گولڈن ایج (15) ۔ طریقہ/وہاراامباکر

ایک اچھا سائنسدان کسی چیز کے بارے میں یقین نہیں رکھتا۔ لیکن کسی بھی صورت میں سائنسی طریقے کو نہیں چھوڑتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی چیز کے درست ہونے کے یقین کا کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نیچر کے کسی پہلو کی وضاحت کرتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مثال کے طور پر، بیسویں صدی کے اوائل میں بنائی گئی کوانٹم تھیوری سب ایٹامک دنیا کے بارے میں ایٹم کی درست اور بہترین وضاحت کرتی ہے۔ کسی سائنسدان کے لئے اس پر یقین کرنے کی وجہ اس کی وضاحتی اور پیشگوئی کرنے کی طاقت ہے جسے ایک صدی سے پرکھا جا چکا ہے۔
یا پھر ڈارون کی نیچرل سلیکشن زمین پر زندگی کے تنوع کے طریقے کی بہترین وضاحت کرتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس بارے میں سائنسدان کا ذہن بند ہو کہ اس سے بہتر کبھی کچھ اور نہیں آ سکتا لیکن اس پر یقین کا مطلب اس کے حق میں منطقی اور مشاہداتی شواہدات کی بھرمار کی بنیاد پر ہے۔
سائنسی طریقے کسی فینامینا کی تفتیش کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ خواہ نئے علم کے حصول کے لئے یا پرانے علم کی تصصیح اور ترمیم کے لئے۔ اس میں مشاہدات اور پیمائشوں سے حاصل کردہ ڈیٹا لیا جاتا ہے۔ مفروضات کی جانچ ہوتی ہے۔ فارمولا بنائے جاتے ہیں، ان کی ٹیسٹنگ ہوتی ہے۔
کئی بار دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سائنسی طریقہ فرانسس بیکن اور ڈیکارٹ نے سترہویں صدی میں اپنے کام سے مستحکم کیا تھا۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابن الہیثم، الرازی اور البیرونی اس تک بہت پہلے پہنچ چکے تھے۔
ابن الہیثم کیلئے “طریقہ” کی اہمیت زیادہ تھی۔ ان کے تجربات اور نتائج کی ریکارڈنگ ان کی تحقیق کیلئے مرکزی تھے۔ اور یہ وجہ ہے کہ کئی مورخین انہیں پہلا اصل سائنسدان کہتے ہیں۔
اور ابن الہیثم خود اس پر لکھتے ہیں۔
“ہمارا مقصد تفتیش ہونا چاہیے۔ جھکاؤ نہیں بلکہ انصاف ہونا چاہیے۔ اور اس کے لئے ہر ممکن احتیاط کیا جانا لازم ہے۔ ہماری تلاش سچ ہے اور کسی کی بھی رائے سے ذہن نہیں بدلنا چاہیے۔ تنقید اور نتائج تک پہنچنے میں تحمل ضروری ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن الہیثم کی عظمت کسی ایک انقلابی دریافت سے نہیں ہے۔ جیسا کہ نیوٹن کا گریویٹی کا قانون یا آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹویٹی یا الخوارزمی کا الجبرا ہو۔ ان کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ انہوں نے دکھایا کہ سائنس کیسے کی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابنِ سینا اور البیرونی کے برعکس ابن الہیثم کا رجحان الرازی کی طرح تجرباتی سائنس پر تھا۔ سائنسی مورخین میں ایسے سخت ناقدین موجود ہیں جو اسلام کے سنہرے دور کی سائنس کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ دسیوں اور گیارہویں صدی میں ہونے والی سائنسی پیشرفت سے لاعلمی کے سوا کچھ نہیں۔
رابرٹ بریفالٹ اپنے کتاب “انسان کی تعمیر” میں لکھتے ہیں۔
“یونانیوں نے تھیوری اور سسٹم کی بنیاد رکھی۔ لیکن صبر سے تفتیش کر کے مثبت علم کو جمع کرنا، سائنسی طریقے کی باریک بینی، تفصیلی اور طویل مشاہدات، تجرباتی تجزیات ۔۔۔ یہ یونان میں نہیں تھا۔ جسے ہم سائنس کہتے ہیں کہ یورپ میں ایک نئی روح کے ساتھ واپس آئی جس میں تجربات، مشاہدات، پیمائشیں اور ریاضی شامل تھی۔ یہ سب کچھ یونانیوں کے پاس نہیں تھا۔ اس جذبے، اس ولولے اور اس کے طریقوں سے یورپیوں کو عربوں نے متعارف کروایا تھا”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply