• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کڑے اور مشکل وقت میں ہماری سماجی اخلاقیات کے نمونے۔۔صاحبزادہ محمد امانت رسول

کڑے اور مشکل وقت میں ہماری سماجی اخلاقیات کے نمونے۔۔صاحبزادہ محمد امانت رسول

ہمیں کسی پہ تبصرہ اور تنقید کر نے کے بجائے اپنے حال وقال پہ نظر رکھنی چاہیے۔ سال ہا سال سے ہمارے ملک میں سیلاب آرہا ہے۔ کبھی اس کی تباہی کم اور کبھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ بہر حال درد مند اور اہل ثروت ہر پاکستانی سیلاب زدگان کی مدد کرتا اور اُن تک ہر سہولت و ضرورت پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر طبقہ اپنی استطاعت و ہمت کے مطابق ان کی مدد کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ یہ موضوع بھی زیر بحث رہتا ہے کہ حکمران و سیاستدان ڈیم کیوں نہیں بناتے؟ اب تک وفاق اور صوبوں میں جنہوں نے دس سے بیس سال حکومت کی ہے، انہوں نے اپنی عوام کو سیلاب سے مخفوظ رکھنے کا انتظام کیوں نہ کیا؟ یہ ایک الزامی کھیل ہے میں اس طرف نہیں جانا چاہتا اور یہ ایک طویل بحث ہے۔

پاکستان میں ایک دوسری افسوسناک صورت وجود میں آ رہی ہے، وہ یہ ہے کہ اب عوام کی خدمت اور بروقت مدد وتعاون کے بجائے ان کے نام پہ اندرون ملک اور بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں سے سیلاب زدگان کے نام پہ چندہ اکٹھا کرنے کا مقابلہ ہے۔ اس مقابلے سے پاکستان کا امیج مزید خراب ہو گا، بہتر نہیں ہو سکتا۔ ایک سیاستدان مختلف ممالک سے خیرات مانگ رہا ہے، اُس کی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایک کھرب تین ارب جمع کیے ہیں۔ دوسرا سیاستدان چینلز پہ بیٹھ کر 5 ارب جمع کرلیتا ہے۔ اتنی بڑی ’گنتی‘ دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ قوم جانتی ہے کہ سیاستدانوں کے وعدے ایسے ہیں جیسے سرائیکی محاورہ ’تیرے لارے تے پرنے کنوارے‘۔ چندہ جمع کرنے میں بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہو رہی ہے۔ ایک سیاستدان با لکل سیلاب زدگان کی حالت زار دیکھنے ہی نہیں گئے۔ جب ان پہ عوام اور میڈیا نے دباو ڈالا تو وہ چینلز پہ بیٹھ کر چندہ جمع کرنے لگے۔ انہوں نے اس دباو کا ردّ ِعمل عوام میں جانے کے بجائے چندہ جمع کر نے میں دکھایا۔ وہ چندہ بھی Pledged ہے یعنی معلوم نہیں کتنا جمع ہوتا ہے اور کتنا جمع نہیں ہوتا۔ جو جمع ہوتا ہے وہ کب پروسس سے گزر کر اِن کے اکاونٹ میں پہنچتا اور عوام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت غریب عوام کا جو حال ہے وہ تقاضا کرتا ہے کہ ان کی بحالی کا کام تیزی سے جاری رہے۔ تب وہ کہیں جاکر معمول کی زندگی کی طرف آسکیں گے۔

اب ذرا رکیے اور غور کیجیے!

پہلے سیلاب زدگان کی مالی اور معاشرتی مدد کی جاتی تھی۔ یہ ایک اخلاقی قدر ہے کہ غریبوں کی مدد کی جائے خواہ وہ ووٹ کے لیے ہو یا دکھاوے کے لیے۔ بہرحال فوراً اور بروقت مدد کی جاتی رہی ہے۔ لیکن اب عوام میں جانے اور فوراً قدم اٹھانے کے بجائے چندہ جمع کرنے کا مقابلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان اور دھچکا جو معاشرے کو لگتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ سب لوگ جن کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے یا نہیں وہ نمائشی، بد عنوان اور غریبوں کا حق کھانے والے قرار پائے اور دوسری طرف جس نے کچھ نہ کیا وہ ایماندار اور بااعتماد قرار پایا  کیونکہ اس نے اے سی میں بیٹھ کر چینلز پہ لوگوں سے چند ارب روپے کے اعلان کروائے لہذا وہ کامیاب اور کامران قرار دیاجائے۔ جو لوگ گرمی، حبس اور پانی میں میلوں چل کر لوگوں تک پہنچے وہ ناکام و نامراد قرار پائے۔

یہ کلچر بہت خطر ناک ہے۔ اس سے کھوکھلے کمزور دیمک زدہ معاشرے وجود میں آتے ہیں، جو نظر آنے میں خوبصورت مضبوط اور مستحکم لیکن ذرا دھکا لگنے سے گِر جاتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اپنا استحکام اور مقام اس لیے روز بروز کھورہا ہے یہاں چمکتی چیزیں سونا خیال کی جاتی ہیں۔’واہ واہ‘ اور ’کمال ہے‘ کے نعروں میں آگے بڑھتی یہ قوم زمین پر تو کوئی منصوبہ نہ دکھا سکی لیکن مریخ و عطارد کی باتیں ضرور کر سکتی ہے۔

اخلاقی پستی اور  معاشی بحران جن معاشروں میں ہوتا ہے وہاں ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے کہ خیر اور نیکی بہت بڑے شر اور بدی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ انسانی لاشوں پہ سیاست کی جاتی ہے، گروہی اور شخصی تفاخر حقیقی مسائل سے لوگوں کی نظروں کو ہٹادینے کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایسی صورت حال کی مثال ایسے ہے جیسے ایک ماں کے بچے آسودہ حال ہوتے ہیں لیکن ایک ماں کی نگہداشت پہ جھگڑتے، اپنے مالی اور سماجی مرتبے کا ایک دوسرے پہ رعب ڈالتے رہتے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ اس وقت پانی کے سیلاب کا ہی نہیں بلکہ انانیت، تصادم او ر تکبر کے سیلاب میں بھی گِھرا ہوا ہے۔ قوم ماں کی طرح بے یارومدد گار ہے اور قوم کے بیٹے آپس میں طاقت اور اقتدار کے لیے بر سر پیکار ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سے بڑا مذاق اور اخلاقی دیوالیے کا نمونہ کوئی ہوسکتا ہے کہ ایک بڑی آبادی کو ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا ہے اور ہم چندہ جمع کرنے کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس پہ اپنے اپنے نام نہاد لیڈران کی مقبولیت کے گراف کی نمائش چلا رہے ہیں۔ اور کیا چندے کی مقابلے بازی سے دنیا میں ملک کا اچھا تأثر قائم ہو رہا ہے؟ حالانکہ جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہم صرف طبقاتی تعصبات میں ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے یا صرف برتری جتانے کی دوڑ میں ہی نہ رہیں بلکہ عملا معاشرے کو خوشحال بنانے کے لیے اقدامات کریں اور اس کا سب سے پہلا زینہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی کوششوں کو سراہنا سیکھیں اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کو شعار بنائیں۔ یہ وطن سب کا ہے، ہم کیسے  یہ بھول جاتے ہیں کہ اس سرزمین پہ سب کا حق ہے۔ پھر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کیا مطلب، بالخصوص ایسے اوقات میں کہ جب اس وطن اور اس کے متأثرین کو باتوں اور نعروں کی نہیں بلکہ حقیقی خدمت اور تعاون کی ضرورت ہو۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply