خاموش راستوں کا مسافر/تحریر-شکور پٹھان

کتابیں ۔۔ میری بچپن کی محبت۔ جوانی کی ہمسفر، اور میرے بڑھاپے کی مونس وغم خوار۔
چند ماہ پہلے جب دوبئی سے اپنابوریا بستر سمیٹنا پڑا تو سب سے بڑا دکھ کتابوں سے جدائی کا تھا۔ دینی کتابیں ایک ادارے کی لائبریری کو عطیہ کردیں اور رب کا شکر ادا کیا کہ کسی مناسب مقام پر پہنچیں۔ ادبی کتابوں کو البتہ خود سے جدا کرنا بڑا کٹھن کام تھا۔ یہ بھی ان دوستوں کے حوالے کیں جن کی ادب دوستی کا یقین تھا۔ اپنے ساتھ صرف تین چار کتابیں رکھیں۔ ایک تو اجمل کمال کی “ کراچی کی کہانی “ اور یاسمین لاری کی Karachi during the Raj کہ کراچی کی تاریخ کے بہت حد تک مستند اور معتبر حوالے ان میں مل جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیوان غالب اور فیض صاحب کی “ نسخہ ہائے وفا” کو خود سے جدا نہ کرسکا کہ کوئی تو سامان ہو زندگانی کے لئے۔
لیکن لاکھ میں کتابوں سے بے اعتنائی اور بے وفائی برتوں، کتابیں میرا پیچھا نہیں چھوڑتیں اور گاہے بگاہے پردیس میں بھی کسی پرانے دوست کی طرح پیچھے سے آکر پیٹھ پر دھپ لگاتے ہوئے کہتی ہیں کہ میاں ہم سے بچ کر کہاں جاؤگے۔ برطانیہ آنے کے کچھ دنوں بعد ہی بھائی عابد علی بیگ کی معرکتہ الآراء تصنیف “ قومی ترانہ، فارسی یا اردو” کی رونمائی میں شریک ہوا اور کتاب کا تحفہ پایا۔ ساتھ ہی محترمہ رفعت مینا نے وہیں اپنے شعری مجموعوں سے نوازا۔ کچھ دن نہیں گذرے تھے کے محترمہ فرخندہ رضوی صاحبہ نے ڈاک سے تین کتابیں ارسال کیں۔ اور آج ، اب سے کچھ دیر پہلے بہت ہی پیارے دوست مکرم نیاز کے افسانوں کا مجموعہ “ راستے خاموش ہیں” کا تحفہ ملا۔
مکرم نیاز جن کی آنکھوں سے میں سید ابوالاعلی مودودی، علامہ رشید ترابی، بہادر یار جنگ، ابراہیم جلیس اور مجتبی حسین کا حیدرآباد دیکھتا ہوں۔ معروف، منفرد اور دلنشیں لہجے کے شاعر رؤف خلش مرحوم کے صاحبزادگان مکرم نیاز اور معظم راز میرے ان دوستوں میں سے ہے جن کی رفاقت پر کوئی بھی فخر کرسکتا ہے۔ ان دونوں بھائیوں سے ایک بے حد محبت اور احترام کا رشتہ ہے۔ معظم جس طرح میری تحاریر پر تبصرہ کرتے ہیں کہ میں چٹکی کاٹ کر خود کو دیکھتا ہوں کہ یہ میرے ہی بارے میں کہہ رہے ہیں۔ اکثر تو ان کی نگارشات پڑھ کر پانی پانی ہوجاتا ہوں کہ کاش میری تحریر واقعی ایسی ہوتی۔
رہے مکرم نیاز، تو فیس بک پر ایسی ہمہ جہت شخصیات خال ہی ملیں گی۔ میں اب تک تعین نہیں کرپایا کہ مکرم بھائی اصل میں ہیں کیا۔ حیدرآباد دکن کے روز و شب، وہاں کے مسائل، ہندوستانی مسلمانوں کے معاملات، ملک کی سیاسی صورت حالات،ادبی سرگرمیاں، حیدرآبادی کھانے، دکھنی روایات ، فلمی دنیا کا احوال، کھیلوں پر تبصرے، “تعمیر نیوز” کی ادارت اور فیس بک کے بہت سے گروپوں کے انتظامات اور نہ جانے کیا کچھ کرتے رہتے ہیں۔ مجھ ناچیز کو بھی اکثر اپنی عنایات سے نوازا اور میری تحاریر “ تعمیر” میں شائع کیں۔ مجھے بے حد خوشگوار حیرت ہوئی جب میرے ایک مضمون پر ان کے واٹس اپ گروپ کے احباب نے تبصروں کی محفل سجائی۔ مجھے اپنا قداونچا ہوتا محسوس ہوا۔
مکرم بھائی کی تصنیف “ راستے خاموش ہیں “ کا تعارفی اسٹکر جب فیس بک پر دیکھا تو جہاں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ افسانہ نگاری بھی کرتے ہیں وہیں دل میں ایک کسک سی بھی ہوئی کہ اس کتاب کا حصول کیونکر ممکن ہوگا کہ میں تو پردیس میں ہوں اور میرا تو کوئی مستقل ٹھکانہ بھی نہیں۔ آج جب پردیس میں ہی یہ کتاب ملی اپنے آپ کو بہت تہی دست محسوس کرتا ہوں کہ اظہار تشکر کے الفاظ سے خود کو تہی دامن پاتا ہوں۔
اگر یہ کتاب ڈاک سے نہ ملی ہوتی اور اس پر مکرم بھائی کا نام نہ ہوتا اور میں اس کی یونہی ورق گردانی کرتا تو شاید مجھے اے حمید یا احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا شبہ ہوتا۔ مکرم بھائی کے مضامین کے موضوعات اس قدر چبھتے ہوئے اور حقیقت سے قریب ہیں کہ ایک منجھا ہوا قلمکار ہی ان پر قلم اٹھا سکتا ہے۔ ابھی یہاں وہاں سے چند پیراگراف ہی پڑھے ہیں اور میری کیفیت اس ندیدے بچے کی سی ہے جس کے سامنے کوئی لذیذ ڈِش رکھ دی گئی ہو اور وہ اس میں انگلیاں ڈال ڈال کر اسےچکھ رہا ہو۔ بہرحال اب یہ ڈِش میرے قبضے میں ہے اور انشاء اللہ اب باقاعدہ ہاتھ دھوکر اور تمیز سے بیٹھ کر اس سے پورا انصاف کروں گا۔
مکرم بھائی مجھ سے عمر میں چھوٹے ہیں، بلکہ بہت ہی چھوٹے ہیں لیکن ادبی میدان میں میرے بزرگ نہیں تو مجھ سے بہت سینئر ضرور ہیں کہ ان کا ادبی سفر تقریباً تین دہائیوں سے جاری ہے جبکہ میری ادبی عمر ( اگر اسے ادبی کہیں تو) بمشکل پانچ چھ برس ہے۔ ان کی تحریر پر تبصرہ میری حیثیت سے بڑھ کر ہے۔ مجھے ویسے بھی کتابوں اور افسانوں پر نقد و نظر کا کوئی تجربہ نہیں ۔ یہ کام اساتذہ کا ہے اور کتاب میں استاد محترم علامہ اعجاز فرخ، محمد حمید شاہد، معروف ناول نگار نعیم بیگ، مشہور افسانہ نگار عشرت معین سیما اور جناب ڈاکٹر ارشد عبدالمجید جیسے صاحبان نظر کے تبصروں کے بعد مزید کسی تبصرے کی گنجائش نہیں کہ مستند ہے ان حضرات کا فرمایا ہوا۔
یہ تو صرف مکرم بھائی کے اس افسانوی تحفے کی رسید ہے اور مکرم بھائی کی محبتوں اور عنایتوں کا شکریہ ہے۔ رؤف خلش مرحوم کے بلندئی درجات کی دعا کے ساتھ مکرم اور معظم جیسی فرمانبردار اولاد کے لئے بہت بہت سی دعائیں اور نیک تمنائیں ۔ رب کریم اقبال مزید بلند کرے اور انہیں اپنی رحمتوں سے نوازے۔آمین

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply