مہک ملک برائے فروخت۔۔ثاقب لقمان قریشی

میرے موبائل پر ٹک ٹاک کی ایپلی کیشن نہیں ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ مجھے اس ایپ سے ڈر لگتا ہے۔ ڈر کی وجہ کسی کام پر توجہ دینے کا ٹائم فریم ہے۔ ٹک ٹاک کی ویڈیوز کم دورانیے کی ہوتی ہیں۔ ان پر زیادہ وقت گزارنا ہماری توجہ کے دورانیے کو انتہائی تیزی سے کم کر رہا ہے۔ کتابیں پڑھنے اور ڈاکیومنٹریز دیکھنے کی عاد ت کو ختم کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل چیزوں پر توجہ دینے کی بجائے فوری نتیجہ چاہتی ہے۔

گوگل، یوٹیوب، وٹس ایپ اور انسٹاگرام وغیرہ جیسی چیزیں بنا کر دنیا کی معلومات چرانے والا اور دنیا کی ذہن سازی کرنے امریکہ والا بھی ٹک ٹاک سے پریشان ہے۔ امریکہ کے تھنک ٹینکس کا خیال ہے کہ اگر ٹک ٹاک کو لگام نہیں دیا گیا تو مستقبل میں مغربی ممالک میں حکومتیں بنانے اور گرانے میں ٹک ٹاک اہم کردار ادا کرے گا۔

ٹک ٹاک کے بارے میں میرے جیسے پرانے زمانے کا آدمی جیسی بھی رائے رکھتا ہو لیکن ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ اس وقت ٹک ٹاک دنیا میں تفریح فراہم کرنے کے بڑے ذرائع میں سے ایک ہے۔ ٹک ٹاک کی وجہ سے بہت سے نامعلوم نوجوانوں نے شہرت حاصل کی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ٹک ٹاک کمائی کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔

ٹک ٹاک سے ایک خواجہ سراء نے خوب شہرت حاصل کی۔ والدین نے ان کا نام کاشان راجپوت رکھا تھا۔ خواجہ سراء کمیونٹی میں قدم رکھنے کے بعد کاشان نے اپنا نام مہک ملک رکھ لیا۔ مہک ملک کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے۔ پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ پھر اساتذہ اور بچوں کے رویئے سے تنگ آکر تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا۔ مہک کو سکول چھڑوا کر والد نے درزی کی دکان پر بٹھا دیا۔ یہاں بھی مہک کو انہی رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔ درزی کی دکان پر رہتے ہوئے مہک نے خواجہ سراء کمیونٹی سے تعلقات استوار کرنا شروع کر دیئے اور موقع ملتے ہی گھر کو خیر آباد کہہ دیا۔

مہک نیلی نام کی خواجہ سراء کے پاس چلی گئی۔ مہک کی خوبصورتی، شوخ اور چنچل ادائیں نیلی کو بہت پسند آئیں۔ نیلی نے انھیں ڈانس سیکھنے کا کہا۔ ڈانس کی تعلیم سیکھنے کے بعد مہک نے نجی محفلوں میں اپنے جلوے دکھانا شروع کر دیئے۔ مہک نجی محفلوں میں ڈانس سے مشہور ہو گئیں۔ مہک کے ڈانس کی بکنگ مہینوں پہلے ہونے لگی۔

2016ء میں مہک کو ملکی سطح پر شہرت ملی۔ مہک کو ڈیرہ غازی خان میں ایک نجی محفل میں مدعو کیا گیا۔ لوگ مہک کے ڈانس پر جھوم رہے تھے۔ ایک منچلہ نوجوان مہک کے ڈانس کی ویڈیو بناتا رہا۔فنکشن کے بعد اس نے یہ ویڈیو یوٹیوب پر اَپ لوڈ کر دی۔ یہ ویڈیو اتنی وائرل ہوئی کہ مہک شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔

مہک کے نیلی سے اختلافات ہوگئے۔ اور مہک نے نیلی کو چھوڑ دیا۔ نیلی کو چھوڑنے کے بعد بھی مہک کی شہرت میں کمی نہ آئی۔ پھر مہک نے ٹک ٹاک جوائن کر لیا۔ مہک کے ڈانس کی ویڈیوز جب ٹک ٹاک پر چلیں تو لوگوں  نے بہت پذیرائی کی ۔ مہک نے اپنی دلفریب اداؤں سے مزاحیہ ٹک ٹاک بنانا شروع کیے جنھیں بہت سراہا گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ میڈیا مہک کے پیچھے ہوتا ہے اور مہک کے پاس میڈیا کیلئے ٹائم نہیں ہوتا۔

مہک کی زندگی کا ایک اور بھی منفرد پہلو ہے۔ وہ یہ کہ مہک باقاعدگی سے نماز پڑھتی ہیں۔ مختلف مساجد میں لیکچر دیتی ہیں اور تبلیغیوں کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ مہک کے مولانا طارق جمیل سے بھی قریبی تعلقات ہیں۔ کچھ لوگ مہک کی ان حرکات کو دوغلا پن قرار دیتے ہیں۔ جبکہ بہت سے لوگ انھیں سراہتے بھی نظر آتے ہیں۔

چند روز قبل میڈم صباہ گل نے مجھے مہک کی ایک ویڈیو بھیجی جس میں مہک دیکھنے والوں سے کہتی ہیں کہ پاکستان کو آزاد ہوئے پچھتر سال بیت چکے ہیں۔ لیکن یہاں رہنے والے خواجہ سراء آج بھی گرو چیلا سسٹم میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس سسٹم میں اچھے بُرے دونوں لوگ پائے جاتے ہیں۔ سب گرو بُرے نہیں ہوتے۔ یہ ویڈیو میں اپنی سیفٹی کیلئے بنا رہی ہوں۔ میری گرو مجھے پچاس لاکھ میں فروخت کرنا چاہتی ہے۔ میں خواجہ سراء کمیونٹی سے کہنا چاہتی ہوں کہ کوئی بھی گرو میری مبارکی نہ لے۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ مجھے اور قانون کو اپنے مدمقابل پائے گی۔ کیونکہ ہمارے ملک کا آئین اور قانون انسان کی خریدوفرخت کی اجازت نہیں دیتا۔

اس بات پر کچھ بُرے گرو حضرات نے مجھے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا۔ کیا ہوا اگر تم گرو کو پچاس لاکھ روپے دے دو گی۔ ویڈیو میں مہک ان گرو حضرات کو جواب دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ انسان کی عزت اور وقار بھی کسی چیز کا نام ہے۔ میری چھوٹی سی غلطی پر مجھ سے وجہ پوچھنے کی بجائے فروخت کر دینا زیادتی نہیں ہے؟

مہک کہتی ہیں کہ آج سے چند سال قبل میں راولپنڈی اپنی فیملی سے ملنے گئی۔ کچھ فنکشنز کیے۔ خواجہ سراؤں کے ساتھ کچھ لین دین کیا۔ تھوڑے پیسے اکٹھے ہوئے تو سوچا کہ اتنے عرصے بعد فیملی سے ملنے جا رہی ہوں کیوں نا  کچھ سونے کی چیزیں تحفے میں دے دوں۔ گرو نے سونے کی چین، بالیاں اور نیکلس اتار لیے۔ کہنے لگی تم مجھے بتائے بغیر اپنی فیملی میں گئی ہو۔ اس لیے سزا کے طور پر یہ چیزیں تم سے لی جا رہی ہیں۔ مہک کہتی ہیں کہ انھیں اسی قسم کا جرمانہ ایک مرتبہ اور بھی ادا کرنا پڑا ۔ اس مرتبہ تو حد ہی ہوگئی۔ مہک ببلی کو بتائے بغیر کہیں چلی گئیں تو پتہ چلا کہ گرو نے مہک کی پچاس لاکھ روپے میں بولی لگا دی ہے۔

مہک کہتی ہیں کہ ہمارے ملک کے تمام خواجہ سراء گروؤں کے بدترین رویئے کا شکار ہیں۔ گرو اپنے ہر چیلے کا مخصوص بھتہ مقرر کر دیتے ہیں۔ اب اس کے پاس کام ہے یا نہیں بھتہ تو دینا ہی دینا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر جرمانہ، سزا یا خواجہ سراء کو بیچ دینا معمولی سی بات ہے۔

ویڈیو میں مہک اپنی گرو ببلی اور ملک کے تمام گروؤں کو مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ سب ببلی سے دور رہیں۔ انھیں بیچنے اور خریدنے والی دونوں پارٹیز کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ہماری بہت اچھی دوست میڈم صباء گل نے گرو چیلا سسٹم میں ہونے  والی زیادتیوں اور خرید و فروخت کے خلاف آواز اٹھا رکھی ہے۔ صباء اب تک اٹھارہ ہزار خواجہ سراؤں کو گرو چیلا سسٹم سے آزادی دلوا چکی ہے۔ صباء کہتی ہیں کہ انھوں نے جب سے گرو چیلا سسٹم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اس وقت سے انھیں ڈرانے اورجان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔ صباء کہتی ہیں کہ جب تک یہ گرو چیلا سسٹم کے اندر کی خامیوں کو دور نہیں کر لیتیں چین سے نہیں بیٹھیں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گرو چیلا سسٹم کے حوالے سے میں اپنی رائے بہت سے کالمز میں دے چکا ہوں۔ میں خواجہ سراؤں کے تمام ڈیروں کو رجسٹرڈ کرنے کا حامی ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈیروں کو ری-ہیب سینٹرز کا درجہ دیا جائے۔ گرو حضرات کو سرکاری عہدہ فراہم کیا جائے۔ ڈیروں میں تعلیم صحت اور روزگار کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ حکومت اگر ہماری گزارشات پر عمل نہیں کرے گی تو ان ڈیروں سے تعفن اسی طرح پھیلتا رہے گا اور معاشرے کو آلودہ کرتا رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply