سیلاب نے ارض ِ پاک کے 3 کروڑ سے زائد افراد کی زندگیوں کو پوری شدت سے متاثر کیا ہے، یہ سیلاب یقیناً بڑی آفات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ ان سیلاب متاثرین کو دیکھ کر بے ساختہ زبان سے اشفاق انجم صاحب کے یہ اشعار جاری ہوجاتے ہیں،
شہر میرا حجرۂ آفات ہے
سر پہ سورج اور گھر میں رات ہے
سرخ تھے چہرے، بدن شاداب تھے
یہ ابھی دو چار دن کی بات ہے
کم و بیش 50 ہزار گھر مکمل ناقابل استعمال اور 30 لاکھ گھروں کو جزوی نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں، جوکہ یقیناً المیہ ہے۔
یاد رکھیے مملکت جمہوری ہو یا بادشاہت کا دور ہو، ہر فرد ریاست کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ مگر ریاست کا کرداد تو ہم سب بخوبی جانتے ہیں، لہذا اس کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے این جی اوز میدان میں اترتی ہیں، اور فنڈز کولیکشن کے بعد متاثر افراد کی داد رسی کرتی ہیں۔
مگر میں جس جانب توجہ دلوانا چاہ رہا ہوں وہ بڑی دل دہلا دینے والی چیز ہے
ذرا غور و فکر کیجئے گا
این جی اوز یقیناً نیک نیتی سے چلتی ہیں مگر سب این جی اوز کا کردار ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کچھ این جی اوز کھاتی زیادہ ہیں لگاتی بہت کم ہیں، کچھ مناسب کھاتی ہیں اور مناسب لگاتی ہیں، جبکہ کچھ این جی اوز صرف فنڈز مستحقین تک پہنچانے کا اہتمام کرتی ہیں اور اپنا دامن صاف رکھتے ہوئے بِنا کسی ستائشی خواہش کے خدائے بزرگ و برتر سے صلہ کی تمنا رکھتی ہیں۔ یقیناً یہ این جی اوز ہی بہترین لوگوں کی وجہ سے چلتی ہیں۔
لیکن ان این جی اوز کے مختلف علاقوں کے ذمہ داران کا الگ حساب ہوتا ہے، اگر کسی ایک شہر کا ذمہ دار ایماندار ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرے شہر کا ذمہ دار بھی ایماندار ہو۔ یہاں این جی او لیول پر تو نہیں البتہ فنڈ ریزنگ لیول پر دو نمبریاں ہوتی ہیں۔
کچھ اسی نوعیت کا ایک ٹکراؤ گزشتہ روز دیکھنے میں سامنے آیا۔
دو نامی گرامی فلاحی تنظیمیں فنڈ ریزنگ میں مصروف تھیں کہ ایک سکول میں فنڈ ریزنگ کے لیے دونوں میں پھڈا ہوگیا، یقین کیجیے ایسی ایسی ماں بہن کی گالیاں بکی جارہی تھیں کہ خدا کی پناہ۔ ایک دوسرے کو دھمکیاں، الزامات نجانے کیا کیا۔
اسی لفظی گولہ باری میں دونوں جانب کے فنڈ ریزرز کی نیک نامی ایسی کھلی کہ میں حیران رہ گیا، یقین کیجیے آپ کھانے پینے کی مثالیں بھول جائیں گے۔
بلکہ شاید آپ پکار اٹھیں کہ،
یہ کیسا گورکھ دھندا ہے یہ کیسا تانا بانا ہے
ان میں سے ایک بندہ کوئی کام دھندہ نہیں کرتا بس کسی نا کسی موقع پر فنڈ ریزنگ سے اپنی گاڑی خریدی ہے، اور اس کا پٹرول پورا کرنے کو ہر کوشش کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ تاکہ شہر کی سیاسی و سماجی شخصیت تصور ہوسکے، اور پھر دوسرے نے فنڈ اکٹھا کر کر کے انتہائی خوبصورت کوٹھی تعمیر کی ہے، اور شہر کی اشرافیہ میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
یہ سب کچھ سامنے نہ ہورہا ہوتا تو ہم ضرور کہتے کہ،
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشاؔ جی کا نام نہ لو کیا انشاؔ جی سودائی ہیں
اب یہ سب باتیں تب کھلی ہیں کہ جب مفادات کا ٹکراؤ ہوا ہے، ورنہ تو یہ سب باتیں شاید ڈھکی رہ جاتیں اور کام پہلے کی طرح چلتا رہتا۔ اور سب سے بڑی بات کہ جس کمرے میں یہ سب ہوا وہاں تقریباً 10 سے 12 لوگ مزید بھی موجود تھے، جنہوں نے یہ ساری کارروائی ملاحظہ فرمائی۔
یہ سب آپ کے سامنے بیان کرنے کا مقصد ہے کہ اگر آپ لوگ کسی خاص موقع پر نیکی کرنا چاہتے ہیں تو کوشش کرکے خود سے وہ نیکی کو پایہ تکمیل تک پہنچائیے، اور اگر کسی این جی او پر مکمل بھروسہ ہے تو اس این جی او کے ہیڈ آفس کے فنڈنگ اکاؤنٹ میں اپنی رقم ٹرانسفر کیجیے۔ ورنہ جہاں درمیان سے تعلق واسطہ نکلے تو کام خراب ہی ہوتا ہے، وہ شاید آپ کی نیکی تو لکھی جائے مگر کسی نہ کام کی نیکی ہوگی۔یعنی کسی کے نفع کا باعث نہیں بن سکے گی۔
میں نے یہاں شہر، این جی اوز کے نام جانتے بوجھتے نہیں لکھے کیونکہ یہ ایک فرد کا معاملہ ہے، کسی فلاحی تنظیم کا اجتماعی مسئلہ ہوتا تو یقینا ًنام لکھ دیتا۔
احتیاط کیجئے، اپنے صدقات و زکوٰۃ حقیقی مستحقین تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش ذاتی طور پر کیجئے، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں