ڈیم سیلاب کو روک سکتے ہیں ۔۔ظفر اقبال وٹو

موجودہ سیلابی صورت حال کی آڑ لے کر ایک مخصوص لابی یہ ڈیم مخالف جذبات ابھارنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ڈیم سیلاب کو نہیں روک سکتے۔ میری رائے میں تو جو بندہ ایسی عامیانہ بات کرتا ہے شائد وہ ڈیم کے کام کرنے کی سائنس سے نابلد ہے۔ ورلڈ کمیشن آن لارج ڈیمز کے ڈیم رجسٹر مطابق اس وقت پوری دنیا میں بنائے گئے ڈیموں کی کل تعداد 58000 ہے جس میں سے آدھے سے زیادہ ڈیم صرف ہمارے دو پڑوسی ملکوں چین اور ہندوستان میں ہیں۔ جی ہاں 24000 ڈیم چین میں اور 4400 ڈیم انڈیا میں۔

‎پاکستان کے ڈیموں کی تعداد 500 بھی نہیں بنتی جس میں اصلی نسلی بڑے ڈیم ایک درجن بھی نہیں اور ہمارے ہاں ڈیم نہ بنانے کی تحریک چل رہی ہے اور ہمیں ٹی چینلز کے ٹاک شوز میں امریکہ میں ڈیم ختم کرنے کی مثالیں دی جاتی ہیں جس نے خود 10000 ڈیم بنا رکھے ہیں۔ کوئی بھی بڑا ڈیم کثیر المقاصد ہوتا ہے۔ ڈیم کا بنیادی کام پانی کو ذخیرہ کرنا ہوتا ہے جسے بعد ازاں آب پاشی اور زراعت، بجلی بنانے، صنعتی اور گھریلو استعمال، ماحولیاتی بہتری، ماہی گیری، سیاحت اور زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کے کام میں لایا جاتا ہے۔

‎اوپر دئے گئے مقاصد کے ساتھ ساتھ ڈیم مفت میں سیلاب کا زور توڑنے کا کام بھی کرتا ہے اور ایک سے زیادہ ڈیم اوپر نیچے ہوں تو وہ سیلاب کا سارا پانی ذخیرہ کر کے سیلابی تباہی روک لیتے ہیں۔ دنیا کے ہر ڈیم، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس کے ڈیزائن کا بنیادی مقصد ہی پیچھے سے آنے والے بڑے سیلابی ریلے کا زور توڑ کر اسے چھوٹے کمزور ریلے میں بدل کر آگے بھیجنے کے اصول پر بنا ہوتا ہے اور اگر دریائی گزر گاہوں پر اوپر تلے ایسے ڈیم بنا دئے جائیں تو بڑے سیلابی ریلے اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔

ٹیکنیکل زبان میں اسے فلڈ راوٹنگ یا پھر فلڈ پیک اٹینوایشن کہتے ہیں جس کا گراف پوسٹ کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ امریکہ کی معیشت ہوور ڈیم کے بعد ہی سنبھلی اور چین نے سنبھلتے ہی دنیا کا سب سے بڑا تھری گور جز ڈیم کے نام سے بنایا اور تو اور افریقہ کے قحط زدہ ملک ایتھوپیا نے سنبھلتے ہی دریائے نیل پر میکینئیم ڈیم بنا دیا ہے۔ صرف یہ ایک ڈیم 6000 میگاواٹ تک بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو کہ تربیلا ڈیم سے بہت زیادہ ہے۔

‎پاکستان میں بارشیں سال کے صرف تین مہینوں میں ہو جاتی ہیں جب کہ ہماری فصلوں کو سارا سال پانی چاہئے ہوتا ہے۔ ڈیمانڈ اور سپلائی کے فرق کو صرف اسٹوریج سے ہی پورا کیا جا سکتا ہے لہٰذا پاکستان جیسے زرعی ملک کے لئے تو ڈیم زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں۔ یونیورسٹی آف ٹوکیو جاپان کے پروفیسرز نے حال ہی میں دنیا بھر کے ڈیموں کے اوپر اپنی طرز کی سب سے پہلی کی جانے والی ریسرچ (لنک کمنٹ میں) سے یہ ثابت کیا ہے کہ ڈیم نہ صرف سیلاب کو روکتے ہیں بلکہ ڈیم عالمی موسمیاتی تبدیلی کے اثر کو بڑی حد تک کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

‎دریاؤں کے علاوہ پہاڑی سیلابی نالوں سے آنے والے بڑے سیلابی ریلوں کو بھی بڑی تعداد میں ڈیم بنا کر سیلاب سے بچا جا سکتا ہے جس کا واضح ثبوت اس سال کے سیلاب میں ڈیرہ اسماعیل خان کے شہر کا گومل زم ڈیم بننے کی وجہ سے بچ جانا ہے حالانکہ ڈیرہ کے شمال میں میانوالی ٹانک اور ڈیرہ کے جنوب میں تونسہ میں پہاڑی سیلابی نالوں پر ڈیم نہ بننے سے بہت تباہی ہوئی ہے۔

‎بلوچستان میں ہونے والی بارشوں کے پانی کا حجم بھی کم از کم 20 ملین ایکڑ فٹ ہوتا ہے جب وہاں اب تک تعمیر کئے گئے ڈیموں کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 1 سے 5 ملین ایکڑ فٹ ہے اور بقیہ 18 سے 5 ملین ایکڑ فٹ پانی سیلابی ریلوں کی صورت تباہی مچاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسی مناسب جگہیں ہیں جہاں دنیا کے سب سے بڑے ڈیم تھری گور جز سے بھی بڑا ڈیم بن سکتا ہے لیکن ایسے مواقع کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ عالمی فنڈنگ ادارے بھی ایسے منصوبوں کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں جب کہ ہمارے پڑوس میں وہ ایسے منصوبوں کی مکمل سرپرستی کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

‎تو جناب سوال یہ نہیں کہ کیا ڈیم سیلاب کو روک سکتے ہیں؟ ‎بلکہ ‎ اصل سوال یہ ہے کہ سیلاب کو روکنے کے لئے ہم کثیر تعداد میں ڈیم کیوں نہیں بناتے؟ وہ کون لوگ ہیں جو پانی کی کمی پیدا کر کے ہمارے زرعی معیشت کی کمر توڑنا چاہتے ہیں؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply