• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہمارا سماجی شعور جذباتی بیانیوں کا اسیر ہے۔۔صاحبزادہ محمد امانت رسول

ہمارا سماجی شعور جذباتی بیانیوں کا اسیر ہے۔۔صاحبزادہ محمد امانت رسول

ہمارے سماج میں سیاست اور سیاستدانوں کو کارکردگی کی بنیاد پر نہیں تولا جاتا، بلکہ سب کے اپنے اپنے ’فین کلب‘ ہیں اور یہیں تک ایک عام سماجی شعور کام کرتا ہے کہ اپنی جماعت کی حمایت کرو، کیونکہ اس کے مطابق اسی سے انقلاب آئے گا۔ اس عام سوچ کا سیاستدان استحصال کرتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ بھی کبھی کارکردگی پر بات نہیں کرتے، بلکہ مخصوص مقبولِ عام جذباتی نعروں پر آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاست کو بھی اسی عکس میں دیکھا پرکھا جاسکتا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اس کی برملا تمثیل ہیں۔

اگرایک شخص زندگی کے کسی میدان میں، اپنے پیشروں کے کام، سوچ اور انداز پہ تنقید کرتا رہا ہو، اس مخالفت میں، اُس نے 22 سال خرچ کردیے ہوں، لیکن جب اُس کا اپنا وقت آتا ہے تو وہ اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم پہ چل پڑے یا ان سے بھی بدتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے اور سارے وہ کام کرے جن کی وہ مخالفت کرتا رہا تو اعتراض اس کے پیش روں پہ نہیں ہوگا بلکہ اس شخص پہ ہوگا جو اُن کی مخالفت کرتا رہا اور باور کراتا رہا کہ یہ سب غلط اور بد عنوان ہیں، مجھے طاقت اور اختیار ملا تو میں ایسا کچھ نہیں کروں گا۔

جب ہم اس مثال پہ غور کر تے ہیں، اورعمران خان صاحب کی حکومت کی کارکردگی اور گزشتہ حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو خان صاحب کی کارکردگی گزشتہ حکمرانوں سے بھی بری دکھائی دیتی ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے خان صاحب نے ایک مکمل پروگرام دیا تھا جس میں ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، نوّے دن میں کرپشن کا خاتمہ، پولیس ریفامز، آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی فرمایا تھا کہ ہمارے پاس پاکستان کی تاریخ کی بہترین معاشی ٹیم ہے۔ لیکن ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہ ہوسکا اور تقریباً چارسال گزر گئے۔ معاشی ٹیم کیا تھی بلکہ گزشتہ حکومتوں کے معاشی ماہرین کے ذریعے ملک کے معاشی مسائل حل کرنے کی کوشش کی گئی۔

جب خان صاحب کی حکومت جا چکی تو انہوں نے ایک اور بیانیہ پاکستان کی عوام کے سامنے رکھ دیا اور وہ ’حقیقی آزادی‘ کا ہے۔ اِس بیانیہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم امریکہ کے غلام ہیں، لہٰذا ہمیں غیرت مند اور آزاد قوم بننا ہے۔ اس بیانیہ کو ہمارے ملک اور بیرون ملک کی ایک بڑی تعداد نے قبول کیا ہے۔ اِس بیانیہ کو قبول کروانے میں زیادہ مشکل اس لیے پیش نہیں آئی کیونکہ اِسی بیانیہ پہ ہماری مذہبی جماعتیں سال ہا سال سے کام کر رہی ہیں۔جماعتِ اسلامی، تحریک لبیک، منہاج القرآن، جمعیت علماء اسلام(ف)، جمعیت علمائے پاکستان و دیگر جماعتیں اسی بیانیے پہ چلتی رہی ہیں اور چلتی ہیں۔ اگر خان صاحب امریکا کے ساتھ اسرائیل کو بھی شامل کرلیتے تو یہ بیانیہ اور زیادہ مقبول ہوجاتا۔ کیونکہ پاکستان میں ان دو ملکوں کے خلاف ہمیشہ سے سخت جذبات پائے جاتے ہیں۔ خان صاحب بنے بنائے ماحول سے مزید فائدہ اُٹھا سکتے تھے۔

اب وہ آزادی کیسی ہے اُس کی عملی صورت کیسے بنے گی اور اُسے خارجہ پالیسی کا کیسے حصہ بنایاجائے گا؟ یہ ایسے ہی نامکمل، مبہم اور مشکل سوالات ہیں جیسے خان صاحب کے پہلے وعدے تھے۔ لوگ فی الحال ان نعروں کا ہی حظ اٹھا رہے ہیں۔ خان صاحب کا موجودہ بیانیہ اُسی طرح ہی قبول کیا جا چکا ہے جیسے کرپشن کا بیانیہ۔ الزام کی دنیا گمان و خیال کی دنیا ہے۔ عملی اطلاق و انطباق مشکل ہی نہیں کئی مرتبہ ناممکن بھی ہوتا ہے۔ چارسال بعد، عمران خان صاحب اپنی کارکردگی پیش کرنے کے بجائے ایک نئے نعرے کو لے کرعوام میں اترے ہیں۔ اگر کوئی حقیقی سیاستدان ہوتا وہ اپنی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کرتا۔ لوگوں کو بتاتا کہ ہمارے وقت میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوا، موٹرویز بنیں، ہم نے مہنگائی کو کنٹرول کیا۔ امن و امان قائم کیا، ڈالر کو ایک حد سے آگے نہیں جانے دیا۔ ہم نے ریلوے کے نظام کو بہتر کیا، ہم نے میٹروز چلائیں، اسلام آباد ائیر پورٹ تعمیر کروایا، نئے ہسپتال بنائے گئے، ہم نے نئے ڈیمز کا آغاز کیا، ہم نے سی پیک شروع کیا۔

عمران خان صاحب کی طرزِ حکومت اپنے مقابل سیاستدانوں سے بالکل مختلف ہے۔ خان صاحب کی پہلی اور واحد حکومت تھی جس کے وزراء ہمیشہ اپو زیشن پہ چڑھائی کیے رکھتے تھے۔ ورنہ حکومتوں کے وزراء اپنا دفاع کرتے اور کار گزاری بتاتے اور آئندہ کے پلان کی بات کرتے رہتے تھے۔ یہ بھی ایک واضح فرق خان صاحب کی طرزِ حکومت میں دکھائی دیا۔

ایسا نہیں ہے کہ گزشتہ حکمرانوں نے غلطیاں نہیں کیں یا اُن کے دامن کرپشن سے پاک ہیں۔ انتظامی معاملات میں ارادی اور غیرارادی غلطیاں حکمرانوں سے ہوتی ہیں۔ انہیں اُن کا جواب دہ بھی ہونا ہوتا ہے۔ حکومت و اقتدار آسان نہیں ہے ۔ اس میں مشکلات بھی ہیں اور الزامات بھی۔ سب آپ سے خوش نہیں ہوتے اور نہ سب ناراض ہوتے ہیں۔خان صاحب اور دیگر حکمرانوں میں یہ بھی فرق ہے کہ خان صاحب شخصیت کے زور پہ سچ اور جھوٹ منوانا چاہتے ہیں۔ وہ خود کو سچ، حق کا معیار خیال کرتے ہیں اور دوسروں کو ’چور ڈاکو‘ کے خطاب سے نوازتے ہیں۔ اِن حالات میں، اگر کوئی اخباری رپورٹ، خبر، آڈیو، ویڈیو خان صاحب کے بارے میں ہو تو وہ جھوٹی ہوتی ہے، دوسروں کے بارے میں ہو تو سو فیصد سچی ہوتی ہے۔ اگر صحافی خان صاحب کے خلاف لکھنے والے ہوں تو وہ لفافہ لیتے اور جھوٹے ہوتے ہیں۔ اگر حمایت میں لکھنے والے ہوں تو وہ ایماندار اور سچے ہوتے ہیں۔ جب تک سیاستدان پی ٹی آئی میں ہیں تو وہ ایماندار ہیں، اگر پارٹی چھوڑ کر چلے گئے تو وہ کرپٹ قرار پاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ فیک اور ڈیپ فیک ویڈیوز کا طوفان ہے جو اتنی کثرت سے شئیر کی جاتی ہیں کہ انہیں آپ جھوٹ قرار دیں تو لوگ آپ کو جھوٹا سمجھنے لگتے ہیں۔

سیاست میں اخلاق کا اعلیٰ معیار فقط مخالفین کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے ہوتا اور ہونا چاہیے۔ جہاں تک معاملہ ہمارے اوور سیز پاکستانیوں کا ہے تو وہ خان صاحب کی تقریروں میں جس اخلاقیات اور ایمانداری کا معیار سنتے ہیں وہ مغربی ممالک میں دیکھتے ہیں۔ اُنہیں ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب پاکستان کو بھی ایسا بنادیں گے جبکہ پاکستان میں رہنے والے جانتے ہیں کہ خان صاحب چار سال میں پاکستان کو اخلاق و معاش کےحوالے سے کس معیار پر لے آئے ہیں۔ پاکستانی نہ صرف ان کی تقریریں سنتے ہیں بلکہ ان کی حکومت کی بدترین کارکردگی کی سزا بھی بھگت چکے بلکہ بھگت رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر خان صاحب کے ساتھ کوئی ہے تو وہ اس لیے نہیں کہ اُن کی چار سالہ کارکردگی بہت ہی اعلی، باکمال اور متاثر کن رہی ہے بلکہ اُسے یہ بیانیہ یاد کروا دیا گیا ہے کہ خان صاحب ایماندار ہیں اور باقی ’چور ڈاکو‘ ہیں، لہٰذا وہ نواز شریف اور زرداری کی ضد میں خان صاحب کو پسند کر تے ہیں۔ جس روز خان صاحب کے مقابل کوئی اور ’صادق و امین‘ مارکیٹ میں آگیا۔ اُس دن خان صاحب بھی نااہلی، کرپشن اور بدترین کارکردگی کی وجہ سے منہ چُھپاتے پھریں گے، کیونکہ وطنِ عزیز میں زبانی بیانیے اور ان کا شور ہی چلتا ہے، کہ سماجی شعور اسی میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ اور بدقسمتی سے یہی ہماری تاریخ ہے۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply