انتھونی گاوڈی کا شہر۔۔یاسر پیرزادہ

بارسلونا شہر میں قدم رکھتے ہیں پہلا احساس یہ ہوا کہ کسی ’نارمل ‘ یورپی شہر میں آگئے ہیں ، ایبیزا کے برعکس یہاں خواتین نے خاصا شریفانہ لباس پہن رکھا تھا ، بے شک لڑکیاں مختصر سکرٹس اور نیکر پہن کر بھی گھوم رہی تھیں مگر ایبیزا کے مقابلے میں یہ ہمیں پردہ دار بیبیاں ہی لگیں ۔بارسلوناکے ساحل پر بھی ہم یہی سوچ کر گئے کہ شاید یہاں ایبیزا والی بات ہو لیکن یوں سمجھیں کہ ’ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی ، مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی ۔‘بارسلونا یورپی شہر وں کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے،صاف ستھری آب و ہوا، خوشگوار موسم، ساحل سمندر، تاریخی عمارات ، کیفے، شاپنگ سینٹر اور عجائب گھر ۔لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں کی ہر بات مثالی ہے اور اپنے ہاں کی ہر شے ناکارہ۔بارسلونا کی آبادی صرف سترہ لاکھ ہے مگر اِس کے باوجود شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک جانے میں کافی وقت لگ جاتا ہے ،شاید اِس کی وجہ ٹریفک کے اشارے ہیں جو چپے چپے پرموجود ہیں ،میں نے اتنے اشارے کسی اور شہر میں نہیں دیکھے، یہ اشارے بندےکو زِچ کر دیتے ہیں۔ اِس کے مقابلے میں اپنے لاہور کی آبادی سوا کروڑ سے زیادہ ہے ، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی بھی عام ہے مگر پھر بھی یہاں ایک سڑک پر اتنا وقت نہیں لگتا جتنا بارسلونا میں لگتا ہے۔ہم اکثر اپنے شہروں کا رونا روتے ہیں کہ یہاں سڑکوں پر لوگ اپنے فن کا مظاہرہ نہیں کرتے ، کوئی گٹار بجانے والا، طبلہ یا بانسری بجانے والا نظر نہیں آتا جبکہ یورپ میں یہ لوگ شہروں کی رونق ہوتے ہیں ۔ چند برس پہلے جب میں بارسلونا آیا تھا تو یہاں ’رمبلا ‘ کے علاقے میں اِس قسم کے فنکار موجود تھے مگر اِس مرتبہ یہ لوگ نظر نہیں آئے ، بارسلونا میں ہمارے میزبان عامر سعید نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے انہیں وہاں سے اٹھا دیا ہے۔چونکہ یہ کام بارسلونا کی انتظامیہ نے کیا تھا لہذا ہم کہنے پر مجبور ہیں کہ ٹھیک ہی کیا ہوگا ، کیڑے نکالنے کے لیے اپنےشہر جو موجود ہیں ۔ اسی طرح بارسلونا میں چوری چکاری بھی عام ہے، یہ کام ٹورسٹ سیزن میں زیادہ ہوتا ہے ، یہاں رومانیہ اور لیٹویا جیسے چھوٹے یورپی ممالک سےچور آتے ہیں جو تین ماہ کے لیے شہر میں اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں اور پھر چوری کی وارداتیں کرکے اپنے ملکوں میں واپس چلے جاتے ہیں ۔
بارسلونا کو آپ انتھونی گاؤڈی کا شہر کہہ سکتے ہیں ، یہ سپین کا معمار تھا جس کی تعمیر کردہ شاہکار عمارتیں بارسلونا میں موجود ہیں ، ایسی ہی ایک عمارت ’لا سگرادا فیمیلیا‘ ہے جو فن تعمیر کا شاہکار ہے ، ہم نے اِس عمارت کا فقط طواف کیا، اندر جانے کا وقت نہیں تھا لہذا باہر سے ہی تصاویر بنا کر لوٹ آئے، یہ عمارت اب بھی زیر تعمیر ہے اور اسے دیکھنے کے لیے روزانہ ہزاروں سیاح آتے ہیں ۔سیاحت کافروغ یہاں ہر شہر کی اولین ترجیح ہے، جس طرح دو ممالک میں کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں اسی طرح سپین میں شہروں کے درمیان یہ دوڑ لگی رہتی ہے کہ کون سا شہر زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو اپنی جانب کھینچے گا۔بارسلونا کی مئیر ایک عورت ہے جو اِس شہر کی آب و ہوا اور ماحول کے بارے میں سخت فکر مند رہتی ہے، اُس نے نئے ہوٹلوں کی تعمیر پر پابندی لگا رکھی ہے ،یہی وجہ ہے کہ یہاں پرانی عمارتوں پر ہی نئے ہوٹل تعمیر کیے جا سکتےہیں ۔بارسلوناجس صوبے کا دارالحکومت ہے اُس کا نام کاتالونیا ہے ، اِس صوبے میں علیحدگی پسندی کی تحریک چل رہی ہے ، ہر سال یہاں لاکھوں لوگ جمع ہوکر وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں ۔اِس تحریک کی وجہ کاتالونیا کا وفاقی حکومت سے محصولات کی تقسیم پر جھگڑا ہے ، وفاقی حکومت اِن سے بہت سختی سے نمٹتی ہے اور تاحال یہ لوگ اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب نہیں ہوسکے حالانکہ عوام کی بڑی تعداد اِن کے ساتھ ہے۔
بارسلونا شہر کا نظارہ کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہاں کی کیبل کار ہے ، یہ غالباً دو جگہ سے چلتی ہے ، ہم اُس کیبل کار میں بیٹھے جو ساحل سمندر کے اوپر سے ہوتی ہوئی آپ کو دوسری جانب اتار دیتی ہے۔ نیچے گہرے سبز پانی کا سمندر ، ساتھ بلند و بالا عمارات اور اوپر نیلگوں آسمان ، اِن تینوں نے مل کر ایسا خوبصورت سماں پیدا کیا جو دل پر نقش ہوگیا۔یورپ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں کو بھی پروموٹ کرتے رہتے ہیں ۔ لاروکا ایسا ہی ایک خوبصورت قصبہ ہے جو بارسلونا سے پچاس منٹ کے فاصلے پرہے، یہاں انہوں نے ہر برینڈ کا سٹور بنایاہوا ہےجہاں چیزیں قدرے سستے داموں مل جاتی ہیں۔جرمنی اور برطانیہ میں بھی میں نے اسی قسم کے قصبے دیکھے ہیں ، یہ چھوٹے شہروں کو ترقی دینے کا ایک اچھا طریقہ ہے جسےہم بھی اپنا سکتے ہیں۔بارسلونا میں صرف ایک حسرت رہی کہ سپینش آملیٹ نہیں کھا سکا،میں جس ملک میں بھی جاتا ہوں وہاں کاآملیٹ ضرور آزماتا ہوں، سپینش آملیٹ تو ویسے بھی مشہور ہے، ایک کیفے میں دستیاب تھا مگر ’پورک‘ کے ساتھ، لہذا چھوڑ دیا۔یورپ کے شہروں میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ لوگ لکیر کے فقیر ہیں ، اِن سے بحث نہیں کی جا سکتی ،اگر شیف پورک کے ساتھ آملیٹ بناتا ہے تو وہ ایسے ہی دیا جائے گا ، یہ بتانا فضول ہے کہ اِس میں فلاں چیز اضافی ڈال دو اور فلاں مت ڈالو۔عامر سعید نے ہمیں ایک عجیب بات بتائی کہ یہاں لوگوں میں شوقیہ جنس تبدیل کروانے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے ، اِس کام کے لیے یہاں میڈیکل کلینکس ہیں جہاں مختلف قسم کے ہارمونز استعمال کرکے لوگ اپنی جنس تبدیل کرواسکتے ہیں۔پہلے مجھے اِس قسم کی باتیں بہت عجیب لگتی تھیں مگر اب کسی بات پر حیرت نہیں ہوتی ، کل کو اگرلوگ انسان سے سوربننا شروع ہوگئے تو بھی مجھے حیرت نہیں ہوگی ،بلکہ کچھ انسانوں کو میں جانتا ہوں جوپاکستان میں ہیں اور سور بن چکے ہیں ۔
بارسلونا میں ہمارا قیام صرف دو دن کا تھا مگر یہاں آکر احساس ہوا کہ یہ شہرکم از کم سات دن کاوقت مانگتا ہے ، یہاں پکاسو کا میوزیم ہے ، گاؤڈی کی تعمیر کردہ شاہکار عمارتیں ہیں ، دو گھنٹے کے فاصلے پر عظیم سپینش فنکار ڈالی کے فن پاروں پر مشتمل عجائب گھر ہے اور سب سے بڑھ خوبصورت فضا اور خالص خوراک ہے۔یورپ کی طرح بارسلونا میں بھی قانون کی پاسداری سب پر لازم ہے، یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص جرم کرے اور قانون کی گرفت میں نہ آئے مگر جس بات کے بارے میں یہاں بے پناہ سختی ہے وہ ریپ کا جرم ہے ۔ ریپ کا مجرم پولیس کی گرفت میں تو آتا ہی ہے ساتھ پورا معاشرہ بھی اُس پر لعن طعن کرتا ہے اور اگر ریپ کم عمر لڑکی کا ہو تو سمجھیں جیل میں بھی اُس کی خلاصی نہیں ہوتی ،وہاں مار مار کر اُس کا بھرکس نکال دیا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایبیزا ہو یا بارسلونا، عورتیں ساحل سمندر پر بے لباس بھی بیٹھی رہیں تو کوئی اُن کی اجازت کے بغیر ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کرتا۔یہاں ریپ ہونے والی عورت کو الزام نہیں دیا جاتا کہ وہ مختصر کپڑے پہن کر گھر سے کیوں نکلی کیونکہ یہ استدلال اگر درست ہوتا تو سپین سمیت یورپ کی تمام عورتوں کا ریپ ہوچکا ہوتا۔
بظاہر بارسلونا رہنے کے لیے ایک آئیڈیل شہر ہے مگر یہاں رہائش کا حال یہ ہے کہ ایک مرلے سے بھی کم جگہ کے اپارٹمنٹ میں گذارا کرنا پڑتا ہے اور ایسا اپارٹمنٹ بھی ساڑھے تین لاکھ یورو سے کم میں نہیں ملتا ۔ اب یہ من چلے کا سودا ہے ، کٹھا ہے یا میٹھا، جیسا بھی ہے ، فیصلہ بندے نے کرنا ہے کہ کہاں اپنی زندگی گذارنی ہے۔بارسلونا میں یا کراچی میں ۔بشکریہ گردوپیش

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply