• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ڈنڈے بندر سہتا ہے جبکہ اس کی ساری آ مدن مداری کھا جاتا ہے ۔۔عبدالستار

ڈنڈے بندر سہتا ہے جبکہ اس کی ساری آ مدن مداری کھا جاتا ہے ۔۔عبدالستار

گزشتہ دنوں “بیٹھک” پروگرام جسے سید عمران شفقت ہوسٹ کرتے ہیں میں امداد سومرو نے ایک کہاوت کا حوالہ دیا جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے بنتا ہے کہ

“مداری کا سدھایا ہوا بندر جس کے مقدر میں ہی مار کھانا لکھا ہوتا ہے، مالک کے ڈنڈے کے اشارے پر وہ سامعین کو محظوظ کرتا ہے اور اس کے عوض جو کمائی ہوتی ہے وہ مداری خود چٹ کر جاتا ہے” اکثر گاؤں دیہاتوں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ مداری جسے تماشہ دکھانے والا بھی کہتے ہیں اس کے ساتھ ایک بندر ہوتا ہے جسے وہ بڑی محنت و ریاضت کے بعد اس قابل بناتا ہے کہ وہ مختلف طرح کے کرتب دکھا کے لوگوں کی حیرانی میں اضافے کا سبب بن سکے اور شو کے اختتام پر بندر کا مالک مجمع سے امداد کی درخواست کرتا ہے تاکہ اس کا راشن پانی چلتا رہے۔ یہ مثال بظاہر تو معمولی سی لگتی ہے مگر “بھیڑ چال یا کلٹش ذہنیت” کو عیاں کر دینے کے لیے کافی ہے، صدیوں کی ذہنی غلامی یا استحصالی کے اس چکرویو کے پیچھے ہمیشہ سے ایک طاقتور اور چالاک قسم کا مداری رہا ہے جو اپنی چالاکیوں کے اشاروں پر اکثریت کو نچاتا ہے اور اپنی معاشرتی طاقت کو دگنا کرتے ہوئے اپنی سات پشتوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرکے چلتا بنتا ہے اور بھولے بھالے عوام کو انہی سیاسی و روحانی سلسلوں کی غلامی میں اپنا کل بہتر بنانے کے چکر میں اپنی زندگیاں تیاگنا پڑتی ہیں۔

یہ کھیل صدیوں سے جاری ہے اسی لئے تو چند لوگ اس کرہ ارض پر بسنے والے لاتعداد لوگوں کی قسمت کے خدا بنے بیٹھے ہیں اور یہ خدا خود نہیں بنتے بلکہ اس کے پیچھے انسانوں کی وہ محرومیاں ہوتی ہیں جنہیں جان بوجھ کر یہ انتہائی سمارٹ قسم کے معاشرتی پنڈت جو اپنی چالاکیوں سے انہی بے بس لوگوں کی رگوں سے قطرہ قطرہ خون نچوڑ کر معاشرتی ٹائیکون بن جاتے ہیں اور ان بےبس و لاچار لوگوں کو مجبوراً ان کا غلام بنے رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہی لوگ اس مکروہ چکر کا حصہ بن جاتے ہیں اور یوں صدیوں سے فرعونیت کا راج چلتا آ رہا ہے نہ جانے کب تک چلتا رہے گا؟ اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد شہباز گل جیسے کردار ہیں جو مداری کو خوش کرنے کے چکروں میں دو چار پٹوسیاں زیادہ مار بیٹھتے ہیں مگر ریاستی پکڑ میں آنے کے بعد وہی مداری منہ پھیر لیتا ہے جس کے لئے اپنی اوقات سے بڑھ کر سلطان راہی کی طرح بڑھک بازی کی ہوتی ہے۔ اس کی مثال بالکل اس مرغی کی طرح ہے جس نے اپنے مالک کو خوش کرنے کے لئے ایک دن دو انڈے دینے کا تہیہ کر لیا تھا مگر دو انڈے دینے کے بعد مالک کا تو پتہ نہیں کہ وہ خوش ہوا یا نہیں البتہ ساری عمر مرغی کے پچھواڑے کا درد ختم نہیں ہوا اور ایک طرح سے دائمی روگ بن گیا۔ اس کہاوت کا ماحاصل یہی ہے کہ آپ کی قربانی آپ کے مداری کو وقتی خوشی تو دے سکتی ہے مستقل نہیں۔

مگر گڈ بک میں رہنے کا یہ شوق آپ کے لیے پوری زندگی کا روگ بن سکتا ہے۔ دوسری مثال مذہبی طبقہ کی لے لیں جن میں اکثریت اس قسم کے مولویوں کے ہوتی ہے جو بالکل ان پڑھ یا ایورج تعلیم والے ہوتے ہیں اور ان کا تعلق معاشرے کے ان محروم طبقوں سے ہوتا ہے جن کے پاس اپنے بچوں کی کفالت کے لیے کچھ اچھا بندوبست نہیں ہوتا اور وہ مجبوراً انہیں مدارس کے حوالے کردیتے ہیں۔ جب یہی لوگ محراب و ممبر کے وارث بنتے ہیں تو معاشرے سے اپنی محرومیوں کا بدلہ لیتے ہیں اور اپنے جذباتی بھاشن کے ذریعے سے بعض اوقات ایسا جنونی منظرنامہ بھی بنا لیتے ہیں کہ لوگ معمولی معمولی باتوں پر کسی کو بھی گستاخ مذہب ڈکلئیر کر کے اس کی لاش تک کوراکھ میں بدل ڈالتے ہیں، جذباتی ڈسٹ بیٹھ جانے کے بعد جب کچھ جنونی قانون کی گرفت میں آتے ہیں تو رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں اور جن کے کہنے پر یہ قیامت برپا کی ہوتی ہے وہ عدالتوں میں ان جذباتی جنونیوں کی پیروی کرنے کے لیے بھی نہیں آتے۔ یعنی اپنے کیے کا خمیازہ خود ہی بھگتنا پڑتا ہے کوئی بھی اپنے جذباتی میٹریل کو بچانے کے لیے آگے نہیں آتا۔ موجودہ دور کے لاڈلے مداری نے بھی اسی رسم دنیا کو نبھایا ہے جس کا چلن صدیوں سے انسانی تاریخ میں موجود ہے کہ
“جب تک فائدہ ملتا رہے اٹھاتے رہو اور جب وہ اس قسم کی سخت پکڑ میں آ جائے جہاں سے چھٹکارا ممکن نہ ہو تو اسے عاق کر کے آگے بڑھ جاؤ،ریوڑ میں سے کئی اور ذہنی غلام مل جائیں گے ٹینشن کی کیا بات ہے”؟

جیسے ہی پتہ چلا کہ شہباز گل نے انتہائی ریڈ زون میں گھسنے کی کوشش کی ہے اور اس غلطی کا کفارہ ادا کیے بغیر کچھ نہیں ہو سکے گا تو لاڈلے مداری نے فوری طور پر حفاظتی اقدامات کے تحت شہباز گل کے موقف سے اتفاق نہ کرنے کا اعلان فیصل جاوید سے سینیٹ میں اور فواد چوہدری سے پریس کانفرنس کے ذریعے سے کروا دیا تاکہ سند رہے۔انتہائی ڈھٹائی سے عاق کرنے کے بعد تذلیل کا لیول چیک کریں فرماتے ہیں کہ
“اگر میں شہباز گل کی طرح کمزور ہوتا تو مجھے بھی پھینٹا لگایا جاتا”
مطلب صاف ظاہر ہے کہ سیاسی و مذہبی سلسلہ کا سربراہ ایک طرح سے آ سمانی اوتار ہوتا ہے اور اس کے اندر دیوتاؤں جیسی شکتی ہوتی ہے۔ فولادی صلاحیتوں کا مالک ہونے کی وجہ سے ہی تو وہ “چوزن ون” ہوتا ہے اس کے آگے “شہباز گلوں” کی کیا اوقات ہے؟

طاقت میں ثابت قدمی دکھانا تو دیوتاؤں کا شیوہ ہوتا ہے ذہنی غلاموں یا بندروں کا نہیں ہوتا جو اپنا قد کاٹھ بنانے کے چکروں میں اپنے مداریوں کے آگے پیچھے پھدکتے رہتے ہیں۔ یہ مداری اتنے سیانے و چالاک ہوتے ہیں جو ریاستی طاقت سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے اپنے معاشرتی بندر جنہیں وہ اپنے شخصی سحر میں مبتلا کرکے بڑی محنت سے تیار کرتے ہیں وقت پڑنے پر انہی غلاموں کا استعمال کر کے”ٹرائل بیلوننگ یا آزمائشی بیلونگ” کرتے ہیں تا کہ ریاست کے موڈ کا اندازہ ہو سکے۔ جیسے ہی انہیں پتہ چلتا ہے کہ نوگو ایریا میں جانے کا نتیجہ بہت خطرناک ہوگا تو خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کے لیے اپنے بندروں یا ذہنی غلاموں کی بلی چڑھا کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ خودی کے زعم کا شکار یہ معاشرتی پیراسائٹس جو مختلف سلسلوں کے سربراہ بن جاتے ہیں ان کی نظر میں اپنے نام لیواؤں کی اہمیت بس اتنی سی ہوتی ہے کہ
“ضرورت پڑنے پر اپنے مفادات کی بتی کے پیچھے لگا کر اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے بعد چلے ہوئے کارتوس کی طرح بیکار سمجھ کر پھینک دیتے ہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بطور طالب علم ہمیں تاریخ کو کریدنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ماضی اور مستقبل کے ڈاٹ ملانے کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ
“شہباز گل جیسے جذباتی جنونی جن کے منہ میں اپنے مداری یا لیڈر کی زبان ہوتی ہے اور بغیر سوچے سمجھے جو منہ میں آ تا ہے کہہ ڈالتے ہیں کیا مشکل وقت میں ان کو تسلیم کیا جاتا ہے؟ یا مطلب نکل جانے کے بعد جماعتی  دیوتا کی نظر پہلی کی سی پوزیشن برقرار رہتی ہے؟تاریخ کا تلخ سبق تو یہی بتاتا ہے کہ ہجوم یا ریوڑ طاقتور کی گیم کے وہ مہرے ہوتے ہیں جنہیں ضرورت پڑنے پر طاقت کی بساط پر چن دیا جاتا ہے تاکہ ہواؤں کے رخ کا تعین کیا جاسکے۔ اس بات کو کچھ اس طرح سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ پہلے وقتوں میں جب بادشاہ کو کھانا وغیرہ پیش کیا جاتا تھا تو یہ چیک کرنے کیلئے کہ کہیں اس کھانے میں زہر وغیرہ تو نہیں ملا ہوا کسی غریب درباری کو دو لقمے کھلا کر تصدیق کی جاتی تھی تاکہ بادشاہ سلامت کو کچھ نہ ہو اس غریب درباری کی کیا اوقات ہے؟ سیاسی ومذہبی رہنماؤں کی نظر میں اپنے نام لیواؤں کی بس اتنی سی اہمیت ہوتی ہے اور استحصالی معاشرے میں اتنی سی اہمیت کو بھی غنیمت سمجھا جاتا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply