• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مزہ لیجئے …ایک جلسہ گاہ کی لائیو کوریج کا (حصہ دوم)

مزہ لیجئے …ایک جلسہ گاہ کی لائیو کوریج کا (حصہ دوم)

بات ہو رہی تھی جلسہ گاہ کی اور ہم کسی اورطرف ہی جانکلے۔ خیر تو واپس چلتے ہیں جلسہ گاہ اور اب رخ کرتے ہیں اسٹیج کا۔اسٹیج پر ڈائس کے پاس اور قائدین کے لئے رکھی گئی کرسیوں کے گرد جو جم غفیر دکھائی دے رہا ہے، یہ بھی کارکن ہی ہیں لیکن ذرا خاص قسم کے کارکن، ظاہر ہے اسٹیج تک رسائی ہر عام کارکن کے بس کی بات تو ہے نہیں، اس کے لئے خاص بننا پڑتا ہے اور اس کے مختلف مراحل ہیں اس پر بحث پھر کبھی سہی۔ڈائس پر ایک شخص مائیک ہاتھ میں پکڑے گلا پھاڑ پھاڑ کر کارکنوں کو اسٹیج سے نیچے اترنے کیلئے تقریباٰ منتیں کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ''مہرابانی اوکئے دا فالتو کسان دے لاندے کوزشئے'' (برائے مہربانی غیرضروری افراد نیچے اترجائیں)یہ وہ جملہ ہے۔جو وہ ہر دونعروں کے درمیان آٹھ مرتبہ دہراتا ہے لیکن مجال ہے جو کسی کے کان پر جوں تک رینگ جائے۔وجہ! ارے بھئی! وجہ یہ ہے کہ اسٹیج پر موجود تمام کارکن خود کوانتہائی ضروری اور اہم ترین خیال کرتے ہیں۔ بھلے سے یہ ان کا ذاتی خیال ہو لیکن ظاہر ہے اس خیال سے انہیں کوئی باز تو نہیں رکھ سکتا ۔لہٰذا انہیں ہرحال میں قائدین کی آمد تک بلکہ اس کے بعد بھی خود کو اسٹیج پر موجود رکھنا ہے گویا ان کی اسٹیج پر موجودگی قائدین کے عزت و احترام میں اضافے کے ساتھ ساتھ جلسے کی کامیابی کیلئے بھی انتہائی ضروری ہے۔ لوجی! اس کے بعد قائدین بھی اللہ اللہ کر کے پہنچ ہی جاتے ہیں، کارکنوں کے ساتھ ساتھ بیچارے میڈیا کے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے سے بس چند لمحے پہلے ہی موصوف اسٹیج پر جلوہ گر ہوتے ہیں اور پنڈال ان کے استقبالی نعروں سے گونج اٹھتا ہے۔ قائدین اسٹیج پر سامنے آتے ہیں اور دن بھر کے بھوکے پیاسے کرسیوں پر بیٹھے اور زمین پر براجمان یا پنڈال میں گھسنے کی کوشش میں دھکے کھاتے کارکنوں کو ہاتھ ہلا کر اشارہ کرتے ہیں، جتاتے ہیں کہ وہ کس قدر مصروفیت کے باوجود صرف اور صرف اپنے کارکنوں کی محبت میں جلسہ کے لئے آئے ہیں ورنہ کئی اہم ترین حکومتی اور وسیع تر عوامی مفاد کے کام صرف ان کی عدم موجودگی کے باعث رکے پڑے ہیں۔ یہاں سب سے پہلے تصویری سیشن چلتا ہے، خاص کارکنوں اور مقامی قائدین اپنے ڈرائنگ روم کی دیواروں کے لئے مرکزی قائدین کے ہمراہ چپک چپک کے تصاویر بنواتے ہیں اور آج کل کے نئے مرض ''سیلفی'' کا بھی دور چلتا ہے۔(جو بعدازاں سوشل میڈیا، واٹس ایپ گروپوں میں عرصہ دراز تک بار باردکھا دکھا کر لوگوں کو عاجز کیاجاتا ہے) آدھا دن تک ڈی جے کے ذریعے کارکنوں کو نچانے والے اسٹیج سیکرٹری کو اچانک خیال آتا ہے کہ جلسے کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا جانا چاہیے، چنانچہ وہ کسی باشرع شخص کو تلاوت کے لئے دعوت دیتا ہے اور یوں جلسے کا ''باقاعدہ آغاز'' ہوتا ہے۔ (میڈیا پر رپورٹ ہونے والے چند واقعات کے بعد سے اب خصوصی طور پر سیاسی شخصیات کو تلاوت کی ذمہ داری سونپنے سے گریز کیا جاتا ہے کیوں کہ سورة اخلاص تک سے نابلد یہ سیاسی شخصیات خود کے ساتھ ساتھ دیگر سیاسی لوگوں کے لئے تضحیک کا باعث بن چکی ہیں) مقامی قائدین کے رتبے کے حساب سے انہیں باری باری خطاب کی دعوت دی جاتی ہے اور ہر خطاب کے دوران مقامی رہنماوں کو ''مختصر کیجئے'' کی پرچیاں بھی تھمائی جاتی ہیں لیکن مجال ہے جو ان مقامی رہنماوں کے جوش خطابت اور انہماکی تسلسل میں ہلکا سا ارتعاش بھی پیدا ہوتا ہو، وہ باقاعدہ اپنا وقت پورا کر کے ہی فاتحانہ انداز میں پیچھے ہٹتے ہیں، اکثر کو تو پیچھے سے پکڑ کر بھی کھینچ لیا جاتا ہے کہ بھائی بس کردو، یہ باقی لوگ بھی خطاب کرنے ہیں آئے کوئی آم لینے نہیں آئے۔اس کے بعد مرکزی قائدین کو ان کے رتبے کے حساب سے دعوت خطاب دی جاتی ہے، اکثر اوقات یہاں بھی پرچی سسٹم جاری رہتا ہے، کچھ لوگ اپنے مخصوص مقاصد کو ان قائدین کے منہ سے کہلوانے کے لئے انہیں پرچیاں تھماتے ہیں ، ایسے ہی ایک جلسے میں خطاب کرنے والے قائد کو غصہ آیا تو انہوں نے پرچی پھاڑ کر پھینک دی ، اس پر بھی کارکنوں نے خوب تالیاں بجائیں اور قائد کو داد دی۔ہم آج تک یہ سوچ رہے ہیں کہ اس قائد کو یہ داد ڈھٹائی سے اپنی بات جاری رکھنے پر ملی یا خود سے بڑے قائدین کی حکم عدولی پر۔ اللہ اللہ کر کے تمام چھوٹے موٹے رہنما و قائدین کے خطابات ختم ہوتے ہیں تو مہمان خصوصی کو دعوت دی جاتی ہے جو اس دوران آنکھوں پر سجائے کالے چشموں کی اوٹ میں اپنی اچھی خاصی نیند پوری کرچکا ہوتا ہے۔ کس قائد نے کیا کہا، کس مقامی رہنما نے کیا مطالبہ کیا، کس نے عوام کے مسئلے کی طرف نشاندہی کی۔ مجال ہے جو مہمان خصوصی کے پلے کچھ بھی پڑا ہو۔اور ویسے بھی ان معاملات سے اسے سروکار بھی کیا ہونا ہے ، اس نے اپنی لکھی لکھائی، رٹی رٹائی یا سوچی سوچائی تقریر جھاڑنی ہے، اپنے کارناموں اور مخالفین کے کچھ نہ کرنے کے قصوں کو دہرانا ہے (عموماً یہ وہی قصے ہوتے ہیں جو میڈیا کے ساتھیوں کو زبانی یاد ہوتے ہیں) اور ہاتھ جھاڑ کر چلے جانا ہے۔ چنانچہ سیاسی جماعت کے سربراہ یا مرکزی قائد جو بھی مہمان خصوصی صاحب ہوتے ہیں وہ بڑے ہی رعونتی انداز میں چلتے ہوئے ڈائس تک آتے ہیں، ڈائس پر مائیک سنبھالے شخص کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ مہمان خصوصی کے ڈائس تک پہنچنے تک کا دورانیہ پنڈال میں بیٹھے کارکنوں کے زوردار نعروں سے گونجتا رہے بصورت دیگر مہمان خصوصی برا بھی منا سکتے ہیں ۔ لیکن کسی حد تک یہ پریشانی بھی اب ختم ہوچلی ہے کیوں کہ مہمان خصوصی کی آمد کے اعلان کے ساتھ ہی ڈی جے بھی حرکت میں آ جاتا ہے اور نعروں کے ساتھ ساتھ مہمان خصوصی کیلئے خصوصی طور پر تیار کئے گئے گانوں سے ان کا استقبال کرتا ہے۔یہ کام اسے گاہے گاہے مہمان خصوصی کی تقریر کے دوران بھی کرنا ہوتا ہے گویا مہمان خصوصی کی تقریر کے دوران موسیقی کا تڑکا نہ ہوتو سواد پھیکا رہ جاتا ہے۔لوجی! جلسے کا کلائمیکس شروع ہواچاہتا ہے۔ مہمان خصوصی سب سے پہلے مقامی رہنماوں اور چھوٹے موٹے قائدین سمیت کارکنوں کا شکریہ ادا کرتا اور ساتھ ہی مخالفین کے لتے لینے شروع کردیتا ہے، اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کے قائدین کو الٹے سیدھے القابات سے یاد کر کے کارکنوں کو خوش کرنا بھی آج کل فیشن میں ہے چنانچہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کے لئے خصوصی نام تجویز کر رکھے ہیں۔کسی وقت اگر تقریر کرنے والے بھائی صاحب کسی کا نام لینا بھول بھی جائیں تو کارکن نیچے سے شورشرابے اور چیخ و پکار کے ذریعے انہیں یاد دلاتے ہیں اور پھر مہمان خصوصی اس خصوصی نام کے ذریعے اپنے مخالف سیاسی قائد کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں اور یوں جلسہ گاہ میں موجود کارکنوں کے نہ صرف ارمان پورے ہوجاتے ہیں بلکہ شاید وہ جلسہ گاہ آنے کا حقیقی مقصد بھی پالیتے ہیں۔مہمان خصوصی صاحب کے خطاب کے دوران وقفے وقفے سے ڈی جے کی جانب سے موسیقی کی بارش بھی جاری رہتی ہے جو ان کی تقریر کو نہ صرف بور ہونے سے بچاتی ہے بلکہ کارکنوں کو بھی جگائے رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے (اب صبح سے انتظار میں بیٹھے کارکن اگر دوگھڑی آرام ہی کرلیں تو کیا برا ہے لیکن ڈی جے کو یہ کسی صورت قبول نہیں، کیوں کہ اسے پے منٹ لوگوں کو سلانے کی نہیں بلکہ جگانے کی ملنی ہے) مہمان خصوصی مخالفین کی دھجیاں بکھیرنے کے بعد اپنی شاندار کارکردگی کا ذکر کرتے ہیں ، کارکنوں کو کئی سبزباغوں کی سیر پر لے جاتے ہیں جہاں سے واپسی پر کارکن خود کو اسی سڑی ہوئی حقیقی زندگی میں پاتے ہیں جہاں ان کے مسائل کئی دہائیوں سے جوں کے توں حل طلب ہیں۔مہمان خصوصی صاحب کے خطاب کے دوران کارکن جس خیالی جنت میں پہنچے ہوتے ہیں خطاب ختم ہوتے ہیں وہاں سے لوٹ آتے ہیں اور مہمان خصوصی بھی اپنے خاص لوگوں کے کارکنوں کے نعروں کا ہاتھ ہلا ہلا کر جواب دیتے ہوئے رخصت ہوجاتے ہیں۔اسٹیج پر آنے کے بعد جو کارکنان خاص تصویربازی سے محروم رہ جاتے ہیں وہ پہلے سے نیچے قطار لگا کر کھڑے ہوتے ہیں چنانچہ موقع ملتے ہیں وہ تصویر بنواکر سرخرہ ہوجاتے ہیں ۔مہمان خصوصی اور قائدین کی رخصتی کے بعد جلسہ گاہ اور اسٹیج کارکنوں کے حوالے ہوجاتا ہے، اکثر کارکنوں کو اپنے قائدین کے انداز میں ڈائس پر تصاویر بنواتے بھی دیکھا گیا اور پینافلیکس کی چھینا جھپٹی، بینرز کے حصول کیلئے خواری اور کرسیوں پر چڑھ چڑھ کر ان کپڑے یا پینافلیکس کے چیتھڑوں کے لئے کارکنوں کو لڑتے جھگڑتے دیکھنا بھی آخری مناظر میں شامل ہے۔کارکنوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کے لوگوں کی بھی سختی معاف ہوتی اور وہ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے کے مصداق اپنے اپنے دفاتر کا رخ کرتے ہیں۔آخری بات یہ بتاتا چلوں کہ جلسہ کسی بھی سیاسی جماعت کا ہو کارکنوں کا جوش و جذبہ اور ولولہ کہیں بھی کم نہیں ہوتا۔ کمی ہوتی ہے تو صرف ان حساس قائدین کو جنہیں اس بات کا تھوڑا سا احساس ضرور ہو کہ ان کی ایک جھلک دیکھنے یا ان کی بات سننے کے لئے کئی کئی گھنٹوں تک موسم کی سختیوں سے بے نیاز انتظار کی کوفت اٹھانے والے ان کارکنوں کے ہی دم سے ان کی سیاسی جماعت بھی چلتی ہے اور سیاست بھی۔

Facebook Comments

عمران یوسف زئی
عمران یوسف زئی کا تعلق بنیادی طور پر ضلع شانگلہ کی تحصیل بشام سے ہے۔ پشاور میں شعبہ صحافت سے 16 سال سے وابستہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات کے ساتھ وابستگی رہی۔ گزشتہ 8سال سے دنیا نیوز کے ساتھ بحیثیت رپورٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔گزشتہ دو دہائیوں سے بچوں کے لئے بھی ادب تخلیق کررہے ہیں۔دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔پشاور سے بچوں کا اکلوتا رسالہ 'ماہنامہ گلونہ' شائع کر رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply