غریبی بیچنے میں نام پیدا کر۔۔علی انوار بنگڑ

دنیا میں موجود تمام ممالک کی اپنی کوئی نہ کوئی پہچان ہوتی ہے. کچھ ممالک اپنے معدنی وسائل کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، کچھ ممالک جغرافیائی لحاظ سے اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں. جیسے پیٹرول، ڈیزل کا نام سنتے ہی دماغ میں عرب ممالک کا نام آتا ہے. بہترین تعلیمی اداروں اور سائنسی ریسرچ کے حوالے سے یورپین ممالک یا امریکہ کا تصور ذہن میں آتا ہے.

لیکن دنیا میں ایک ایسا انوکھا ملک بھی ہے. جس کی سب سے اہم پراڈکٹ غریبی ہے. اس ملک کی معیشت کا دارومدار اسی صنعت پر ہے. اس ملک میں جا بجا فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں، جن کا کام تھوک کے حساب سے غریب پیدا کرنا ہے. ان فیکٹریوں کا منشور ہے کہ غریبی بیچنے میں نام پیدا کر اور اپنا معیار قائم رکھنے کے لیے یہ فیکٹریاں سختی سے اپنے منشور پر عمل درآمد کرواتی ہیں. یہاں یہ فیکٹریاں پائی جاتی ہیں، وہ انوکھا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے.

ہمارے ملک میں غریب پیدا کرنے والی فیکٹری کو چار طرح کے شعبے چلاتے ہیں.
پہلے شعبے میں عوامی نمائندے اور بیوروکریسی شامل ہوتی ہے. جن کے ذمہ ایسا ساز گار ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے جو غریبوں کی تعداد میں اضافہ کرے. ان تک کوئی ایسا موقع نہیں پہنچنے دینا, جس سے ان کی حالت بدل سکے.

دوسرے شعبے میں مذہبی نمائندے اور موٹیویشنل اسپیکرز شامل ہوتے ہیں. جن کی ذمہ داری میں شامل عوام کی ذہن سازی کرنا ہوتی ہے. ان کا کام عوام کو یقین دلانا ہوتا ہے کہ ان کی حالت کی وجہ ان کے اعمال ہیں. دنیاوی تعلیم میں کچھ نہیں رکھا. دنیا کے بڑے بڑے کامیاب انسانوں کے پاس ڈگریاں نہیں تھی. اس لیے پڑھنا بیکار ہے. ان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے، عوام کو اُس راستے سے دور لے جایا جائے، جس پر چل کر انہیں شعور آسکتا ہے.

جو لوگ دوسرے نمبر والے شعبے کی ذہن سازی سے بچ نکلتے ہیں اور آواز اٹھاتے ہیں. تب تیسرے نمبر والا شعبہ حرکت میں آتا ہے. ان کا کام اٹھتی آوازوں کو چپ کرانا ہوتا ہے.

چوتھے نمبر والا شعبہ مالکان پر مشتمل ہوتا ہے. جن کا کام منافعے میں سب کا حصہ مختص کرنا ہوتا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

باقی دنیا میں مختلف اقسام کی نمائشیں منعقد کی جاتی ہیں، جو سیر و سیاحت، آئی ٹی، زرعی اجناس یا دوسرے اہم شعبوں کے حوالے سے ہوتی ہیں. لیکن ہمارا ملک ہر سال غریبی دکھانے کے لیے نمائشوں کا انعقاد کرتا ہے. یہاں غریبوں کی بدحالی دکھا کر پوری دنیا سے چندے بٹورے جاتے ہیں. ریاست کے حکمرانوں نے پورے ملک میں کچھ علاقے مختص کئے ہوئے ہیں، جن کے لیے خاص لوگوں کو اقتدار کی کرسی اور فنڈز دیے جاتے ہیں. تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ان علاقوں کو بدحال رکھے اور اس بدحالی کو بیچ کر اشرافیہ کا پیٹ بھرا جاسکیں. ہر سال بیماریوں، سیلاب اور بھوک سے مرنے والوں کی عالمی سطح پر تشہیر کی جاتی ہے. جسے دیکھ کر دنیا کے بڑے بڑے رئیس، بین الاقوامی آرگنائزیشنز اور امیر ممالک چندے دیتے ہیں. لیکن یہ علاقے اور ان کے باسیوں کی حالت نہیں بدلتی. یہ چندے اشرافیہ کے بنگلے بڑے کرنے اور ان کے خاندانوں کو باہر منتقل کرنے اور سیٹل ہونے پر صرف ہوجاتے ہیں.
وہ کہتے ہیں نا
One man’s loss is another man’s gain.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply