• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • برطانوی نو آبادیاتی نظام سے پہلے کیا برصغیر غاروں میں رہ رہا تھا؟۔۔آصف محمود

برطانوی نو آبادیاتی نظام سے پہلے کیا برصغیر غاروں میں رہ رہا تھا؟۔۔آصف محمود

برطانوی نو آبادیاتی نظام سے پہلے بر صغیر میں معاملات کیسے چل رہے تھے؟کیا یہاں کوئی قانون موجود تھا اور اس کے پیچھے کوئی قوت نافذہ دستیاب تھی یا معاملات بس ایسے ہی چلائے جا رہے تھے؟ سلطنت دہلی اور پھر مغل سلطنت کیا ایک لاقانونیت اور بے آئین بندوبست تھا اور لوگ غاروں میں رہتے تھے اور کسی قانون ، نظام اورضابطے سے واقف نہیں تھے اور پھر ریاست برطانیہ نے White Man’s Burden کو محسوس کرتے ہوئے اپنی ’’ آفاقی ذمہ داری‘‘ نبھاتے ہوئے اس علاقے کے لوگوں کو جہاں ’’ تہذیب‘‘ سکھائی وہیں ایک قانونی اور انتظامی ڈھانچہ بھی عنایت فرمایا اور یوں پہلی بار اس خطے کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ قانون کیا ہوتا ہے اور قوت نا فذہ کسے کہتے ہیں؟

ہمارے ہاں بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ برطانوی نو آبادیاتی نظام سے قبل نہ تو کوئی قانونی عدالتیں تھیں نہ ہی تحریری قوانین موجود تھے اور نہ ہی ان کو بر قرار رکھنے یا نافذ کرنے کا کوئی مستند اور با اختیار ادارہ تھا ۔ یہاں تک کہ پھر برنوسی نو آبادیاتی نظام آیا اور یہاں قانون اور ادارے متعارف کرائے گئے۔ جب ہم برطانوی نو آبادیاتی نظام سے پہلے کے برصغیر کو دیکھتے ہیں اور محققین کے علمی ذخیرے سے رجوع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قانونی عدالتیں بھی موجود تھیں ، تحریری قوانین بھی دستیاب تھے اور ان کو برقرار رکھنے اور نافذ کرنے کے لیے مستند اور با اختیار ادارے بھی موجود تھے اور وہ کام بھی کر رہے تھے۔مسلمان حکمرانوں نے ایک عدالتی نظام اور قانونی ڈھانچہ یہاں متعارف کرایا جو قریب800 سال کامیابی سے کام کرتا رہا یہاں تک کہ پھر برطانوی نوآبادیاتی نظام نے اس کی جگہ لے لی ۔

اس ضمن میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے بھی بہت اہم کام کیا ہے۔کراچی یونیورسٹی پریس نے ان کی کتاب An Administration of the Sultanate of Dehli کا اردو ترجمہ ’ سلطنت دہلی کا نظام حکومت‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ برطانوی نو آبادیاتی نظام قانون سے بہت پہلے یہاں مسلمانوں کی سلطنت بھی تھی ، قانون بھی تھا اور ان قوانین کو نافذ کرنے کے لیے مستند اور با اختیار ادارے بھی کام کر رہے تھے۔ اس دور پر ، اس کے اداروں پر ، اس کے طرز حکومت پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن چونکہ نو آبادیاتی نظام نے سماج کا طرز فکر ہی بدل دیا، اس لیے اس زمانے کے طرز حکومت پر لکھی تحریریں موجودہ عصری بیانیے میں غیر متعلق سی قرار پا چکی ہیں۔ حسن نظامی نیشاپوری نے ہندوستان ہجرت کی تو ’ تاج المآثر‘ لکھی جو دہلی سلطنت کی پہلی سرکاری تاریخ قرار دی جاتی ہے۔ ابو نصر محمد بن بد الجبار عتبی کی کتاب ’ تاریخ یمینی‘ ہے جو غزنی دور حکومت کا اہم ترین اور قدیم و مستند ماخذ سمجھی جاتی ہے۔

غزنوی سلطنت میں قریب قریب وہ سارا علاقہ موجود تھا جو اس وقت پاکستان کہلاتا ہے اور1151 کے بعد سے اس کا دارالحکومت لاہور تھا۔ ابو الفضل محمد بن حسین بیہقی کی’ تاریخ بیہقی‘ ہے جو تیس جلدوں پر مشتمل ہے ۔ یہ بھی غزنی دربار سے منسلک تھے۔اس وقت ان تیس جلدوں میں سے صرف ایک جلد دستیاب ہے۔قاضی منہاج سراج جوزجانی نے’ طبقات ناصری ‘لکھی ۔ انہیں ہندوستان کے اولین مسلمان مورخین میں شمار کیا جاتا ہے۔ضیاء الدین برنی ( جو اتر پردیش کے رہنے والے تھے اور اتر پردیش کے پرانے نام ‘ برن‘ کی نسبت سے برنی کہلائے) نے’ تاریخ فیروز شاہی‘ لکھی جو غیاث الدین بلبن سے فیروز شاہ تغلق تک ، یعنی سلاطین دہلی کے پچانوے سالوں کے اقتدار کی اہم تاریخ ہے۔اس کتاب کو طبقات ناصری ہی کا تسلسل کہا جاتا ہے۔ شمس سراج عفیف نے ’ تاریخ فیروز شاہی(عفیف) ‘لکھی۔یہ بھی تغلق دور کے مورخ تھے۔شہاب الدین کی ’ عجائب المقدور فی اخبارات تیمور‘ بھی ایک اہم تاریخی کتاب ہے۔ یحیی بن احمد بن عبد اللہ سرہندی نے سلاطین دہلی کی تاریخ پر کتاب لکھی جسے ’ تاریخ مبارک شاہی‘ کہا جاتا ہے ۔نعمت اللہ ہروی نے ’ تاریخ خان جہانی ‘ لکھی۔ وہ شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں ایک تاریخ نویس کے طور پر منسلک تھے۔

یہ کتاب اگر چہ بنیادی طور پر افغان تاریخ ہے لیکن اس میں بنگال کے حکمرانوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔عباس سروانی کی ’ تحفہ اکبر شاہی‘ ہے جو انہوں نے تیسرے مغل فرماں روا جلال الدین اکبر کے کہنے پر لکھی ۔اہل اللہ مشتاق عرف رزق اللہ مشتاقی کی کتاب ’ واقعات مشتاق‘ ہے۔خواجہ عبد اللہ کی کتاب ’ تاریخ دائودی ‘ ہے ۔یہ جہانگیر کے عہد میں لکھی گئی ۔ یہ ہندوستان کے سلاطین کی تاریخ ہے۔ احمد یاد گار کی ’ تاریخ شاہی ‘ ہے جس میں لودھی سلطنت کے سلطان بہلول لودھی سے لے کر سلطنت سور کے حاکموں اور پھر مغل سلطنت کے سلطان جلال الدین اکبر کے دور تک کا تذکرہ ملتا ہے ۔ نظام الدین احمد کی کتاب ‘’ طبقات اکبری‘ ہے۔ یہ بھی جلال ا لدین اکبر کے عہد حکومت تک کی تاریخ ہے۔مُلا عبد االقادر بدا یونی کی کتاب ’ منتخب التواریخ‘ کا مآخذ بھی اسی کتاب کو قرار دیا جاتا ہے ۔ملا عبد القادر بدایونی کی ’ منتخب التواریخ ‘ سلطنت غزنویہ کے بانی امیر ناصر الدین سبکتگین کی تخت نشینی سے لے کر عہد اکبری تک کے حالات کا خلاصہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مرزا محمد حیدر دغلت کی ’ تاریخ رشیدی ‘ بھی ایک اہم کتاب ہے۔ ان کا تعلق شاہی خاندان سے تھا اور وہ ظہیر الدین بابر کے ننھیالی رشتہ دار تھے ۔ یہ کتاب ان کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ جوہر آفتابچی کی ’ تذکرۃ الواقعات‘ ہے ۔اس کا اردو ترجمہ سید معین الحق نے کیا ہے جو پاکستان ہسٹا ریکل سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری تھے۔اس کتاب کو اسی سوسائٹی کے اہتمام سے آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کراچی نے شائع کیا گیا۔ یہ کتاب ہمایوں کی تاریخ کا بہترین مآخذ تصور کی جاتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ابھی تک یہ فارسی زبان میں بھی شائع نہیں ہوئی اور اس کا صرف قلمی نسخہ موجود ہے چنانچہ علی گڑھ کی لٹن لائبریری کے نسخے کی مدد سے یہ اردو ترجمہ کیا گیا۔ اللہ داد فیضی کی کتاب ’ تاریخ ہمایوں شاہی ‘ ہے۔گلبدن بیگن نے ’ ہمایوں نامہ ‘ لکھی۔گلبدن بیگم کا تعلق بھی شاہی خاندن سے تھا ۔وہ ظہیر الدین بابر کی بیٹی تھیں ، ہمایوں کی بہن تھیں اور شہنشاہ اکبر کی پھوپھی تھیں۔یہ کتاب انہوں نے اپنے بھتیجے شہنشاہ اکبر کی فرمائش پر لکھی تھی۔ہمایوں پر ہی با یزید کی ’ تاریخ ہمایوں‘ ، خواند امیر کی ’ ہمایوں نامہ‘ بھی معروف تاریخی کتب ہیں۔ابو الفضل کی ’ اکبر نامہ‘ بھی مغلیہ تاریخ کا اہم بیان ہے۔ یہ کتاب فارسی میں لکھی گئی اور اس کی تین جلدیں ہیں۔ معاملہ صرف یہ ہے کہ برطانوی نو آبادیاتی نظام کے بعد ہمارے ہاں ایک ایسی لاشعوری فکری گرہ سی پڑ گئی ہے کہ یہاں کی تاریخ پر اردو ، فارسی، ترکی یا عربی میں جو کچھ لکھا گیا وہ اجنبی قرار پا چکا۔ اب معتبر صرف وہ ہے جو انگریزی زبان میں لکھا گیا ہے اور سند وہ ہے جو انگریز نے لکھا ہو ۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply