• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہن ساری خدائی اک پاسے، تے ٹرمپ دی شاہی اک پاسے۔۔ثاقب اکبر

ہن ساری خدائی اک پاسے، تے ٹرمپ دی شاہی اک پاسے۔۔ثاقب اکبر

ہن ساری خدائی اک پاسے
تے میرا ڈھولن ماہی اک پاسے
آج کا ڈھولن ماہی بزعم خویش امریکہ کا انوکھا لاڈلا صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ بدھ کی رات پاکستان کے وقت کے مطابق 11 بجے شب وائٹ ہاﺅس میں خطاب کرتے ہوئے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ان کے خیال میں یہ اقدام امریکہ کے بہترین مفاد اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے قیام امن کے لئے ضروری تھا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ امریکہ کے تمام ایٹم بم دنیا میں قیام امن کے لئے ضروری ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے اس خطاب میں فلسطینیوں سے (Status Quo) سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لئے بھی کہا۔ حیرت یہ ہے کہ خود صدر ٹرمپ سٹیٹس کو توڑ رہے تھے اور دوسروں کو اسے برقرار رکھنے کے لئے کہہ رہے تھے۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کی پوری دنیا نے مذمت کی ہے اور مذمت کا یہ سلسلہ جاری کی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے صدر ٹرمپ اور ان کے جی حضوریے ایک طرف ہیں اور باقی ساری دنیا ایک طرف ہے۔ اسی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اس مضمون کی سرخی کا انتخاب کیا گیا ہے۔امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے اس اعلان سے پہلے ہی بعض راہنماﺅں سے ٹیلی فون پر اپنے اقدام کے حوالے سے گفتگو کی اور انہیں ”اعتماد“ میں لینے کی کوشش کی۔ ان میں سعودی عرب کے شاہ سلمان اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس بھی شامل ہیں۔ شاید دنیا کے کسی بھی ملک کے رہنے والے سے پوچھا جائے کہ مسلمان حکمرانوں میں سے امریکی صدر کے نزدیک ترین کون ہے تو بے ساختہ جواب آئے گا ”سعودی عرب کے شاہ سلمان“ لیکن شاہ سلمان نے بھی مسٹر ٹرمپ کے اس فیصلے کو بلاجواز اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ فلسطینی عوام کے حقوق کے منافی ہے۔ شاہ سلمان کا کہنا تھا کہ اس سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوسکتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے امریکی صدر کے اس فیصلے کے بارے میں کہا کہ صدر ٹرمپ کے شرمناک اور ناقابل قبول اقدامات نے امن کی تمام کوششوں کو کمزور کر دیا ہے۔ یہ وہی محمود عباس ہیں جنھیں امریکہ اور اسرائیل سب سے زیادہ قابل قبول فلسطینی راہنما سمجھتے ہیں۔ حماس سمیت فلسطین کی تمام تنظیموں کے خلاف امریکہ اور اس کے حواریوں کے بیانات موجود ہیں، لیکن مسٹر محمود عباس کے لئے ہمیشہ سے ان کے دل میں نرم گوشہ محسوس کیا جاتا رہا ہے۔ جب محمود عباس کی یہ رائے ہے تو باقیوں کی آراءکا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کئے جانے کے بعد حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے اسرائیل کے خلاف انتفاضہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے غزہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیلی قبضے اور امریکہ کے حالیہ فیصلے کے خلاف تیسرا انتفاضہ شروع ہوچکا ہے۔ غرب اردن اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں نے ہڑتال کر دی ہے اور سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ آخری خبریں آنے تک 50 سے زیادہ فلسطینی اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں سے زخمی ہوچکے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے امریکی نائب صدر مائیک پینس سے ملاقات منسوخ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ مائیک پینس صہیونی ریاست اور فلسطین کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے اس ملاقات کو منسوخ کئے جانے کے بعد فلسطینی اتھارٹی سے کہا گیا ہے کہ اس کے اچھے نتائج نہیں نکلیں گے۔ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے امریکہ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کو مسلم دنیا کے خلاف ایک نیا منصوبہ قرار دیا ہے۔ ان کی ویب سائٹ پر جاری پیغام میں کہا گیا ہے کہ آج مسلمانوں کے خلاف ایک نیا منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ انہوں نے قدس کی آزادی کے عظیم مقصد کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خطے میں عالمی تکبر کی نئی مہم ہے۔برطانیہ میں فلسطین کے نمائندے مینوئل حسسیان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ امن کی کوششوں کے لئے موت کا بوسہ ہے اور اعلان جنگ کے مترادف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ آخری تنکا ہے جو اونٹ کی کمر کو توڑ دے گا۔ اردن کے شاہ عبداللہ نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ امن عمل کو دوبارہ شروع کرنے کی کوششوں کو کمزور کرے گا اور مسلمانوں کو اشتعال دلائے گا۔ مصر کے صدر عبدالفتاح سیسی نے ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ علاقے کی صورت حال کو پیچیدہ نہ کریں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے متنبہ کیا ہے کہ بیت المقدس کی حیثیت مسلمانوں کے لئے خطرے کی حد کی طرح ہے۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بیت المقدس کو صہیونی حکومت کا دارالحکومت بنانے کے دعویٰ کو ان کی کمزوری اور ناتوانی کا نتیجہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بلاشبہ عالم اسلام اس سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گا، صہیونیوں کو اس کام کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی اور اس میں شک نہیں کہ پیارا فلسطین آزاد ہو کر رہے گا۔

حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے امریکی صدر کے فیصلے کے بعد اپنے ایک خصوصی خطاب میں کہا ہے کہ ہمیں یوں لگ رہا ہے کہ ہمیں ایک نئے بالفور کا سامنا ہے۔ اسرائیل اور اس کے اتحادی کسی بھی عالمی قانون اور بین الاقوامی کمیونٹی جیسی چیزوں کو نہیں مانتے۔ اسرائیل مرحلہ وار قدس کی آبادی کو مہاجر بننے پر مجبور کرتا رہا ہے، اسی طرح مسجد اقصٰی میں اپنے قبضے کو بڑھانے کی ان کی کوششیں واضح ہیں۔ وہ مسجد اقصٰی کے نیچے خندق کھودتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے اعلان نے اسرائیلوں کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ قدس پر کھلی جارحیت کریں اور یہی وہ خطرناک پہلو ہے، جس کی جانب توجہ ضروری ہے۔ ٹرمپ کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین کا مسئلہ امریکیوں کے لئے حل ہوچکا ہے اور اب قدس کے بارے میں کسی بھی قسم کی بات چیت اور گفتگو کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹرمپ کا اعلان ایک ارب سے زائد مسلمانوں اور کروڑوں عیسائیوں کی توہین ہے، یہ ان کے مقدسات، تاریخ اور قدروں کی توہین ہے۔ ہمیں ایک ایسے فرد اور ادارے کا سامنا ہے جو مقدسات کے احترام کا قائل نہیں۔ ہمیں یہ دکھانا ہوگا کہ ہم قدس سے غافل نہیں، وہ ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ عالم اسلام میں کسی قسم کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آئے گا، انہیں اپنے مضبوط پیغام سے بتانا ہے کہ ہم قدس کو نہیں بھولے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امریکی صدر کے فیصلے پر چین، روس، فرانس، بولیویا، اٹلی، سینیگال، سویڈن، برطانیہ، جرمنی، اور یوراگوائے نے بھی تنقید کی ہے۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے اپنے ترجمان کے ذریعے پیغام جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے فیصلے کی قطعی حمایت نہیں کرتیں۔ مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ نے بھی امریکی فیصلے کی مذمت کی ہے۔ پوری دنیا امریکی صدر کے فیصلے کو غیر دانشمندانہ اور عالمی انسانی حقوق اور قوانین کے منافی قرار دے رہی ہے۔ ترکی نے او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے، جس کی عالم اسلام میں حمایت کی جا رہی ہے۔ اس وقت (جمعہ 8 دسمبر2017ء کی سہ پہر) جب ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں، پوری دنیا میں صدر ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان، ایران، ترکی، اردن، فلسطین، جرمنی، برطانیہ، انڈونیشیا، ملائیشیا، تیونس، یمن، مصر اور دیگر ممالک سے مسلسل مظاہروں کی خبریں آرہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پوری دنیا کے عوام ٹرمپ کے ظالمانہ اور غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف ہم آواز ہوچکے ہیں۔

بعض امریکی ترجمانوں کی رائے یہ ہے کہ یہ چند روزہ احتجاج ہے، جو آہستہ آہستہ سرد پڑ جائے گا۔ ان کی یہ رائے بہت سے مسلمان حکمرانوں کو دیکھتے ہوئے اور ماضی میں فلسطین کے لئے ان کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئی درست معلوم ہوتی ہے، لیکن زمینی حقائق خاصے بدل چکے ہیں۔ امریکہ کے بہت سے منصوبے مشرق وسطٰی میں ناکام ہوچکے ہیں۔ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا خواب منتشر ہوچکا ہے۔ شام کو ٹکڑوں میں بانٹنے اور دمشق میں اپنی مرضی کی حکومت مسلط کرنے کی خواہش بھی سراب ثابت ہوچکی ہے۔ ترکی بھی اب وہ پہلے سا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ وہ روس اور ایران کے ساتھ مل کر شام کے مسئلے پر امریکہ سے مختلف حکمت عملی اختیار کرچکا ہے۔ اس کے لئے دیگر دلائل بھی موجود ہیں۔ عرب عوام اب پہلے سے زیادہ بیدار ہوچکے ہیں، دوست اور دشمن کو بہتر طور پر پہچاننے لگے ہیں، خلیج تعاون کونسل پر سعودی عرب کی اب وہ پہلے کی سی گرفت باقی نہیں رہی۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ فیصلے نے خطے اور باقی دنیا کے عوام کو اسرائیل اور امریکہ کے حوالے سے مزید بیدار کر دیا ہے۔ پاکستان بھی اب وہ پہلے کا سا پاکستان نہیں رہا۔ اس بدلی ہوئی صورت حال میں امریکہ کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے نے امریکہ کو پہلے سے زیادہ کمزور اور تنہا کر دیا ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply