بروقت ٹانکا لگائیں۔۔ظفر اقبال وٹو

آپ نے میزائل ڈیفنس سسٹم کا نام سنا ہو گا جس کے ذریعے کوئی ملک اپنے دشمن ملک کی طرف سے چلائے جانے والے میزائل کے چلتے ہی باخبر ہو جاتا ہے۔ اس کی رفتار اور سمت ٹریک ہونا شروع ہو جاتی ہے اور دوسرے ملک کا دفاعی نظام اس اچانک ممکنہ حملے سے بچاؤ کے لئے خودکار طور پر حرکت میں آ جاتا ہے۔

بعینہ اس طرح ہر سمجھدار اور وسائل رکھنے والی قوموں نے اپنے اپنے ملک کے لئے بارش کے بعد ممکنہ طور پر سیلاب سے زیر آب آنے والے علاقوں کے لئے بروقت انتباہ کرنے والے خودکار نظام بنائے ہوئے ہیں جو کہ کسی بھی غیر معمولی سیلابی صورت حال سے پہلے ہی حرکت میں آ جاتے ہیں اور انتظامیہ بروقت اقدامات لے کر لوگوں کو جانی و مالی نقصانات سے بچا لیتی ہے۔

ہمارے ہاں ہر سیلاب کے بعد بحالی کے تعمیراتی کاموں پر تو بہت زور ہوتا ہے لیکن اس طرح کا نظام بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ واپڈا یا ارسا وغیرہ نے اس طرح کے جو نظام بنائے ہوئے ہیں وہ بھی بڑی سطح کے دریائی سیلاب کو تو پکڑ لیتے ہیں لیکن مقامی سطح کے چھوٹے سیلاب ان سے نہیں پکڑے جاتے جس کی واضح مثال اس سال کرک، میانوالی، ٹانک، پرووآ، کوہ سلیمان، تونسہ، راجن پور، جام پور، فاضل پور اور بلوچستان میں قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، ہرنائی اور کیچ میں آنے والی سیلابی آفت ہے جس نے سوتے میں ہمیں آ لیا۔

ہم مقامی سطح پر کام کرنے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کا ضلعی سطح پر شائد کوئی سیٹ اپ ہی نہیں ہے یہ وفاق یا صوبے کی سطح پر کام کرتی ہیں۔ محکمہ موسمیات کے اسٹیشن اتنے دور دور ہیں کہ اس سال 14 اگست کو تونسہ میں سیلاب لانے والی بارش کو محکمہ کے کسی قریبی بارش پیمائش آلے نے نوٹ ہی نہیں کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہر تیسرے یا چوتھے سال سیلاب سے متاثر ہونے اور عالمی موسمیاتی تبدیلی سے بدترین متاثرہ دنیا کے پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے “سیلاب سے پیشگی آگاہی” کے نظام کا ہونا بہت ضروری ہے جس کی لاگت سیلاب سے ہونے والی تباہی کے نقصانات سے بہت کم ہے۔ یہ نظام فعال طریقے سے لگا کر بروقت ٹانکا لگائیں اور معیشت کو ہر تیسرے چوتھے سال ادھڑنے سے بچائیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply