پونم پریت/قسط نمبر1۔۔نعیم اشرف

آج لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے موسم خوشگوار تھا۔ موسم بہار رخصت ہو رہا تھا ۔ مگر دھوپ میں ابھی تمازت نہیں آئی تھی۔ یہ دوپہر کا سماں ہوگا۔ میں اپنی ہنڈا جیپ میں تنہا سفر کر رہا تھا۔ گزشتہ روز وہ میرے ساتھ تھی۔ اس کی پسندیدہ خوشبو کی مہک ابھی تک گاڑی میں بسی ہوئی تھی۔ راوی ٹُول پلازہ پارکرتے وقت میری یاداشت کا ایک گوشہ پونم پریت اور میری مختصر رفاقت کی کہانی دہرانے لگا۔

پونم سے میری پہلی ملاقات اسلام آباد میں مصوری کی ایک نمائش میں ہوئی تھی۔ نیشنل آرٹ گیلری میں سجائی گئی اس نمائش میں تجریدی آرٹ کے ذریعے لوک داستانوں کے رومانوی مناظرپربہت باریک کام تھا۔ ایک کونے میں تجریدی فن کے ذریعے پریمیوں کے مختلف آسنوں کی تصویر کشی کی گئی تھی۔یہ درجن بھر فن پارے پونم پریت کے تھے۔ مصّورہ کی تخلیقی صلاحیت، رنگوں کی زبان اور بے باکی نے مجھے اس کی طرف پہلی دفعہ مائل کیا۔ علیک سلیک کے بعد میں نے اس کو کوہسار مارکیٹ میں کافی پینے کی دعوت دے ڈالی۔

دو چار ملا قاتوں میں پونم کی شخصیت کے مزید پہلو سامنے آئے۔ وہ قریب ستائیس اٹھائیس برس کی ہوگی۔ ۔گندمی رنگ، دراز زلفیں، پانچ فٹ   سے ذرا اوپر قد، صراحی دارگردن ، مست و بیدار آنکھیں اور بھر پور نسوانی حسن کی حامل پونم خوبصورت سے زیادہ پُر کشش تھی۔ اپنا لباس خود ڈیزائن کرتی تھی،اکثر کُرتہ پائجامہ پہنتی مگر موسم اور موقع کی مناسبت سے شلوار قمیض، پائجامہ یا جینز اور شرٹ بھی پہن لیتی تھی۔ دوپٹہ یا سکارف وغیرہ سے بے نیاز ہونے کے باوجود اس کا پہناوہ سادگی، وقاراور جدت کا دلکش امتزاج ہوتا۔ وہ عموماً کُول واٹر ’پرفیوم‘ استعمال کرتی جس کی دھیمی، ٹھنڈی اور تازہ خوشبو اُس کے قریب رہنے کی ایک اُمنگ سی بیدار کر دیتی تھی۔ اس کا شُمار ان خواتین میں کیا جاسکتا ہے، جو انسان کے اندرسے اس کے بہترین اوصاف باہر نکال لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

پسماندہ معاشروں کی ثقافتی گھٹن، ماحول میں عدمِ برداشت اورفن و ادب کی زوال پذیری جیسے موضوعات پر میری اور پریت کی مکمل ہم آہنگی تھی جوہمیں ایک دوسرے کے اور قریب لے آئی۔ ایک دوسرے سے رابطہ کرنا، ملاقات کرنا اور ہر موضوع پر تبادلہِ خیال کرنا آسان ہو گیا۔وہ کونسل آف آرٹس میں جز وقتی ملازمت بھی کر رہی تھی۔

شعر و ادب اور فنونِ لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والے وسیع القلب اورکتاب دوست انسانوں سے میری جلد دوستی ہوجاتی ہے۔ ان دوستوں میں خواتین و حضرات کی تعداد تقریباً برابر ہی ہے۔ خواتین کے ساتھ میری دوستی ادبی اور قلمی ہی ہوتی ہے۔ میں ان کے ساتھ جذباتی طور پر ملوث نہیں ہوتا کیونکہ جذباتیت، رومانویت اور حدود بندی کے حصار کے اندر مجھے اپنی آزادی سلب ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ ذہین خواتین کی دوستی سے میں عزت،احترام اور باہمی اعتماد کے دائروں میں رہ کر لطف اندوز ہوتا ہوں۔ البتہ روانی میں رومانس کبھی ہوجائے تو اس کو اپنی خوش قسمتی تصور کرتا ہوں۔

اگرچہ پونم کے ساتھ میری رومانوی قربت کا کوئی امکان پیدا نہیں ہوا تھا۔ مگر میں اس کی قربت سے  لطف اندوز ہونے لگا تھا۔ اس کے پاس میری دلچسپی کے بے شمار موضوع ہوتے تھے۔ وہ ہر دفعہ، فلسفہ، تاریخ، شاعری، فلم، ڈرامے یا کسی ناول کا ذکر چھیڑ دیتی۔ میں زیادہ تر کتابوں پر بات کرتا جب کہ پونم مصنفین کی شخصیت پر بات کرتی تھی۔

مہینے دو مہینے میں ایک آدھ دفعہ پونم اپنے گھر میں بھی ضیافت کا اہتمام   کرلیتی تھی۔ خوب محفل جمتی اور موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوا جاتا۔ ۔ پونم کی ہاؤس میٹ سُنبل حیات نئے نئے کھانے بنانے کی ماہر تھی۔ اس کے علاوہ موسیقی اور گانے کا بھی شوق رکھتی تھی۔ وہ اسلام آباد ہی کے ایک ایف ایم، ریڈیو چینل  پر صداکار تھی اور پونم کے ساتھ ایک عرصے سے رہائش پذیر تھی۔

تین دن قبل پونم نے مجھے فون کر کے لاہور چلنے کے لئے اس طرح کہا جیسے اسلام آ باد کی کوہسار مارکیٹ تک چائے پینے یا آئیس کریم وغیرہ کھانے جانا ہو۔ میں نے فوری حامی تو بھر لی مگر پُونم کے لہجے میں ایک قسم کی اُداسی اور قطعیت تھی جو میں سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس نے اتنا کہا: میں بیرونِ مُلک جا رہی ہوں۔“ میں اپنے آپ کو پونم کی رفاقت سے محروم ہوتا محسوس کر کے اُداس اور خاموش سا ہو گیا۔ میری خاموشی پڑھ کر پونم بولی ”مجھے پتہ ہے کہ تُم کیسا محسوس کر رہے ہو مگربعض اوقات محبت کے سامنے عقل بھی ہار جاتی ہے۔ اور ہاں راستے میں ایک رات میں نے سرگودھا میں گزارنی ہے۔ تم اپنا بندو بست کر لو۔ اور دو راتوں کے لئے دو جڑواں گیسٹ روم لاہور میں بھی بُک کروا لینا۔ ۔ ۔ باقی باتیں سفر میں    ۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فون منقطع کر دیا۔

اگلی صبح دس بجے کے قریب ہم مو ٹر وے پر اسلام آباد ٹول پلازہ عبور کر رہے تھے۔ میں نے گاڑی میں سینڈوچ،چائے،پانی اور ٹھنڈے مشروبات کا انتظام کر رکھا تھا۔ پونم نے اس دن گہرے سبز رنگ کا کُرتہ اور سفید رنگ کی شلوارزیبِ تن کر رکھی تھی۔ اس نے حسبِ معمول اپنے بال کس کر باندھے، اپنے دستی بیگ سے اپنی پسندیدہ خوشبو نکال کراس کی پھوار یوں چھڑکی جیسے حضرت عیسٰی کے پیرو کار ان کا ذکر سُن کر کرتے ہیں۔ خوشبو کی دھیمی دھیمی مہک گاڑی کاماحول خوابیدہ کر گئی۔ پھر اس نے سیٹ بیلٹ باندھی اور گویا ہوئی: ”کیا تُم مجھے دو تین دن تواتر سے براشت کر لو گے؟“

”کر لوں گا۔۔ اسی لئے چانس لیا ہے۔“ میں نے شرارت کی۔

اُس کے گداز اور سُرخ ہونٹوں پر بکھرتی مُسکراہٹ مجھے بہت دلکش لگی۔ ۔ ۔ وہ تمہید باندھنے لگی: ”شاید یہ ہماری آخری ملاقات ہو۔ میں اپنا وطن چھوڑنے سے پہلے اپنی رومانوی زندگی کی کہانی تمہیں سنانا چاہتی ہوں جو پہلے کبھی نہیں سنا پائی۔ کیا تم سنو گے؟“ ۔ ”کیا میرے پاس اس کے علاوہ کوئی اورچارہ کار ہے ؟” ماحول کو ہلکا پھلکا رکھنے کے لیے میں نے پھر چٹکلا چھوڑا۔ ۔”ضرور سنوں گا مگر یہ اچانک بیرونِ مُلک سفر کی تم کو کیا سُوجھی؟ ” وہ فوراً بول پڑی: ”یہ کہانی کا آخری حصہ ہے َ۔تم تو اتنے بے صبرے کبھی نہیں رہے۔۔ یہ سن کر میں ہمہ تن گوش ہو گیا ۔ ۔ ۔ پوُنم نے ایک لمبی سانس لی، کچھ دیر خاموش رہی، پھر گویا ہوئی::

میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو وسطی پنجاب کے ایک قصبے میں پایا۔ یہ جگہ شہر سے ذرا فاصلے پر چند سو مکینوں پر مشتمل بستی ہے، جو ملک کہلاتے ہیں۔ میرے بابا کا نام ملک مہرعلی تھا۔ وہ سرکاری تعمیرات کا کام کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں دوسری جماعت  میں پڑھتی تھی ۔ جب ایک دن بابا نے بتایا کہ میری دو بہنیں اور دو بھائی، سگے نہیں ہیں۔ ۔ ۔ میری اپنی ماں میری پیدائش کے دوران فوت ہو گئی تھی ۔ ماہ رُخ سے بابا کو اُن دِنوں محبت ہو گئی تھی جب وہ حیدرآباد میں عارضی طور  پر رہائش پذیر ہو کر کراچی،حیدرآباد سُپر ہائی وے کا آخری حصہ بنا رہے تھے۔ماہ رُخ اور بابا نے اپنی شادی خفیہ رکھی تھی۔ میری پیدائش کے دوران پیچیدگی پیدا ہو گئی۔ میری ماں مجھے جنم دیتے ہوئے مر گئی۔ چند دنوں کی بچی کو لے کر بابا گاؤں آ گئے۔ اپنی بیوی کو سب سچ سچ بتانے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ کار نہ تھا۔

بڑی ماں کی ناراضگی ایک قدرتی بات تھی، اُس نے غصہ کیا، واویلا کیا، روئی پیٹی مگر کچھ عرصے بعد مان گئی ۔ اُس نے میری پرورش ایک سگھڑ اور دانشمند خاتون کی طرح کی۔میری سوتیلی ماں نے مجھے کھانا پکانا، سینا پرونا اور دیگر گھر داری سکھائی۔ مجھے مصوری اور کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ میری ماں نے میرے شوق کی ہمیشہ آبیاری کی۔ بابا کی لائبریری میں تاریخ، فلسفے،مذہب، عالمی ادب اور شاعری پر تین ہزار سے اوپر کتابیں تھیں۔ بابا جب ایک دو ماہ کے لئے سندھ چلے جاتے تو میرا زیادہ وقت ان کی کتابوں کے ساتھ گزرتا تھا ۔ ۔ ۔ یوں کالج میں داخل ہونے سے قبل میں ان موضوعات پر سو سے اوپر کتابیں پڑھ کر بابا سے تبادلہ خیال بھی کر چُکی تھی۔

میری شعوری نشو و نُما انہی سالوں میں وسیع القلبی اور بالغ نظری میں داخل ہو تی گئی۔   میرے بابا روشن خیال، انسان دوست اور سیکولر انسان تھے۔ یہ باتیں لا شعوری طور پر میرے اندر آتی گئیں۔ بابا اکثر کہتے”دنیا کے تمام انسان اس لئے قابلِ احترام ہیں کہ وہ انسان ہیں۔رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم غیر فطری ہے۔دانشِ حاضر ہ اس دنیا کے تمام انسانوں کا مشترکہ اثاثہ ہے۔رہا مذہب تو یہ ہر انسان کا نہایت ذاتی سچ ہے۔“ میرا شعوری ارتقاء کالج اور یونیورسٹی میں بھی جاری رہا۔

گریجو یشن کے بعد میری خواہش پر بابا مجھے کراچی لے گئے اور فائن آرٹس میں پوسٹ گریجویشن کے لئے جامعہ کراچی میں داخل کروا دیا۔ انھوں نے میری رہائش کا انتظام جامعہ کے ہوسٹل میں کر دیا۔ مگر ان کے بچپن کے دوست طارق علی رِند کے اصرار پر انھوں نے مجھے اپنے دوست کے ہاں ٹھہرا دیا۔ انکل اپنی بیگم اور اکلوتی بیٹی سعدیہ طارق کے ساتھ رہتے تھے۔ سعدیہ میری ہم عمر تھی۔ ہم میں بہت جلد دوستی ہوگئی۔ وہ میری ہی یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات میں ماسٹرز کر رہی تھی۔ کراچی میں بھی میں نے اپنی کتب بینی اور مصوری کے مشاغل جاری رکھے۔ ۔

جس دن میں اپنے فائنل امتحان سے فارغ ہوئی۔ اسی دن مجھے بابا کے شدید علیل ہونے کی اطلاع ملی۔ وہ ذیابیطس اور فشار خون کے مریض تو تھے ہی مگر اس دن ان کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ میں، سعدیہ اورانکل طارق کے ہمراہ جب گاؤں پہنچی تو بابا کی میت جنازے کے لیے تیار تھی۔ ۔ ۔ مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا۔ میں چِلا چِلا کر رونا چاہتی تھی مگر ایسا کر نہیں پا رہی تھی۔ اس دنیا میں میرا واحد غمگسار دوست مجھ  سے کوئی آخری بات کیے بغیر اس دنیا سے رُخصت ہو چکا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو بابا کی لائبریری میں بند کر لیا اور دودن تک کچھ کھائے پئے اور سوئے بغیر رونے کی کوشش کرتی رہی۔ تیسرے دن مجھے جب یقین ہو گیا کہ بابا اب اس دنیا میں نہیں رہے تو میں زندگی میں پہلی بار جی بھر کر روئی ۔

ہم کلر کہار کے سروس ایریا پہنچنے والے تھے۔ دونوں کو چائے کی طلب ہو رہی تھی۔ میں نے پارکنگ کے کونے میں گاڑی روک دی اور پونم کو چائے وغیرہ پیش کی، میں نے ایک سگریٹ پی اور ہم دونوں چند منٹ تک گاڑی سے باہر نکل کرماحول سے محظوظ ہوتے رہے۔جب دوبارہ موٹر وے پر آئے تو چند منٹ کی خاموشی کے بعد پونم دوبارہ بولی:
بابا کے جانے کے بعدمیری طبیعت میں یاسیت اور افسردگی رہنے لگی تھی۔ کچھ دن بعد ڈیپرشن کے دورے بھی پڑنے لگے۔ میں نے اپنی توجہ بابا کی تکلیف دہ جدائی سے ہٹانے کے لئے مقامی کالج میں آرٹ ٹیچر کی ملازمت کر لی۔ کام میری پسند کا تھا۔ میں بچوں کے ساتھ دن بھر مصروف رہتی۔ بچوں کو مصوری سکھانے سے میرے مزاج میں بہتری آئی، طبیعت کچھ بحال ہوئی مگر یاسیت مکمل طور پر ختم نہ ہوسکی۔

ڈاکٹر عقیل احمد سے میری ملاقات اپنے کالج میں اس دن ہوئی جب وہ ہمارے سینئر طلباء کو ذہنی صحت کے موضوع پر لیکچر دے کر سٹاف روم میں چائے پی رہے تھے۔ پہلی نظر میں ہی مجھے اس شخص میں ایک عجیب سی کشش محسوس ہوئی۔ ایم بی بی ایس جنرل فزیشن اور نفسیات کی تعلیم سے بہرہ مند ہونے کے باوجود ان کے مزاج میں ایک قدرتی سادگی اور اپنائیت سی تھی۔کسی قسم کے مصنوعی پن اور بناوٹ سے کو سوں دور، کھِلتی ہوئی گندمی رنگت کا حامل ستائیس سالہ عقیل احمد ایک بھر پور مردانہ وجاہت اور پُختہ مزاج رکھتا تھا۔ تقریباً پانچ فٹ آٹھ انچ کا قد اور کسا ہوا بدن اس کی باقاعدہ جسمانی کسرت کا ثبوت تھا۔ عقیل احمد میں کوئی ایسی جاذبیت تھی جو مجھے پہلی ملاقات میں محسوس ہوئی۔ علیک سلیک کے بعد جب میں نے اپنا یاسیت کامسئلہ ان کے سامنے رکھا تو ا نھوں نے مجھے ہفتے کے روز شام کا وقت دے دیا۔ میرا نفسیاتی انٹرویو کرنے کے بعد ڈاکٹر عقیل احمد نے مجھے دو ہفتے چھٹی کر کے دریا کی سیر کرنے، لمبی واک کرنے اور مصوری پر توجہ دینے کا مشورہ دیا۔ایک ہفتے بعد میں بہت بہتر محسوس کر رہی تھی۔ تیسری یا چوتھی ملاقات میں مجھ پر عیاں ہوا کہ ڈاکٹر عقیل احمد شعر و ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ میں نے مزید بات چیت سے یہ بھی محسوس کیا کہ زندگی کے بارے ان کے نظریات کافی حد تک میرے بابا والے ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر بابا کی جُدائی سے پیدا شُدہ خلا کسی قدر کم ہو جاتا اور مجھ پر چھائی یاسیت بھی رفتہ رفتہ ختم ہو رہی تھی۔

ڈاکٹر عقیل احمد نے بتایا کہ یہ ان کا آبائی شہر تھا۔ وہ میڈیکل کالج کے دوسرے سال میں تھے جب ان کے والدین دو بہنوں سمیت برطانیہ ہجرت کر گئے۔عقیل احمد ماموں کے پاس رُک گئے۔ وہ ڈاکٹر بن کر اپنے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ ہم مہینے میں ایک بارملنے لگے۔ ہر ہفتے مجھے ایک پینٹنگ، کوئی غزل اور ایک کتاب پر بات کرنی ہوتی تھی۔ ہمارا تعلق پہلے باہمی احترام، پھر دوستی اور پھررفتہ رفتہ محبت میں تبدیل ہو تا گیا۔ مجھے زندگی میں پہلی بار سب کُچھ اچھا لگنے لگا تھا۔ میرے بہن، بھائی اور بھابیاں جن سے کبھی کبھار بات ہوتی تھی اب دیر تلک باتیں ہوتیں رہتیں۔ مجھے اپنی تکمیل ہوتی نظر آرہی تھی۔ ہمارے دن رات ایک دوسرے کے تصور میں گزرنے لگے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply