میخائیل گورباچوف ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

زارِ روس کے خلاف بڑھتی مزاحمتیں سیاسی جماعتوں کی شکل اختیار کرتے ہوئے بالآخر 1898 عیسوی میں ایک بڑی جماعت رشین ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کی صورت میں سامنے آئیں، ان کی فکری بنیاد مارکس اور اینگلز کا فلسفہ تھا، پانچ سال بعد پارٹی میں دراڑ پڑی، ایک گروہ بورژوا ڈیموکریٹک انقلاب میں ان، بورژوا ، کو شامل کرنے پر تیار نہ تھا، یہ گروہ خالص لیبر اور صنعتی انقلاب کا خواہاں تھا، اس گروہ کے لیڈر ولادیمیر ایلئچ اولیانوف (لینن )تھے، جبکہ دوسرا گروہ صنعتی کی بجائے، لیبر اور بورژوا کو انقلاب میں آگے لانا چاہتا تھا کہ روس جیسے زرعی ملک میں صنعت سے جڑے لوگوں کی تعداد تین فیصد سے زیادہ نہ تھی، اور حکومت کاری کیلئے بورژوا کا زرخیز ذہن درکار تھا، اس گروہ کے لیڈر یولی مارتوف تھے، جماعت میں ووٹنگ ہوئی اور لینن کا گروہ زیادہ ووٹ لے کر بولشیویک (زیادہ تعداد والا )، جبکہ مارتوف کا گروہ کم ووٹ لے کر مینشیویک (کم تعداد والا ) کہلایا جانے لگا، اگرچہ زمینی سطح پر مینشیویک کے ووٹوں کی تعداد زیادہ تھی، لیکن جمہوریت میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں کہ آپ پارلیمانی یا جماعتیں الیکشن زمینی ووٹوں کی کم تعداد کے باوجود جیت سکتے ہیں، بولشیویک کا دفاعی ونگ، ریڈ آرمی، اور مینشیویک کا دفاعی ونگ، وائٹ آرمی کہلایا جانے لگا۔
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر زارِ روس کو تخت سے ہٹایا جاتا ہے، اور یہ کام درحقیقت مینشیویک نے کیا، لیکن انقلاب کی اس بھاگ دوڑ میں اقتدار پر بولشیویک اپنی ریڈ آرمی کی مدد سے قابض ہوگئے، ایسے ہی جیسے ایرانی انقلاب کو برپا کرنے والے طلباء تھے لیکن یہ انقلاب امام خمینی کی سربراہی میں علماء نے ہائی جیک کرلیا۔
لینن کے سربراہ بنتے ہی زار اور اس کے حامیوں کے ساتھ ساتھ ، بورژوا ،مینشیویک اور بالخصوص وائٹ آرمی کے خلاف آپریشن شروع ہوا ، لاکھوں افراد مارے گئے، لاکھوں دنیا کے مختلف کونوں میں ہجرت پر مجبور ہوئے اور کچھ نے اپنی شناخت بدل کر سوویت یونین کے دوردراز علاقوں میں اپنی زندگی کے باقی دن کسمپرسی میں گزارے، کیمونزم کو مکمل طور پر نافذ کردیا گیا، اقتدار ایک شخص کے ہاتھ میں آگیا، یونین کے ہر فرد کیلئے ریاست سے وفاداری کا تقاضہ کیا جانے لگا ، اس کا عملی ثبوت کیمونسٹ پارٹی کا وفادار ہونا اور کسی بھی متضاد فکر کی بو سونگھتے پر مقامی پارٹی دفتر میں اطلاع دینا تھا، اور یہ ” غداری” کی بو چاہے فرد کے بھائی، والد ، بیوی یا بیٹے سے ہی کیوں نہ آرہی ہو، ان شبہات میں گرفتار اور مرنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی رہی، اور اس کا عروج ایوسف واتسریانووچ جوگش ویلی ( سٹالن ) کے دور میں ہوا، سٹالن دور میں ریاست کے ان ” غداروں ” کے خلاف ہوئے آپریشن پر سب سے معروف کتاب Gulag Archipelago ہے، مصنف متضاد فکر کی وجہ سے ریاست کے مظالم کا کئی سال تک شکار رہے، ان کے مطابق سٹالن کے ہاتھوں مرنے والے انسانوں کی تعداد دس کروڑ ہے، اگرچہ مؤرخین اسے مبالغہ گردانتے ہیں اور مقتولین کی تعداد لگ بھگ دو کروڑ بتاتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ دوسری جنگ عظیم درحقیقت سوویت یونین نے جیتی ، لیکن مفکرین یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ جنگ سٹالن نے تو جیتی مگر سوویت یونین انسانوں کی بہت بڑی جانی قربانی کی وجہ سے ہار گیا، یہاں ایک سوال یہ بھی اٹھایا جانا چاہئے کہ اس جنگ میں آخر سوویت یونین کو کس وجہ سے لاتعداد فوجی اور سویلین اموات کا سامنا کرنا پڑا، وسائل کی کمی اور ٹیکنالوجی میں جرمنی سے پیچھے رہ جانے کے علاوہ ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جنگ سے قبل کے چند سالوں میں عسکری ، سیاسی، انتظامی اور معاشی میدانوں میں ہر اس شخص کو سائیبیریا جیلوں میں مرنے کیلئے بھیج دیا گیا تھا جس پر کسی بھی وجہ سے کیمونزم کے متضاد فکر کا ہلکا سا بھی شبہ تھا، نتیجے میں ہر ادارہ قابل انسانوں سے ہاتھ دھو بیٹھا اور جنگ کے دوران روسی آدمی کے پاس وطن کے دفاع کیلئے، دشمن کے خلاف اپنا سینہ حاضر کرنے کے علاوہ کوئی سٹریٹیجی نہ تھی، لوگوں کو ان کے بھیانک انجام تک پہنچانے کا کام ریاستی اداروں کی مدد سے کیا جاتا، ان اداروں کے نام مختلف ادوار میں بدلتے رہے، آخری نام بدنام زمانہ ، کے جی بی، تھا۔
سوویت یونین کے مثبت پہلو بھی تھے، جیسا کہ کل کے بارے میں فرد پریقین تھا، کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اگلی صبح وہ اپنی نوکری یا کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھے گا، زندگی کیلئے تمام ضروری اشیاء کے ریٹس فکس تھے، تعلیم اور علاج مفت تھا، ہر شخص کی رہائش کا انتظام حکومت کی زمہ داری تھی، روٹی کپڑا مکان ہر شخص کا بنیادی حق تھا،،،،البتہ فکری آزادی پر پابندی تھی، مذہب ممنوع تھا، مقابلے کی فضا ناپید تھی، اسی وجہ سے پیسہ ہونے کے باوجود افراد کئی لگژری اشیاء تک دسترس نہ رکھتے تھے، گاڑی خریدنے کی سکت کے باوجود فرد کو کئی کئی سال اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا، ہر ادارہ ریاست کے ماتحت تھا۔
کیمونزم کی ابتداء سے ہی روس نے اپنے گرد ایک آہنی پردہ کھینچ لیا، جو سوویت یونین کے لگ بھگ آٹھ دہائیوں تک برقرار رہا، لینن، سٹالن، خروشوف، بریژنیف کے ادوار میں یہ آہنی پردہ جوں کا توں برقرار رہا، یونین کا باقی دنیا سے رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا۔
1988 ء میں میخائیل گورباچوف سوویت یونین کے سربراہ بنتے ہیں، وہ ساری زندگی کیمونسٹ پارٹی کے ممبر رہے، کیمونزم یا دیگر ایسے نظاموں کے نفاذ میں جو سنگدلی اور بربریت درکار تھی، گورباچوف فطرتاً اس سے عاری تھے، سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن گورباچوف دل رکھتے تھے جو دھڑکتا بھی تھا اور تڑپتا بھی تھا، انہوں نے امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ کو ترک کیا کہ ریاست اور اس کے سربراہ کو جنگ کی بجائے امن کی کوششیں کرنی چاہئیں ، وہ افغان جنگ کے حق میں نہ تھے، انہوں نے افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا حکم دیا، یونین کے سربراہ بننے کے بعد وہ کیمونزم کی بجائے سوشل ڈیموکریسی کا جھکاؤ رکھتے نظر آئے اور اس کا برملا اظہار کرتے رہے، اس وقت تک یونین اپنی معاشی کمزوری کی وجہ سے اپنا وجود برقرار رکھنے سے قاصر تھی اور گورباچوف اس میں کوئی قباحت نہ دیکھتے تھے، تب تک یونین کی ہر ریاست سے اقتدار کیلئے موزوں افراد سامنے آ چکے تھے، اور یوں یونین کو توڑا گیا، گورباچوف مستعفی ہوئے، ہر ریاست مقامی سربراہان کے حوالے کی گئی، روس کے پہلے صدر ییلسن مقرر ہوئے۔
آج پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو روس اور سوویت یونین کی دیگر سابقہ ریاستوں میں کہیں بھی جمہوریت نظر نہیں آتی، اس کی ایک بڑی بلکہ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ گورباچوف نے ڈکٹیٹرشپ کو جمہوریت سے بدلنے میں شاید جلد بازی سے کام لیا، دو سال کا عرصہ ایسے ارتقاء کیلئے بہت کم تھا، اس وقت سوویت یونیینchekist mentality پر قائم تھی، Cheka کیمونسٹ ریاست کی خفیہ پولیس کو کہا جاتا ہے اور اس میں کام کرنے والا chekist کہلائے گا،،،chekist کا بنیادی کام لوگوں میں سے دشمنوں کو ڈھونڈھنا ہے جبکہ سیاست انسانوں کے درمیان سے دوستوں کی تلاش کا نام ہے۔
گورباچوف رخصت ہوئے، کیمونزم اور سوویت یونین سے محبت رکھنے والے انہیں ایک کمزور شخص مانتے رہے، کچھ غدار تک کہتے، لیکن اپنی تمام تر کمزوریوں اور غلطیوں کے باوجود انہوں نے جس سیاسی وجغرافیائی تبدیلی کی داغ بیل ڈالی وہ ارتقاء کیلئے ناگزیر تھیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply