غلام،جوہُوا کانگریس سے آزاد(3،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

افسران بضد تھے کہ یہ سروس صرف مرکزی حکومت کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ اہلکاروں کیلئے ہے اور صحافیوں کو چونکہ جوائنٹ سیکرٹری درجہ کی سہولیات دی گئی تھیں، اس سے اس سروس پر بوجھ پڑتا ہے۔ فائلوں پر کئی نوٹ لکھے گئے تھے۔ ہم نے جب پوچھا کہ پچھلے کئی برسوں کا ڈیٹا نکالا جائے کہ کتنا بوجھ صحافیوں کی وجہ سے اس سروس پر پڑا ہے، آزاد نے اس گفتگو اور بحث کو ختم کرتے ہوئے ، افسران کو بتایا کہ ’’ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں اور جمہوریت کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ پریس اس جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے۔ چاہے وہ ہمارے خلاف ہی کیوں نہ ہوں، ان کی بہبود کا خیال رکھنا لازمی ہے۔‘‘ بس اگلے چند دن کے بعد ہی یہ سروس بحال کر دی گئی۔مگر افسران نے ڈنڈی یہ ماری کہ اس میں صحافیوں کی فیملی کو شامل نہیں کیا۔ جب دوبارہ ان کے نوٹس میں لایا، تو فیملی کو بھی شامل کردیا گیا۔ ایک روایتی سیاستدان اس طرح کی ویلفیر سروسز کو خزانہ پر بوجھ تصور نہیں کرتا ہے۔ویسے بھی یہ سروس بڑے میڈیا ہاوسز کے صحافی استعمال نہیں کرتے تھے۔ چھوٹے میڈیا ہاوسز سے منسلک اور ریٹائرڈ معمر صحافیوں کیلئے یہ ایک طرح کی سوشل سیکورٹی تھی۔ خیر چونکہ آزاد نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اپنی سیاست کا دوسرا دور جموں و کشمیر سے شروع کرنے والے ہیں، اپنے سیاسی قد و قامت کی وجہ سے وہ جموں کی 33فیصد مسلم آبادی کیلئے ایک مداوا بن سکتے ہیں۔ کشمیر میں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، پیپلز کانفرنس اور دیگر پارٹیوں کی موجودگی کی وجہ سے اور جموں کی ہندو سیٹوں پر بی جے پی کے اثر و نفوذ کی وجہ سے شاید ہی انکی دال گل سکے، مگر جموں کی 43 نشستوں میں تقریباً 17 ایسی سیٹیں ہیں، جہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ آبادی سیاسی طور پر یتیم ہونے کے علاوہ فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں بر ی طرح کھٹک رہی ہے۔اس خطے میں 1947میں مسلم اکثریت کو بس چند ماہ میں اقلیت میں تبدیل کیا گیا تھا۔ دی ٹائمز لندن کی 10اگست 1948کی ایک رپورٹ کے مطابق دو لاکھ37ہزار افراد کا قتل کیا گیا۔ جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی دبیز تہہ جم چکی ہے، کہ کوئی یقین ہی نہیں کر پارہا ہے۔اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، کہ 1947میں جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی32 لاکھ اور ہندووں کی آٹھ لاکھ تھی۔وادی کشمیر میں 93 فیصد جب کہ جمو ں میں 69فیصد مسلم آبادی تھی۔۔ عسکریت پسندوں سے نپٹنے کے نام پر ایک دہائی قبل اس ایریا میں ہندو دیہاتیوں کو ولیج ڈیفینس کمیٹی کا نام دیکرمسلح کیا گیا تھا۔ اب عسکریت پسند تو نہیں رہے، مگر یہ مسلح افراد اب آئے دن دیہاتوں میں مسلم خاندانوں کو تنگ کر رہے ہیں۔مسلمان گوجروں اور بکر والوں کی بستیوں کو ٹھنڈی، سنجواں ، چھنی ،گول گجرال ، سدھرا ، ریکا ، گروڑا اور اس کے گرد و نواح سے ہٹایا گیاہے۔ یہ زمینیں مہاراجہ ہری سنگھ کے حکم نامہ کے تحت 1930ء میں ان لوگوں کو دی گئی تھیں۔لگتا ہے، کہ منصوبہ بند سازش کے تحت مسلم آبادی کو شہری علاقوں کی طرف دھکیلنے کی کاروائی ہو رہی ہے۔ تاکہ آئندہ کسی وقت 47ء کو دوہرا کر اس آبادی کو وادی کشمیر کی طرف ہجرت پر مجبور کرایا جاسکے۔ 1948ء میں چودھری غلام عباس کے پاکستان چلے جانے کے بعد اس خطے کے مسلمانوں کو کوئی مضبوط لیڈر شپ نہیں ملی ہے۔ وادی کشمیر اور جموں کی مسلم آبادی میں ایک واضح فرق ہے۔ کشمیر میں عمومی طور پر یکساں نسل و نسب کے برعکس جموں میں مسلمان پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی طرح قبیلوں اور برادریوں سید، مغل، جاٹ، سدن، گوجر، راجپوت وغیرہ کے بندھنوں میں گرفتار ہیں۔ مگر خاص بات یہ ہے کہ بھارت کی سیاسی یا مذہبی تحریکوں کا اس خطے پر خاصا اثر ہے۔ چونکہ پونچھ ضلع سے اکثر طالب علم دارلعلوم دیوبند پڑھنے کیلئے آتے ہیں، اس لئے جمعیت العلماء ہند سے بھی بیشتر افراد نسبت رکھتے ہیں۔ وادی کشمیر کے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے اس طرح کی لہریں وہاں نہیں پہنچتی ہیں۔بقول چودھری غلام عباس اس وجہ سے چاہئے سیاسی ہو یا مذہبی کشمیری مسلمان اپنے اندرونی لیڈروں کی آواز کو ہی حرف آخر تصور کرتے ہیں۔ ویسے تو آزاد پر الزام ہے کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کے تئیں سافٹ کارنر رکھتے ہیں ۔ اسی لئے انہوں نے نہایت ہی اہم موڑ پر کانگریس کا ہاتھ چھوڑ کر سیکولر قوتوں کو کمزور کیا ہے۔ اگست 2019ء کے اقدامات کے بعد سے تو مرکزی حکومت کو لگتا ہے کہ اس نے ایک بجلی کی تار پر پائوں رکھا ہے، اور اسکو ہٹانے کی صورت میں کوئی دھماکہ ہوسکتا ہے۔دوسری طرف بین الاقوامی برادی کو دکھانے کیلئے اسکو ایک منتخب حکومت لانے کی بھی جلدی ہے۔ مگر وہ یہ منتخب حکومت کشمیری پارٹیوں یعنی پی ڈی پی یا نیشنل کانفرنس کے ہاتھوں میں دینا نہیں چاہتی ہے۔ اسکو خدشہ ہے کہ کشمیری پارٹیاں 2019کے بعد اٹھائے گئے کئی اقدامات کو واپس نہ کردیں۔ اسلئے وہ وقتاً فوقتاً تجربات کرکے ایسی اسمبلی لانے کے فراق میں ہے، جو منتخب بھی ہو، اور جو مرکزی حکومت کے 2019ء کے اقدامات کی تائید بھی کرے۔ جموں خطے میں مجموعی طور پر 23فیصد آبادی دلتوں پر مشتمل ہے، جن کو کشمیری پارٹیوںبشمول حریت کانفرنس نے کبھی گھاس نہیں ڈالی اور انکو ہندووں کے ہی کھاتے میں ڈالا۔ آزاد اگر مرکزی حکومت کے مشن کے تحت نہیں آئے ہیں اور حقیقتاً آزاد سیاسی لیڈر کا رول ادا کرنا چاہتے ہیں، تو اس خطے کی 33فیصد مسلم آبادی اور 23فیصد دلت آبادی کا ایک مشترکہ اتحاد قائم کرکے اپنی سیاست کو دوام بخش کر فرقہ پرستوں کو بھی خاصی حد تک لگام لگا سکتے ہیں۔ ان کے پاس آزادانہ سیاست کرنے کا بس یہی ایک راستہ ہے۔ ورنہ ان کی اس دوسر ی سیاسی باری کو بھی ان کی غلامی کے دور کے ہی ایک ایکس ٹنشن طور پر یاد کیا جائیگا۔(ختم شد)بشکریہ 92نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply