سانولی۔۔ثاقب لقمان قریشی

زمین پر پائے جانے والے تمام جاندار نسل بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انسان بھی انہی جانداروں میں سے ایک ہے۔ جو خاندان اور رشتے ناتے بنانا پسند کرتا ہے۔ انسان نے زمین پر قدم رکھتے ہی رشتے بنانا شروع کر دیئے تھے۔ ہمارے معاشرے میں جیسے ہی لڑکے لڑکیاں جوانی میں قدم رکھتے ہیں والدین کو انکی شادی کی فکر پڑ جاتی ہے۔ لڑکیوں کے والدین بیٹیوں کے بہتر مستقبل کیلئے اچھے لڑکے اور لڑکے والے اچھی لڑکیوں کی تلاش میں نظر آتے ہیں۔ شادی کا بندھن کوئی نیا نہیں ہے۔ زمین پر کھیتی باڑی کے قدیم ترین آثار عرب سے ملے ہیں۔ جو کہ دس سے بارہ ہزار سال پرانے ہیں۔ اس زمانے میں شادیاں زمین اور اناج کو مد نظر رکھ کر کی جاتی تھیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ شہر آباد ہونا شروع ہوئے۔ تو انسان ریاستوں اور قبیلوں میں تقسیم ہونا شروع ہوگیا۔ شادیاں قبیلوں کے سرداروں اور مذہنی پشواؤں کی مرضی اور منشاء سے ہونی لگیں۔ اس زمانے میں شادی کا مقصد گروہوں اور قبیلوں کے تعلقات، زمین اور جائیداد کی تقسیم ہوا کرتا تھا۔
شادی سے متعلق زمین کے مختلف خطوں میں طرح طرح کے رواج پائے جاتے تھے۔ جن کی بنیادی وجہ پانی اور خوراک کی فراہمی ہوا کرتی تھی۔ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں گھر کے سارے مرد ایک ہی لڑکی سے شادی کر لیتے تھے۔ تاکہ زمین اور خوراک ذیادہ تقسیم نہ ہونے پائے۔ اسی طرح چائنہ اور سوڈان میں جنوں سے شادی کا رواج عام تھا۔
مرد سے مرد کی شادی کا باقاعدہ پہلا واقعہ سلطنت روم میں وقوع پزیر ہوا جس میں نیرو نے عوام کے سامنے لڑکے سے شادی کا علان کیا۔ دسویں صدی میں سپین میں بھی اسی قسم کا ایک واقعہ ہوا۔ دنیا کے تمام مذاہب میں ہم جنس پرستی کی سخت ممانعت پائی جاتی ہے۔ پچھلے پچاس ساٹھ سالوں سے ہم جنس پرستی کو خوب فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد کیا ہے؟ کسی اور تحریر میں بیان کریں گے۔
شادی کے بندھن سے متعلق قوانین بھی کوئی نئے نہیں۔ میسوپوٹیمیا سے بائیس سو سال قبل مسیح کا مسودہ ملا ہے جس میں عورت سے کے غیر مردوں سے تعلقات، غلاموں سے جنسی تعلقات سے متعلق ہدایات درج ہیں۔
پسند کی شادی کی تاریخ ذیادہ پرانی نہیں ہے۔اٹھاریویں صدی کو صنعتی انقلاب کا دور کہا جاتا ہے۔ صنعتی انقلاب کے دور میں فیکٹریاں اور کارخانے لگنا شروع ہوئے۔ نئی صنعتیں متعارف ہوئیں اور نسل انسانی خوشحال ہونا شروع ہوئی۔ جس کی وجہ سے اسکے رہن سہن، پسند نا پسند میں بدلاؤ آنا شروع ہوا۔ اب انسان محسوس کرنے لگا کہ اسے جس شخص کے ساتھ زندگی گزارنی ہے اسکا انتخاب اسے خود کرنا چاہئے۔ انسان نے اپنی منزلیں طے کرنا شروع کردیں۔ پھر ان کے مطابق ایسا ساتھی ڈھونڈنا شروع کر دیا۔جو منزل کے حصول میں اسکا ساتھ دے سکے۔
مہذب معاشروں میں شادیاں بہتر زندگی اور منزل کے حصول کیلئے کی جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے خطے میں آج بھی زمانہ جاہلیت کے آثار نمایاں ہیں۔ وطن عزیز میں آج کے دور میں بھی شادیاں رنگ، نسل، عمر، مال ودولت اور حیثیت کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔
لڑکی نے ایم-اے کیا ہو تو کہا جاتا ہے کہ اس کی عمر ذیادہ ہوگی- مختلف ذات قبیلوں کے لوگوں میں رشتے کرنے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے فرقے میں شادی کرنے کو آج بھی گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ لڑکے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے سے ذیادہ حیثیت والے لوگوں میں رشتہ کریں۔ جہیز کی لعنت آج بھی ہمارے ملک کی معاشی بدحالی کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ والدین زندگی کی جمع پونجی بیٹی کی شادی میں لٹا کر خود مقروض ہو جاتے ہیں۔
ان وجوہات سے بڑے بھی کچھ مسائل ہیں جو نہایت حیران کن ہیں۔وہ رنگ اور وزن ہیں۔ لڑکی کی رنگت ذرا سی سانولی ہو یا وزن عام لڑکیوں سے تھوڑا ذیادہ ہو تو پھر شادی ناممکن ہو جاتی ہے۔ تعلیم، شعور، ذات، فرقہ، حیثیت ایک طرف رکھ کر لڑکے والے انکار کر دیتے ہیں۔ شادی ہو بھی جائے تو ساری زندگی طعنے سننے کو ملتے ہیں۔
آج چھٹی کا دن ہے۔ فاطمہ کو دیکھنے لڑکے والے آ رہے ہیں۔ والدہ کی آنکھوں میں آس اور مایوسی کے آثار نمایاں ہیں۔ والد کی بچپن میں ہی وفات ہوچکی ہے۔ والدہ سکول میں پڑھاتی ہیں۔ فاطمہ نے ایم-بی-اے کیا ہوا ہے۔ بنک میں جاب کرتی ہے۔ گھر داری، ادب اور شاعری سے بے حد لگاؤ ہے۔ فاطمہ کے افسانے اور کہانیاں ملک کے نامور اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔
فاطمہ شیشے کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔الماری سے کپڑے نکال کر اپنے اوپر رکھ کر دیکھنا شروع کرتی ہے۔ تو والدہ آ جاتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ تیز رنگ کے کپڑے نہ پہننا ان میں تمھارا رنگ اور سانولا نظر لگتا ہے۔ رنگ کی وجہ سے فاطمہ کو ساری زندگی امتیازی سلوک کا سامنا رہا۔ ماضی میں لڑکے والے آتے اور فاطمہ کو دیکھتے ہی انکار کر دیتے۔
شام ہوتے ہی لڑکے کی ماں آتی ہے۔ فاطمہ اور لڑکے کی ماں کے درمیان خوشگوار گفتگو چل رہی ہوتی ہے کہ اتنے میں فاطمہ جوس کا گلاس لے کر آتی ہے۔ فاطمہ کو دیکھتے ہی لڑکے کی ماں منہ بنا لیتی ہے اور بیٹے کو فون کرنے لگتی ہے۔ بیٹا فون نہیں اٹھاتا تو اجازت لیتی ہے۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوتی ہے اور خوبصورت سا نوجوان نمودار ہوتا ہے۔ ماں پوچھتی ہے کہ تمھارا نمبر کیوں بند جا رہا ہے تو بیٹا کہتا ہے کہ فون کی بیٹری ڈاؤن تھی۔
فاطمہ کو دیکھتے ہی لڑکا خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ وہی فاطمہ ہیں جو کہانیاں اور افسانے لکھتی ہیں۔ پھر دونوں خوب گپیں لگاتے ہیں۔ لڑکے کی ماں کو یہ سب برا لگ رہا ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر میں لڑکے سے اٹھنے کو کہتی ہے۔ جواب کیلئے دو ہفتے کا ٹائم مانگ لیتی ہے۔ لڑکا ماں کی بات کاٹتے ہوئے کہتا ہے کہ میں شادی کرونگا تو صرف فاطمہ سے ہی کرونگا۔
یوں تو رنگ کے موضوع پر کہانیاں اور ڈرامے ہم عرصے سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ اس سے ملتی جلتی کچھ کہانیاں میرے حلقہ احباب میں موجود ہیں اور ہمارے پڑھنے والوں کے گرد بھی موجود ہونگیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہم انگریز سے آزادی حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوچکے ہیں۔ لیکن ذہنی غلامی سے آزادی حاصل نہیں کرسکے۔ آجکل کے نوجوانوں سے گفتگو کے بعد بھی مجھے امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ ہماری نوجوان نسل اتنی ہی تنگ نظر ہے جتنے کے ہم لوگ تھے۔
میں انسان کے رنگ، نسل، عہدے اور مال و دولت سے کبھی متاثر نہیں ہوا۔ میں اپنے اردگرد نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے ایسے لوگ جنھیں شکل و صورت کے اعتبار سے عام لوگوں سے کم تر تصور کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ کردار، اخلاق اور سلیقے میں خوبصورت نظر آنے والے لوگوں سے ذیادہ بہتر نظر آتے ہیں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہماری بہت سی بیٹیوں کو صرف رنگت کی بنا پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رنگ، نسل، فرقہ واریت اور قومیت جیسے مسائل کا حل “مکالمے” میں ہے۔ جب تک معاشرتی مسائل پر سنجیدہ مکالمہ نہیں ہوگا اس وقت تک ہم ذہنی غلامی سے آزادی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ ہم لکھنے والے اپنا کچھ نہ کچھ حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ خواتین کے مسائل، رنگ نسل، ذات پات، قومیت، فرقہ واریت پر سنجیدہ گفتگو قوم کو ذہنی غلامی سے آزادی دلانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ ہندوستان کے میڈیا نے قوم کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ ہمارے میڈیا نے سیاست پر پروگرام دکھا دکھا کر قوم کو تقسیم کر رکھا ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے ہم جہالت کی دلدل میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔ اگر حکومت، میڈیا، سول سوسائٹی اور لکھنے والے اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہتے ہیں تو آگے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply