• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا خواجہ سرا خود اچھائی کیجانب راغب نہیں ہوتے؟۔۔ثاقب لقمان قریشی

کیا خواجہ سرا خود اچھائی کیجانب راغب نہیں ہوتے؟۔۔ثاقب لقمان قریشی

انسانی حقوق کیلئے لکھتے ہوئے مجھے بے حد محتاط رہنا پڑتا ہے۔ ذرا سی غلطی مشن کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ معذور افراد کے حقوق کیلئے کام کرنا شروع کیا۔ این-جی-اوز کے ایونٹس اٹینڈ کرنا شروع کیے تو لوگوں نے مجھے ان این-جی-اوز کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کی۔ پھر میں نے دیسی اور انٹرنیشنل این-جی-اوز دونوں کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کام آگے بڑھایا۔ کوشش کی کہ ملک کے چاروں صوبوں کے معذور افراد کی آواز بن سکوں۔

خواجہ سراؤں کے حقوق پر لکھنا شروع کیا تو دوبارہ میرے ساتھ وہی کچھ دہرایا جانے لگا۔ خواجہ سراء کیونکہ مکمل انسان ہوتے ہیں۔ پھر بھی انکو معذور افراد سے  زیادہ امیتازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیئے ان کے گروپوں میں سیاست اور نفرت کے جذبات  زیادہ پائے جاتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کے مختلف گروپس ایک دوسرے سے خوب لڑتے ہیں۔ لڑائیوں میں ہاتھ پاؤں اور زبان دونوں کا کھلم کھلا استعمال کیا جاتا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ خواجہ سراؤں کی زندگی کڑواہٹ سے بھری ہے۔ ان بیچاروں کا اور کسی پر زور نہیں چلتا تو ایک دوسرے سے ہی لڑ لیتے ہیں۔

میں نے خواجہ سراؤں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ کچھ سے میرا ادب اور احترام کا رشتہ بن گیا جبکہ خواجہ سراء سمجھنے لگے کہ شائد میں خواجہ سراؤں کی کسی تنظیم کا ممبر بن گیا ہوں۔

میں نے ایک تحریر میں ڈیروں پر  رہنے والے خواجہ سراؤں میں پائے جانے والے مختلف امراض کی نشاندہی کی۔ تو مجھے رحیم یار  خان سے تعلق رکھنے والی مشہور خواجہ سراء ایکٹوسٹ قمبر کشش کی کال آئی۔ قمبر سوشل ویلفیئر، بیت المال اور وومن ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے خواجہ سراؤں کی فوکل پرسن ہیں۔

قمبر کہتی ہیں کہ جوانی میں قدم رکھنے کے بعد انھیں عام لوگوں میں گھٹن محسوس ہونے لگی۔ خواجہ سراؤں کا ایک گروپ انکے علاقے میں اکثر آتا تھا۔ قمبر نے اپنے والدین سے گروپ کے ساتھ جانے کیلئے اجازت مانگی اور پھر خواجہ سراء کمیونٹی کے ساتھ جڑ گئیں۔قمبر کے اپنے خاندان سے پہلے جیسے تعلقات ہیں۔ گھر جاتی ہیں گھر والوں سے دعائیں لیتی ہیں اور کمیونٹی کیلئے کام کرتی ہیں۔

قمبر دو دہائیوں سے خواجہ سراء کمیونٹی کیلئے کام کر رہی ہیں۔ قمبر کہتی ہیں کہ انکا دن سرکاری دفاتر، تھانہ کچہری اور ہسپتالوں میں گزرتا ہے۔ قمبر بیت المال، سوشل ویلفیئر اور حکومت پنجاب کے بہت سے پراجیکٹس کا حصہ رہی ہیں۔

میری تحریر اور وائس نوٹ سننے کے بعد قمبر کہنے لگیں کہ آپ اپنے کالمز میں خواجہ سراؤں کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ خواجہ سراء اتنے مظلوم نہیں جتنا آپ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

قمبر  کا کہنا تھا کہ آپ کی ہر تحریر میں کچھ خاص خواجہ سراؤں سے رائے اور مشورے لیئے جاتے ہیں۔ آپ کا تعلق کسی خاص گروپ سے ہے؟

میں نے قمبر سے کہا کہ میں ایک صحافی ہوں۔ ملک کے جس کونے سے خواجہ سراء مدد کیلئے کہے گا ہم اسکی آواز آگے پہنچائیں گے۔

خواجہ سراؤں کے گروپوں میں سیاست اور دھڑے بندیاں پائی جاتی ہیں۔ مخالفت اتنی شدید نوعیت کی ہوتی ہے کہ ایک دوسرے پر حملے اور پرچے کٹوانا عام سی بات ہے۔

قمبر کہتی ہیں کہ یہ بیس سال سے خواجہ سراؤں کے حقوق کا مقدمہ لڑ رہی ہیں۔ خواجہ سراؤں کے علیحدہ شناختی کارڈز اور مردم شماری میں خواجہ سراء کو شامل کرنے میں قمبر اہم کردار ادا کر چکی ہیں۔ پنجاب حکومت، بیت المال، سوشل ویلفیئر اور این-جی-اوز کی طرف سے خواجہ سراؤں کی تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ کیلئے بہت سے پراجیکٹس شروع ہوئے لیکن خواجہ سراؤں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے پراجیکٹس بند کرنا پڑے۔ جبکہ کچھ پراجیکٹس ایسے بھی ہیں جو سال ہا سال سے چل رہے ہیں۔ لوگ تنخواہیں لے رہے ہیں لیکن سیکھنے کیلئے ایک بھی خواجہ سراء موجود نہیں ہے۔

پنجاب کے مختلف اضلاع میں حکومت نے کروڑوں روپے کی مالیت سے خواجہ سراؤں کیلئے پروٹیکشن سینٹرز قائم کر رکھے ہیں لیکن سب خالی پڑے ہیں۔ اسکے علاہ ملک بھر میں قائم ووکیشنل ٹریننگ سینٹر خواجہ سراؤں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے آہستہ آہستہ بند ہو رہے ہیں۔
قمبر کہتی ہیں قانون کے مطابق پنجاب کے تمام سرکاری دفاتر میں کم از کم ایک خواجہ سراء کو نوکری دینا لازم ہے۔ آپ کو سرکاری دفاتر میں کتنے خواجہ سراء نظر آتے ہیں۔ قمبر بہت سے خواجہ سراؤں کو سرکاری محکموں میں بھرتی کروا چکی ہیں۔ بدقسمتی سے سب نوکری کو خیر آباد کہہ  کر برائی والی زندگی سے جڑ گئے ہیں۔ قمبر کہتی ہیں کہ انھوں نے آخری نوکری ایک خواجہ سراء کو ڈپٹی کمشنر کے آفس میں دلوائی۔ جس کی بہت آؤبھگت کی گئی۔ لیکن چند ہی ماہ میں وہ نوکری چھوڑ کر واپس کمیونٹی میں چلی گئی۔

قمبر کہتی ہیں کہ تشدد اور قتل زیادہ تر واقعات نجی محفلوں میں پرفارم کرنے والے خواجہ سراؤں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ اس قسم کی تقاریب میں اوباش نوجوان آتے ہیں، شراب اور نشے کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ زور اور زبردستی کی وجہ سے تشدد اور قتل کے واقعات جنم لیتے ہیں۔ تشدد کے یہ واقعات اکثر رپوٹ ہی نہیں ہوتے اور اگر ہو بھی جائیں تو خواجہ سراؤں کو انصاف نہیں ملتا۔ خواجہ سراؤں میں ایڈز جیسا موزی مرض بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ صرف رحیم یار خان میں ایک سال میں  13 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں سے دو خواجہ سراء کی موت ہوچکی ہے۔

قمبر کہتی ہیں کہ 2008ء میں ملک میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے قوانین نہیں پائے جاتے تھے۔ مار پیٹ اور پولیس گردی کے واقعات عام تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ قوانین بننا شروع ہوئے۔ خواجہ سراؤں کے الگ سے شناختی کارڈ بنے جن سے خواجہ سراؤں کو علیحدہ سے شناخت ملی۔ پھر خواجہ سراؤں کو مردم شماری کا حصہ بنا کر عام شہری تسلیم کیا گیا۔ 2018ء میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک ایکٹ پاس کیا گیا جسے دنیا میں پذیرائی ملی۔

2020ء میں قمبر کی کوششوں سے ایکٹ میں مزید ترامیم کرکے اسے مزید موثر بنانے کی کوشش کی گئی۔

خواجہ سراؤں کیلئے نوکریاں تو موجود ہیں لیکن خود خواجہ سراء موجود نہیں۔ سکول کھلے ہیں پڑھنے والے نہیں۔ ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز ہیں سیکھنے والے نہیں۔ قوانین موجود ہیں فائدہ اٹھانے والے نہیں ہیں۔

قمبر کہتی ہیں کہ خواجہ سراء بھیک اور فنکشنز سے بڑے آرام سے لاکھ روپے سے زیادہ کما لیتے ہیں۔اس لیئے عزت والے کاموں سے دور بھاگتے ہیں۔ قمبر خواجہ سراؤں کی کاؤنسلنگ کیلئے میٹنگز کرواتی رہتی ہیں۔ لیکن انھیں افسوس ہے کہ لوگ فائدہ نہیں اٹھاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم نے مسائل کا حل جاننے کی کوشش کی تو قمبر کہنے لگیں کہ حکومت   خواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے اور فنکشنز پر تین سے چھ ماہ کیلئے پابندی عائد کر دے۔ قانون ہاتھ لینے والوں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ پابندی کا اطلاق نوجوان خواجہ سراؤں پر ہونا چاہیے۔ چالیس سال یا اس سے زیادہ عمر کے خواجہ سراؤں پر یہ پابندی نہیں لگنی چاہیے کیونکہ وہ سیکھنے کی عمر گزار چکے ہوتے ہیں۔ تین سے چھ ماہ کے اس تجربے  میں ہمیں پتہ چل جائے گا کہ کتنے خواجہ سراء پڑھائی اور ہنر کی طرف راغب ہوئے ہیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا اس وقت تک خوجہ سراء پڑھائی اور حلال روزگار کی طرف راغب نہیں ہونگے۔ قمبر کو اپنی رائے سخت ضرور لگتی ہے لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ اسکے سوا مسئلے کا اور کوئی حل موجود نہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply