• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • رشدی ایسے کرداروں سے متعلق اہل اسلام کا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟ ۔۔ ڈاکٹر محمد شہباز منج

رشدی ایسے کرداروں سے متعلق اہل اسلام کا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟ ۔۔ ڈاکٹر محمد شہباز منج

رشدی اور اس کی متنازع کتاب
رشدی اور اس جیسے دیگر کرداروں سے متعلق اہل اسلام کے رویے پر بات کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رشدی اور اس کی بدنام ِ زمانہ کتاب پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے۔ رشدی ہندوستانی نژاد برطانوی امریکی ناول نگار اور ادیب ہے۔ قبل ازیں بھی اس کے بعض ناول شائع ہوئے تھے، لیکن اس کو زیادہ شہرت و پذیرائی ” شیطانی آیات” کی اشاعت کے بعد ملی۔ ادبی ناقدین کے مطابق ” سٹینیک ورسز” رشدی کے اپنے مخمصوں کی عکاس ہے ، جو خود اس کو برطانوی استعمار کا ایک شکار ظاہر کرتی ہے۔ یہ اصل میں معاصر انگلینڈ میں ہندوستانی تارکینِ وطن کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی ہے۔ اس کے دو مرکزی کردار جبریل فرشتہ اور صلاح الدین چمچہ ہندوستانی مسلم پس منظر کے دو اداکار ہیں۔ یہ کہانی گویا فرشتہ کے کردار کے ذہن کے خوابوں کی کچھ سلسلہ وار کڑیاں ہیں۔ ایک سلسلہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کی ایک افسانوی داستان ہے،جس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے ایک توحید پسند انسان مشرک لوگوں میں توحید پر مبنی مذہب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سلسلے میں مرکزی حیثیت شیطانی آیات والے واقعے کو حاصل ہے، جس کے مطابق ایک موقع پر حضورﷺ کی زبان سے قرآن کی تلاوت کے دوران کچھ ایسے کلمات نکل گئے ، جس میں اہل مکہ کی بعض دیویوں کی سفارش کے مقبول ہونے کی بات کی گئی تھی، لیکن بعد میں ان الفاظ کو شیطان کی آمیزش قرار دے کر مسترد کر دیا گیا۔ یہ واقعہ بدقسمتی سے مسلم لٹریچر میں بھی بیان کیا گیا ہے،اگرچہ محققینِ اسلام اس کو ایک جعلی واقعہ قرار دیتے ہیں،لیکن بہر حال یہ مسلم لٹریچر میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہندوستانی کسان لڑکی عائشہ کا کردار ہے، جو جبریل فرشتہ سے وحی وصول کرتی ہے اور اپنی کمیونٹی کو مکہ کی زیارت پر لے جانے کے لیے تیار کرتی ہے، ایک اور سلسلہ بیسویں صدی کے آخر کے ایک غیر ملکی جنونی مذہبی رہنما امام کا کردار پیش کرتا ہے، جو بالواسطہ طور ایرانی مذہبی رہنما روح اللہ خمینی پر طنز کی ایک صورت دکھائی دیتا ہے۔

اگرچہ رشدی نے کئی موقع پر واضح کرنے کی کوشش کی اس کا یہ ناول اسلام کے خلاف نہیں ہے،مثلاً 28 دسمبر 1990 کو نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دینے ہوئے اس نے کہا کہ ” اس کا ناول کبھی توہین آمیز نہیں تھا۔ اس کے مطابق جبرائیل کی کہانی دراصل یہ بتاتی ہے کہ کیسے انسان کو ایمان کے ضائع ہونے سے تباہ کیا جاسکتا ہے۔ اس نے مزید واضح کرنے کی کوشش کی کہ مذاہب پر حملوں والے کردار مذاہب کے ابتدائی عمل کے نمائندے ہیں اور مصنف کے نقطہ نظر کی نمائندگی نہیں کرتے۔” مگر اس توجیہہ کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ رشدی اپنے کرداروں اور ان کے ناموں کو جس طرح استعمال کرتا ہے ،اس میں اس نوع کے مسلم کرداروں کی توہین نکلتی ہے۔ اس لیے اس کو توہین آمیز کہنا بے جا نہیں۔ اس کے عنوان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ رشدی اس کو عنوان کے ذریعے اٹریکٹو بنانا چاہتا تھا،ورنہ کہانی کے پلاٹ سے اس کا عنوان بظاہر میچ نہیں کرتا ،شیطانی آیات جسے مسلم لٹریچر میں قصۂ غرانیق سے تعبیر کیا جاتا ہے،ایک اکیڈمک بحث ہے، جو مسلم اور مغربی مصنفین میں اس سے پہلے بھی بحث و جرح کا موضوع رہی ہے اور اب تک بھی ہے،اس کو ناول میں ایک سلسلے کے طور پر بیان کرنا تو چلو ایک الگ بات ہے ،لیکن اس کو ایسے ناول کا عنوان بنا نا، جس میں مختلف مسلم مقدس شخصیات کے ناموں کو بھی توہین آمیز انداز سے ڈپکٹ کیا گیا ہو، اسلام کے حوالے سے مصنف کے برے اردوں کا مظہر دکھائی دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس ناول کا دفاع اس حوالے سے کرنا کسی طرح ممکن نہیں کہ اس میں اسلام کی توہین شامل نہیں۔

ایسے واقعات پر اہلِ اسلام کا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟
اب ظاہر ہے کہ اس طرح کے توہین آمیزرویے پر مسلمانوں کی طرف سے سخت ردعمل فطری بات ہے۔ لیکن اس سخت رد عمل کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں۔سخت ردعمل کی ایک صورت تو پاپولر رویہ ہے ، جس کی رو سے یہ سمجھا اور قرار دیا جاتا ہے کہ متعلقہ شخص کو قتل کر دیا جائےاور اس کے لیے کسی اصول و قانون کی پابندی ضروری نہیں۔دوسری صورت یہ ہے کہ اس کو معاصر اصولی و نظریاتی تناظر میں اصولی ، علمی و قانونی انداز سے ڈیل کیا جائے۔دونوں رویوں کے اپنے اپنے اثرات و نتائج ہیں۔ اگر ہم اسلام اور مسلمانوں کے فائدے کے تناظر میں جائزہ لیں تو ہمارے نزدیک پہلا رویہ دوسرے کے مقابلے میں سخت نقصان دہ نظر آتا ہے،اور قرآنی اصول اثمھما اکبر من نفعھما (ان کا نقصان ان کے نفعے سے بڑا ہے)کے تناظر میں دیکھیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ دوسرا رویہ اختیار کریں جس میں فائدہ زیادہ ہے۔

قتل کے جواز کا رویہ اختیار کرنے سے چند در چند نقصانات اس طرح سے سامنے آتے ہیں کہ مثلاً جب کسی ایسے شخص کو قتل کیا جاتا یا قتل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،تو ایک تو مسلم مخالف لوگ اسے مسلمانوں کی انتہا پسندی و دہشت گردی کی دلیل کے طور پر پیش کرنے لگتے ہیں، اور دوسرے جس مقصد کے لیے مسلمان یہ اقدام کرنا چاہتے ہیں، وہ حاصل ہونے کی بجائے الٹا اس کو نقصان پہنچتا ہے۔وہ اس طرح کہ بہت سے لوگ بہ طور ِخاص مغربی ماحول میں اسے آزدیِ اظہار کے خلاف سمجھتے ہوئے اس پر اپنی پختگی کے اظہار کے طور پر مزید توہین کے مرتکب ہوتے ہیں یا اس کا پروگرام بناتے ہیں،ان لوگوں کا نظریہ(چاہے مسلمان اس کے کتنے بھی مخالف ہوں) واضح طور پر یہ ہے کہ ہم کو آزادی ِاظہار کے لیے کوئی بھی قربانی دینی چاہیے؛ہم اس کو دبانے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے۔اس نظریے پر عمل کا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ بہت سے مزید لوگ توہین کے مرتکب ہوتے ہیں،یوں اہل اسلام کا جو مقصد توہین روکنے کا تھا، معاملہ اس کے الٹ ہو جاتا ہے، یعنی توہین اور زیادہ ہو جاتی ہے۔ایک اور چیز جو اس سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے، وہ یہ سامنے آتی ہے کہ وہ شخص جو بالکل غیر اہم ہوتا ہے،پوری دنیا میں مشہور ہو جاتا ہے اور بہت سے لوگ اس کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے اور اس کے فالور بن جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں اس کا لٹریچر جو صرف چند لوگوں تک محدود ہوتا ہے،لاکھوں کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے،جس سے نہ صرف متعلقہ شخص کو مالی فائدہ ہوتا ہے،بلکہ او ر بہت سے لوگ اسی راستے سے فائدہ سمیٹنے کا رویہ اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ذرا سلمان رشدی اور اس کے متعلقہ ناول کی مثال لیجیے :

سلمان رشدی کا پہلا ناول گریمس جو 1975 میں شائع ہوا، کو ادبی حلقوں میں بالکل توجہ نہیں ملی اور اسے مکمل اگنور کیا گیا۔اس کے دوسرے ناول مڈنائٹس چلڈرن، جو 1981 میں شائع ہوا، کو البتہ تھوڑی پذیرائی ملی ،اسے بوکر پرائز سے نوازا گیا، لیکن یہ پرائز 1969 سے دیا جاتا ہے اور اس سے پہلے بارہ سال تک مختلف ادیبوں کو دیا جاتا رہا، اب بھی دیا جاتا ہے ،اس کو پچاس سال سے اوپر کا عرصہ ہو گیا ،لیکن اس پرائز کے حاملین میں سے کتنوں کے لوگ صرف نام بھی جانتے ہیں! اس کے بعد بھی رشدی کی بعض کتابیں اور ناول آئے ،لیکن اس کو بہت زیادہ اہمیت پھر بھی حاصل نہ ہوئی ۔اس کو اصل شہرت “سٹینک ورسز “یا “شیطانی آیات ” کے بعد اس وقت ملی جب اس پر شدید مسلم ردعمل پُر تشدد مظاہروں کی صورت میں سامنے آیا ۔ یہ کتاب ستمبر 1988 میں شائع ہوئی۔جنوری 1989 کے وسط تک برٹش بک سیلر ڈبلیو ایچ سمتھ ہفتے میں بمشکل اس کی ایک سو کاپیاں فروخت کرتا تھا،لیکن فروری 1989کے وسط میں پاکستان میں اس کے خلاف زبردست مظاہروں کے بعد جب ایرانی مذہبی رہنما روح اللہ خمینی نے رشدی کے خلاف قتل کا فتوی جاری کیا، تو اس کے بعد یہ کتاب اتنی تعداد میں فروخت ہوئی کہ ڈینئل سٹیل کی دوسرے نمبر پر بیسٹ سیلر کتاب “سٹار” سے بھی پانچ گنا زیادہ فروخت ہوئی۔ مئی 1989 یعنی مسلم ردعمل کے صرف چار مہینوں کے اندر اس کتاب کی سات لاکھ پچاس ہزار کا پیاں فروخت ہوئیں اور رشدی نے صرف ایک سال میں اس کتاب کی فروخت سے دو ملین ڈالر کمائے، اور یہ کتاب امریکہ کی وائکنگ پبلشنگ کمپنی کی اب تک کی بیسٹ سیلر کتاب ہے۔

اوپر کی بحث سے ہم نے واضح کر دیا کہ اس حوالے سے جو رویہ مسلمانوں نے اپنا یااس کا فائدے کی بجائے بہت زیادہ نقصان ہوا ، اس کے نتیجے میں رشدی کو بہت زیادہ پذیرائی ملی؛مالی فائد ہ ہوا توہین آمیز مواد پھیلا اور بہت سے ایسے ذہنوں کو بھی اس طرف متوجہ کیا جو دوسری صورت میں کبھی متوجہ نہ ہوتے۔لیکن اس پر سوال پیدا ہوتا کہ کیا مسلمانوں کو ایسے کام پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے تو اس حوالے سے عرض ہے کہ ضرور کرنا چاہیے،لیکن اس ضمن میں معاصر نظری و عملی حرکیا ت کو پیش رکھتے ہوئے کرنا چاہیے۔ ان حرکیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اعتراض و نقد کی صورتیں درج ذیل ہیں :
1۔کسی ادبی یا علمی یا اس تناظر میں پیش کردہ کام کا جواب اسی فن اور انداز سے دینا چاہیے، اس طرح جتنے لوگوں کے اس سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے، ان کو اس کے خلاف دلیل مل جائے گی۔
2۔ اس کے خلاف، اگر کسی جگہ میسر ہو، تو قانونی اقدام کیا جائے،اور اگر قانونی اقدام کی کوئی صورت نہ ہو تو اس کے لیے قانون بنوانے کے لیے معاصر مسلمہ طریقِ دباؤ ،جیسے اس پر علمی تحریروں اور پر امن احتجاج اور ریلیوں وغیرہ کے ذریعے متعلقہ معاشروں کو ایسی قانون سازی پر قائل کیا جائے اور اس کے لیے انھی کے قوانین سے حوالے تلاش کرکے پیش کیے جائیں۔ مثلاً توہین رسالت کو قابل تعزیر جرم قرار دلوانے کے لیے مغرب میں ہولوکاسٹ کے انکار کے جرم ہونے وغیرہ سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ اسی طرز پر اسے بھی جرم ہونا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تاہم جہاں آپ رہتے ہیں وہاں کے قانون کا احترام ہونا چاہیے۔کسی بھی مذہبی جواز سے اس کی مخالفت دین کے حوالے سے بھی نقصان دہ ہے، اور اس کا دینی جواز بھی کوئی نہیں۔ مذہب بھی آپ پر اس قانون کی پا بندی لازم ٹھہراتا ہے،جس کی پابندی آپ نے اپنے عہد کے لحاظ سے قبول کی ہے۔ یعنی آپ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کے قانون کی پابندی آپ پر شرعاً ضروری ہے، اس لیے کہ آپ نے اسی قانون کے تحت وہاں رہنا قبول کیا ہے، جب آپ اس کی مخالفت کرکے کوئی ماورائے قانون اقدام کریں گے تو شرع کی بھی مخالفت ہوگی۔ اگر آپ کو اس کا قانون شریعت کے خلاف لگتا ہے، تو آپ وہاں رہنا قبول نہ کریں۔یہ بات شرعا درست نہیں کہ آپ قانون کی پابندی کا وعدہ کریں اور پھر اس کو توڑدیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply