انصاف کے مزار۔۔ڈاکٹر حفیظ الحسن

انصاف کے مزار!!
پاکستان میں عدالتی نظام ابتر ہے۔ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی اُسکے عدالتی نظام میں شفافیت سے جڑی ہوتی ہے۔ مگر ایسا کیوں ہے؟ دراصل عدالتیں معاشی اور کاروباری معاہدوں کی پاسداری کی ضمانت دیتی ہیں۔ جب آپ کوئی کاروبار شروع کرتے ہیں یا کوئی کمپنی کھولتے ہیں یا آپ کا زمین پر، جائیداد پر یا کسی اور معاشی معاملے میں کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو آپ عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں۔جہاں سے آپکو انصاف کی توقع ہوتی ہے۔ یوں معاشی نظام کے لیے عدالتی ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ میرے ایک دوست ڈاکٹر سلطان محمود صاحب جو ماہرِ معاشیات ہیں اور ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے وابسطہ ہیں، اُنکا پی ایچ ڈی کا موضوع پاکستان میں عدالتی نظام اور اس سے جڑی معیشت کے حوالے سے تھا۔ اُنکا ایک تحقیقی مقالہ نہایت دلچسپی کا حامل ہے۔ اس مقالے میں وہ جدید سائینسی طریقوں سے اکٹھا کیا گیے ڈیٹا کی مدد سے کمپیوٹر ماڈلز کے ذریعے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ملک میں جہاں جہاں دربار اور اُن سے جُڑے سجادہ نشین خاندان موجود ہیں وہاں وہاں عدالتی فیصلے خاص طور پر نا انصافی پر مبنی ہوتے ہیں۔
اسکی ایک وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ دربار کلچر سے جڑے با اثر افراد سیاست کا حصہ ہیں اور وہ مقامی عدالتوں پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر کے وہاں فیصلے اپنی مرضی کے کرواتے ہیں۔
اس حوالے سے اُنہوں نے اپنی تحقیق میں ملک کے تمام بڑے صوبوں کے 16 ضلعوں کی ہائی کورٹس میں 1986 سے لیکر 2016 تک تقریباً 7500 مقدمات کے فیصلوں کو شامل کیا۔ درباروں کی معلومات اُنہوں نے دو مختلف ذرائع سے اکٹھی کیے۔ پنجاب اور سندھ کے درباروں کی معلومات 1911 تک کے برطانوی راج کی دستاویزات سے حاصل کیں جبکہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے درباروں کی تفصیلات محکمہء اوقاف سے اکٹھی کیں۔
مقدمات کے فیصلوں اور دیگر معلومات سے وہ اس نتیجے پر ہہنچے کہ پاکستان میں دربار کلچر سے جڑے سجادہ نشین مذہب کا استعمال سیاست میں کرتے ہیں اور سیاست میں آ کر حکومتوں میں شامل ہوتے ہیں۔ لہذا انکے خلاف عدالتوں میں فیصلے زیادہ تر انکے اٹر و رسوخ سے انکے یا ریاست کے حق میں ہوتے ہیں۔ان میں زمین یا پراپرٹی سے متعلق فیصلوں میں نا انصافی کے باعث ہر سال معیشت کو بے حد نقصان پہنچتا ہے۔ کتنا نقصان؟ تقریبآ پاکستان کے جی ڈی پی کا 0.06 فیصد۔ یعنی ہر سال 175 ملین ڈالر جو پاکستانی روپوں میں 38 ارب روپے بنتے ہیں ۔ بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply