اور اسی سے اعمال کی درستگی ممکن ہے تدبر انسان کی سوچ اور فکر سے منسلک ہے جب کہ نصیحت میں انسان کا عملی پہلو شامل ہے اور وہ انسان کو اچھائی اور نیکی کی طرف راغب کرتی تدبر سے لے کر نصیحت تک کے سفر میں جو چیز انسان کی مدد کرتی ہے وہ ہے اسکی عقل اور اگر انسان غور کرے تو قرآن پورا کا پورا نصیحت ہے اور یہ نصیحت اللہ انسانوں کو مختلف طریقوں سے سمجھاتا ہے مثلا انبیاءعلیہم سلام کی حکمت بھری کے قصوں کے ذریعے دوزخ کی آگ سے ڈرا کر کہیں اپنی رحمت یاد دلا کر تو کہیں قیامت کے خوف سے لیکن صاحب عقل ہی اس راز کو سمجھ سکتا ہے صاحب عقل زندوں کی مانند ہے اور وہ جو غور و فکر نہیں کرتے وہ سب سو رہے ہیں قرآن سراپہ نصیحت ہیں عقل والوں کے لیے ..

Advertisements
julia rana solicitors

اس پوری تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ اللہ پاک نے سورہ انعام کی آیت نمبر 91 میں قرآن پاک کے نزول کا سبب اس کی آیات میں غور و فکر کرنے کو بتا دیا ہے اور یہ کام صاحب عقل کا ہے اور انہی  کو نصیحت ملے گی قرآن کو سمجھنا اور قرآن کے علم کو حاصل کرنے کے لیے یہ تین کام ضروری ہیں،تدبر عقل اور نصیحت کوئی بھی شخص قرآن کی کتنی ہی تلاوت کرے یا اس پر کتنا ہی سوچے لیکن اگر عقل سے کام نہیں لیتا تو عمل میں پختگی ممکن نہیں ہوسکتی قرآن کے اصل مقصد سے وہ دور ہی رہیگا
اچھی تلاوت الفاظ کی خوبصورتی کو ظاہر کرتی ہے غور و فکر سوچ کو روشن کرتی ہے
عقل سے کام لینے سےعلم بڑھتا ہے
جبکہ نصیحت سے عمل خوبصورت ہوتا ہے
قرآن کی ہر آیت کو سمجھنے کے لئے اگر یہ تین کام کر لۓ جائے تو آہستہ آہستہ قرآن ہماری زندگی میں شامل ہونا شروع ہوجائے گا ۔
صرف تدبر سے ہمارا سفر سوچ تک رہ جاتا ہے جبکہ
الله پاک نے فکر و عمل دونوں کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ قرآن پہلے ذکر ہے پھر فکر ہے اور پھر عمل ہے
لیکن اکثریت قرآن میں ذکر و فکر تک ہی رہ گئے ہیں اور عمل کا پہلو نظر نہیں آتا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply