صلالہ، شاورما اور منٹ مارگریٹا(1) ۔۔گل نوخیز اختر

مسقط میں قیام کے پہلے تین دن دعوتوں اور سیر سپاٹے میں گزرے۔ ساحل سمندر یہاں کی خاص چیز ہے جس کے کنارے ایک مشہور برانڈ کی کافی دستیاب ہے۔ یہاں شام کے وقت جوڑے واک کرتے ہیں ،ان جوڑوں کا لباس دیکھ کر اکثر لوگ ’جوڑوں کے درد‘ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔مسقط میں مقیم پاکستانیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وطنِ عزیز سے آئے مہمانوں کی خاطر داری میں کوئی کسر نہ رکھی جائے لہٰذا پاکستانی روایات کے عین مطابق ’کھانے پہ کھانا‘ ۔ اونٹ کا گوشت یہاں کی مرغوب غذا ہے، اس کے علاوہ بھی یہاں اونٹ کا ہی گوشت شوق سے کھایا جاتاہے۔ مسالوں کا ذائقہ پاکستانی کھانوں سے خاصا مختلف ہےلہٰذا یہاں کا ٹیسٹ بنانے میں کچھ وقت لگتاہے۔کھانے سے پہلے ٹنوں کے حساب سے سلاد یہاں کی روایت ہے لہٰذا بعض اوقات بندہ سلاد سے اچھا خاصا پیٹ بھر سکتا ہے ۔پہلے دن کی تھکن کے بعد دوسرے دن ہمیں ’پاکستان اسکول مسقط‘ میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنا تھی۔ تمام احباب تھوڑی بہت نیند پوری کرنے کے بعد تیار ہوگئے۔ ’پاکستان اسکول‘ کی مسقط میں مختلف برانچز ہیں اور یہ پاکستانی تارکینِ وطن کے بچوں کو اپنے وطن کی روایات، ثقافت اور تاریخی و تہذیبی پس منظر کی معلومات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ ا سکول کا رزلٹ بھی بہت شاندار ہے۔ یہاں پاکستان کے ایمبیسڈر جناب عمران علی چوہدری کو چودہ اگست کا کیک کاٹنے کے لئے بطور خاص مدعو کیا گیا تھا۔ عمران چوہدری صاحب تاریخ کا گہرا شغف رکھتے ہیں اور نہایت مدلل انداز میں اپنی بات سمجھاتے ہیں۔ا سکول کے بچے چوں کہ اپنے والدین کے ساتھ آئے ہوئے تھےلہٰذا ان کی خوشیوں بھری چیخوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی مقرر ین کی آواز بھی سنائی دے جاتی۔ا سکولوں کے فنکشن ایسے ہی ہوتے ہیں لہٰذا یہاں بھی بچے خوب انجوائے کر رہے تھے۔ مسقط میں تین دن کے قیام میں احباب نے شاپنگ اور ونڈو شاپنگ کی ۔اگلا قیام ’صلالہ‘ تھا۔ صلالہ ، مسقط سے اتنا ہی دور ہے جتنا لاہور سے کراچی ۔ یہ جگہ عمان کا ’ناران کاغان‘ سمجھ لیں۔ یہاں پہاڑ ہیں، سمندر ہے، جھیلیں ہیں، آبشاریں ہیں اور موسم نسبتاً سرد ہے۔مسقط سے بائی ائیر صلالہ کی طرف روانہ ہوئے تو لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے میں ہم صلالہ میں موجود تھے۔ یہاں بھی قمر ریاض کے جانثاران ویلکم کرنے کے لئے موجود تھے۔ ان میں علی بھائی کا تذکرہ خاص طور پر کرنا چاہوں گا جن کی زیرنگرانی پاکستان اسکول صلالہ کامیابی کی منازل طے کر رہا ہے۔ ہمیں ’سم حرم‘ نامی ایک ریسٹ ہائوس میں ٹھہرایا گیا جو ساحلِ سمندر سے آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، ہر کمرے میں شیشے کی بڑی سی کھڑکی تھی جس میں سے ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتا تھا۔
مسقط کی نسبت یہاں کی فضا خاصی سرد تھی۔ یہاں بھی احباب نے پاکستان اسکول کی تقریب میں شرکت کی اور بچوں کے ہمراہ پاکستان کے یومِ آزادی کا کیک کاٹا۔ یہاں ہمیں تین دن ٹھہرنا تھا لیکن دو دن بعد قمر ریاض نے بتایا کہ عطاء الحق قاسمی ، عذیر احمد اور احسان شاہد صاحب کل مسقط پہنچ رہے ہیں۔ یہ سنتے ہی سب کی مشترکہ آواز تھی کہ فوراً مسقط پہنچا جائے ،لہٰذا صلالہ کو خیرباد کہا، اگلے دن ایئرپورٹ پر پہنچے اور مسقط میں واپس پہلے والے ہوٹل میں جا کرڈیرے جمائے۔ کچھ ہی دیر بعد ہم سب مسقط ایئرپورٹ پر تین مزید مہمانوں کا استقبال کرنے کے لئے موجود تھے۔ قاسمی صاحب جہاں موجود ہوں وہاں قہقہے قطاراندرقطار دوڑے چلے آتے ہیں۔ یہی حال مسقط ایئرپورٹ کے لائونج کا بھی تھا۔ وہ بات بات پر پھلجھڑیاں چھوڑ رہے تھے۔ احسان شاہد صاحب بھی لندن سے تشریف لاچکے تھے لیکن ان کی فلائٹ چوں کہ پہلے تھی اس لئے وہ ہوٹل پہنچ کر آرام کر رہے تھے۔یہ قافلہ قاسمی صاحب کی خوش مزاجی سے لطف اٹھاتاہوا دوبارہ ہوٹل پہنچا۔ قاسمی صاحب تھکے ہوئے تھے لہٰذا آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عرب ممالک میں ’شوارما‘ بڑے شوق سے کھایا جاتاہے ، یہاں اس کا تلفظ’شاورما‘ ہے۔میں نے فرخ شہباز وڑائچ کے کان میں کہا، آئو شوارما کھانے چلتے ہیں۔ایک دم سے سہم کر بولا’میں ایسا لڑکا نہیں ہوں‘۔ میں نے دانت پیسے ’بیٹے تم ایسے ہی ہو لڑکے نہیں ہو‘۔یہ سنتے ہی اُسے اطمینان نصیب ہوا اور ہم ہوٹل سے تھوڑی دور ایک مارکیٹ میں چلے گئے۔ شومئی قسمت کہ جس پہلے شوارمے والے کے پاس ہم بیٹھے وہ مکمل عربی لباس میں تھا اور زبان بھی عربی تھی۔ میں نے انگلش میں بات شروع کی تو اس نے ٹوٹی پھوٹی انگلش میں بتایا کہ اسے انگلش بہت کم آتی ہے۔ مجبوراً اسے انگلیوں کی مدد سے بتایا کہ ’دو شوارمے لگاؤ‘…پھر ’سی سی ‘ کرکے بتایا کہ ذرا اسپائسی ہونے چاہئیں۔وہ غور سے میری بات سن کر سرہلاتا رہا…اب باری آئی ڈرنک کی۔ بڑا مشکل کام تھا کہ اسے ’منٹ مارگریٹا‘ کیسے سمجھایا جائے۔ لیموں کا اشارہ کیا تو وہ سمجھا شاید مالٹے کا جوس کہہ رہے ہیں۔ یک دم خیال آیا کہ منٹ کا ایک اور اشارہ بھی تو ہوسکتا ہے لہٰذا گھڑی کی طرف اشارہ کرکے چٹکی بجائی کہ شاید سمجھ جائے لیکن بھائی صاحب مکمل وجد میں تھے۔ اچانک میری نظر مینیو کے اگلے صفحے پر پڑی جہاں منٹ مارگریٹا کی تصویر تھی لہٰذا جھٹ سے تصویر پر انگلی رکھ دی۔ اُس نے تصویر دیکھی اور سرہلا کر دوسری طرف اپنے ساتھی کو آواز دیتے ہوئے بولا’’اوئے رشید! ایدھربھائی جان واسطے دوسپائسی شوارمے تے دو منٹ مارگریٹا لے آ‘…(جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply