یہ تحریر مختصر دورانئے کی ایک پاکستانی فلم “ملاقات” ریت کا طوفان” ( Sandstorm)” کے تعارف پر ہے، فلم کا تعارف تو بہرحال ہوگا ہی، مگر اصلاً اس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اس مختصر دورانئے کی فلم کو آسکر ایوارڈ کے لئے نامزد کرلیا گیا ہے۔ اس فلم میں کہانی انتہائی مختصر سی ہے اور حقیقی زندگی جیسا اختتام شاید اتنا پسندیدہ نہیں ہو، مگر یہ کہانی سوشل میڈیا پر ہونے والی دوستیوں میں بلیک میلنگ اور آن لائن ڈیٹنگ کے تصور پر ہے۔ جو ہمارے قدامت پسند مسلم معاشرے میں انٹرنیٹ ڈیٹنگ کے لئے جہاں ایک ناقابل قبول معاشرہ ہے، وہیں ہمارے معاشرے کی روایتی و ثقافتی بُنت میں عورت کا وجود اور جسم ہمیشہ اعتراضات کی زد میں رہتا ہے، اور کم عمری میں معاشرتی عوامل کی سوچ کے دائرے میں ایسے اعتراضات جو اس کی عزت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ انہی اعتراضات کی کہانی جو سخت معاشرتی مجبوریوں سے آزادی حاصل کرنے کی خواہش کو ڈرامائی شکل دیتی ہے۔
ملاقات فلم کی کہانی کراچی میں رہنے والی ایک زارا نامی لڑکی کے گرد گھومتی ہے، جو اسکول میں پڑھتی ہے۔ فلم کا آغاز لڑکی کے کمرے سے ہوتا ہے جہاں وہ اپنی دوست کے ساتھ موجود ہے اور تھوڑا ہیجان انگیز ڈانس کررہی ہے اور اس کی دوست اس کی ویڈیو بنا رہی ہے۔ اس کی دوست اس کی ویڈیو بناتے ہوئے کہتی ہے کہ “اچھی لڑکیاں فحش رقص نہیں کرتیں’۔ زارا سوشل میڈیا پر ایک لڑکے کے ساتھ بات چیت کرتی ہے، جسے وہ حقیقی زندگی میں نہیں جانتی، کیونکہ وہ اسے ورچوئل ورلڈ کے ذریعے ملا ہے، اس سے بات چیت کے دوران وہ بتاتی ہے کہ وہ ڈانس کرتی ہے، وہ لڑکا اسے کہتا ہےکہ میں نے تمہارا ڈانس دیکھنا ہے۔ زارا اپنے آن لائن دوست کو اپنے ڈانس کی ویڈیو بھیج دیتی ہے جس کے بعد وہ لڑکا اس ویڈیو کو چھوتی ویڈو کہتا ہے، وہ اس سے مزید کی ڈیمانڈ کرتا ہے ، ساتھ ساتھ وہ ویڈیو کال پر کپڑے اتارنے کا کہتا ہے، اس کے ساتھ وہ یہ تنبیہہ بھی کرتا ہے کہ باہر نکلتے وقت پردہ کیا کرو۔ وہ مجمع میں عورت کو پردے میں دیکھنا چاہتا ہے مگر علیحدگی میں وہ ایسے تقاضے کرتا ہے۔ وہ اس کی زندگی پر اپنا کنٹرول چاہتا ہے۔ باقی فلم بہت مختصر ہے ممکن ہے کہ یہ فلم آپ کو ویسے ابھی نہ لگے جیسے مجھے اچھی لگی۔
کیونکہ یہ ہمارے معاشرے میں موجودہ شہری زندگی میں پروان چڑھنے والے طبقے کی عام کہانی دکھائی گئی ہے مگر قدامت پسندی کو اسلامی اقدار بتا کر جس طرح مردوں کی ذہن سازی ہوتی ہے، جس میں وہ دوسروں کی زندگیوں کے کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں، اس فلم کی کہانی کا پس منظر حقیقی ہے ، یہ مصر میں ایک معروف کیس سے ماخوذ ہے جس میں ایک لڑکی غدیر احمد، اپنے مصری دوست کے گھر میں ایک مختصر لباس میں ڈانس کرتے ہوئے ایک ویڈیو ریکارڈ کرتی ہے، کچھ عرصے بعد اس لڑکے سے غدیر احمد کا بریک اپ ہو جاتا ہے، تب وہ لڑکا اسی ویڈیو کو بنیاد بنا کر اسے بلیک میل کرکے واپس بلاتا ہے، اور ھمکیاں بھیجنا شروع کر دیتا ہے کہ اگر وہ اس کے ساتھ واپس نہیں آئے گی تو وہ ویڈیو اور تصاویر آن لائن پوسٹ کردے گا۔

اس فلم کی فلم سازی برطانیہ میں رہنے والی پاکستانی نژاد خاتون سیماب گل ہیں، ملاقات Sand Strom کو HollyShorts Film Festival 2022 کی ٹاپ تھری مختصر دورانئے کی فلموں میں منتخب کیا گیا ہے، اس میں تین نمبروں کی ونر فلمیں آسکر کے لئے کوالیفائی ہوجاتی ہیں۔ اگست سنہء 2022 میں ہی اس فلم نے دو ایوارڈ لئے ہیں جو HollyShorts اور Flickers’ Rhode Island International Film Festival ہیں۔سیماب گل پاکستان کی ایک ایوارڈ یافتہ مصنف/ ہدایت کار اور پروڈیوسر ہیں۔ سیماب گل ocarno OD Producers Lab، Biennale میں کالج سنیما اور Berlinale Talents کی سابق طالبہ اور لندن فلم اسکول کی گریجویٹ ہیں۔ اس سے پہلے سیماب گل کی ایک دستاویزی فلم “زاہدہ” الجزیرہ پر نشر ہوئی تھی جو Tasveer SAFF کا Audience Award جیت چکی ہے۔ جو Uppsala, FNC Montreal, Dok Leipzig, Sheffield Doc Fest, Geneva Contemporary Art Centre کے علاوہ اور بہت سے بین الاقوامی فیسٹیولز میں دکھائی گئی ہیں۔ ملاقات sand Strom کی کاسٹ میں حمزہ مشتاق، پریزے فاطمہ، عائشہ شعیب احمد اور نبیلہ خان شامل ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں