سفرنامہ “باسفورس” پر اظہار خیال/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

امجد پرویز ساحل کی کتاب “باسفورس” پر اظہار خیال کرنا میرے لیے باعث مسرت ہے۔اس مسرت کی کئی وجوہات ہیں کیونکہ ان کی شخصیت میں ادب کی کئی اصناف کے رنگ موجود ہیں۔ کیونکہ وہ نثری ادب میں میرے ہمسفر قلمی دوست ہیں۔اس سلسلے میں ان کا قلم رواں دواں ہے۔وہ کئی اصناف پر طبع آزمائی کرچکے ہیں۔ ان کی پہلی اور بنیادی صفت یہ ہے ، پہلے خوب پڑھتے ہیں پھر لکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان کے ادبی ذوق نے انہیں نمایاں کامیابی بخشی ہے۔
کئی کتابوں کے خالق ہیں۔علم کے متلاشی اور ادب کے شیدائی ہیں ۔ان کی پسندیدہ اصناف میں کالم نگاری، مضمون نگاری اور سفر نامہ نگاری شامل ہے۔موجودہ حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ان کی تحریر مختصر اور با معنی ہوتی ہے جو پڑھنے والے کو بوریت کا احساس نہیں ہونے دیتی بلکہ وہ با موقع معلومات پہنچا کر حالات و واقعات سے باخبر رکھتے ہیں ۔مجھے ان کی سیکڑوں تحاریر پڑھنے کا موقع ملا ، جن میں معاشرتی سدھار کے افکار و نظریات ، ظلم و ستم جیسے واقعات کے خلاف آواز ، جذبہ حب الوطنی ، سیاسی منظر نامہ ، اور قومی مسائل جیسے ایشوز پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔میری ان کے ساتھ کئی ادبی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ہمیشہ خلوص اور گرم جوشی سے ملے ہیں۔ہاتھ میں محبت کی گرمائش ، چہرے پر شگفتگی ، آنکھوں میں چاہت اور زبان پر میٹھے بول سننے کو ملے ہیں۔جن کی بدولت ان کے اخلاق کا وصف و وزن اپنی پہچان کرواتا ہے۔
قدرت سب پر مہربان ہے۔البتہ خدا کے چند چنیدہ لوگ ہوتے ہیں جو قدرتی مناظر کو اپنی آنکھوں میں سما کر قلم کے ذریعے ان کی شگفتگی کا عکس قارئین تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔قدرت نے ہر انسان کو مشاہدے کی آنکھ دے رکھی ہے۔سننے کے لیے کان ، سمجھ کے لئے دماغ ، اور خوشی کے لمحات کو محسوس کر کے لئے دل۔قدرت اپنے اندر خوبصورت تنوع اور عجائب رکھتی ہے۔ کون اس زبان کو سمجھتا اور پھر الفاظ کی مجسمہ سازی کرکے اس کے کاموں کی تعریف و توصیف کو بیان کرنے کا ایک شگفتہ عمل ہے۔
زندگی نعمت خداوندی ہے جو مسلسل سفر طے کرتی ہے۔
یہ سفر پیدائش سے شروع ہوکر اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک زندگی اسے ہنسنے کھیلنے کا موقع دیتی ہے۔قدرت نے ہر انسان کو الگ الگ نعمتیں اور برکتیں دے رکھی ہیں جن کی مرہون منت وہ زندگی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔کیونکہ بات سفر سے شروع ہوئی ہے لہذا بہتر ہے کہ پہلے ادب کے دائرہ کار میں لفظ سفر کو سمجھ لیا جائے تاکہ باآسانی* باسفورس* کا سفری احوال معلوم ہو سکے۔بلاشبہ زندگی اپنا آغاز و اختتام سفر پر ختم کرتی ہے۔اس بات کا سب سے پہلے اطلاق کائنات کی کہکشاؤں پر ہوتا ہے جو شب و روز اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔ان کا نہ رکنے والا عمل ہے۔صدیوں سے جاری ہے اور جب تک دنیا قائم و دائم ہے یہ عمل جاری و ساری رہے گا۔یوں تو ہماری زندگی کا ہر لمحہ سفری داستان کا مرکزی دروازہ ہے جو بلا ناغہ ہمارے لئے کھلتا اور بند ہوتا ہے۔اس میں روزانہ کی بنیاد پر اچھے اور برے واقعات زندگی کا حصہ بنتے ہیں۔تجربات و مشاہدات کا جنم ہوتا ہے۔عمل و نصیحت کے کئی پیغام ہوتے ہیں۔شعور و آگاہی داخلی اور خارجی واقعات کا چشم بینا ہوتے ہیں۔
” باسفورس” فاضل دوست امجد پرویز ساحل کا سفرنامہ ہے۔جسے اس نے بڑی چابک دستی سے لکھ کر اس کی اہمیت اجاگر کی ہے۔بے شک سفرنامہ لکھنے کی تحریک تقریبا تین صدیوں پرانی ہے۔جو نسل در نسل انگڑائی لے کر سفر نامہ نگار کو لکھنے کے لئے مجبور کرتی ہے۔یہ اظہار کا برملا شوق بھی ہے اور قارئین کو سفر کرنے پر اکسانا بھی ہے۔لیکن اس تحریک میں شامل ہونے کے لئے سب سے پہلے جذبہ اور وسائل جیسے کارفرما عناصر ہوتے ہیں جو ارادوں کی تکمیل اور جذبات کی امنگوں کے ترجمان بنتے ہیں۔اس سلسلے میں میرا دوست خوش قسمت ہے جسے قدرت نے جذبہ اور وسائل دے کر اس قابل کیا تاکہ وہ اپنی سفری داستان کو ایک سفر نامے کی صورت میں یکجا کر کے نہ صرف اپنے خاندان کے لئے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعل راہ ثابت ہو۔ رتیں ،بہاریں، نظارے ، باغات ، کھتیاں ، سبزہ و ہریالی ، پہاڑ ، چشمے ،پارک شہر و دیہات، آبشاریں انسانی فطرت کو آسودگی بخشتی ہیں۔ان کی بدولت تفکرات کا بوجھ کم ہو جاتا ہے۔خوشی و شادمانی لوٹ آتی ہے۔کچھ قسمت پر بھی رشک محسوس ہونے لگتا ہے۔موسیقی کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگتی ہیں ۔بوریت اور تھکاوٹ اتر جاتی ہے۔نئی تمناؤں سے آنچل بھر جاتا ہے۔روح کو خوشی اور جسم توانا ہو جاتا ہے۔
فاضل دوست کو خدا نے “آبنائے باسفورس” ترکی جانے کی اجازت دی۔انہوں نے اس سفرنامے میں ان تمام مناظر ، واقعات ، حقائق ، رسم و رواج ، عقائد ، کھانوں کے آداب ، موسمی کیفیات ، عادات و اطوار ، عزت و احترام ، جشن واستقبال سفرنامے کے ہر باب میں بڑی ایمانداری سے بیان کرکے باسفورس کی تاریخ رقم کی ہے جو قاری کو سحر میں جکڑ کر ایک نئی سوچ کا دروازہ کھولتی ہے۔
مجھے ذاتی طور پر اس سفرنامے کی بدولت کئی باتوں کی آگاہی اور صفات کے بارے میں پتہ چلا ہے۔جس نے میرے تجربات میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ان کے دلکش سفر نے لوگوں کے دلوں میں ایک لگن اور تڑپ کا نیا دیپ جلایا ہے۔میرا خیال ہے بہت سے لوگ باسفورس پڑھنے کے بعد مصمم ارادے کے ساتھ اپنی طاقت و بساط کے مطابق کئی ممالک کو دیکھنے کے خواہش مند ہوں گے۔انہیں بہت سے ممالک کی اقداروروایات ، تہذیب و تمدن ، اور ثقافتوں کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔میری دلی دعا ہے یہ کتاب علمی و ادبی حلقوں میں نہ صرف پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جائے بلکہ پذیرائی ، عزت و توقیر اور داد و تحسین کا سبب بھیہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply