جاسوسی کی فضاء کیسے قائم ہوئی؟ ۔۔محمد وقار اسلم

دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا اورروس کے درمیان شروع ہونے والی سرد جنگ میں دونوں ممالک کے جاسوسوں کے ہوش رہا قصّے عام ہوئے،بالخصوص ان’’ڈبل ایجنٹس‘‘پر ناولز لکھے اورفلمز بنائی گئیں۔جو بیک وقت دونوں ممالک کے لیے جاسوسی کرتے رہے،لیکن اکیسویں صدی میں انٹیلی جنس کی صورت حال میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور حالیہ زمانے میں امریکی جاسوس ،اسنوڈن ،نے انٹیلی جینس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔اسٹوڈن امریکی ایجنسی ،این ایس اے یعنی’’نیشنل سیکوریٹی ایجنسی کا کمپیوٹر آپریٹر تھا۔اس نے پہلی مرتبہ دنیا کو یہ بتایا کہ این ایس اے اور دوسری مغربی انٹیلی جینس ایجنسیز نا  صرف دشمن ممالک کی جاسوسی کرتی ہیں،بلکہ دنیا بھر کے ممالک کے سربراہان کی ٹیلی فون کالز اور سیاست دانوں سے لے کر عام شہریوں تک کی کمپیوٹر ائز اورموبائل فونز کے ذریعے ہونے والی بات چیت کو بھی ریکارڈ کرتی ہیں اور امریکا کے قریبی اتحادیوں کو بھی  اس  سلسلے میں  معاف نہیں کرتیں۔جن کمپیوٹر پروگرامز کے تحت یہ جاسوسی کی جارہی تھی،ان کا کاعنوان’’ڈش فائز‘‘اور’’آٹک نرو‘‘ تھا ۔

اس موقع  پر جرمنی کی چانسلر،اینگلا مرکل کا خاص ذکر ہوا اور ان کی ٹیلی فون کالز ٹیپ کرنے کے انکشافات نے امریکا،جرمنی تعلقات میں تلخی گھول دی تھی۔اسنوڈن تقریباً1.5ملین کمپیوٹر فالز ،جن میں اہم سرکاری راز شامل تھے لے کر امریکا سے فرار ہوا اوربراستہ سنگا پور،روس پہنچا،جہاں وہ آج بھی مقیم ہے۔امریکا اسے غدار قرر دے چکا ہے اوراس کی واپسی کا طلب گار  ہے،لیکن یہاں اصل مسئلہ سربراہان کے فون ٹیپ کرنا نہیں تھا۔بلکہ یہ انکشاف تھا کہ این ایس اے اور برطانوی انٹیلی جینس ایجنسی ،جی سی ایچ کیو عام شہریوں کے فونزاورکمپیوٹر پیغامات بھی ریکارڈ کرتی ہے۔یعنی ان انٹرنیٹ اورموبائل فون استعمال کرنے والے دنیا کے کسی بھی شخص کی’’پرائیویسی‘‘ختم ہوگئی ہے۔یہ انکشاف کسی بھونچال سے کم نہیں تھا اور اس کے نتیجے میں بہت سے سوالات اٹھائے گئے۔مثال کے طور پر جمہوریت کے کیا معنی ہیں؟ایک فرد کی کتنی عزت و اہمیت ہے؟کیاوہ ہر وقت کسی ایجنٹ یا مشین کے سامنے رہتا ہے اور کیا اس کے کہے ہوئے الفاظ چاہے ان  کا پس منظر کچھ بھی ہو،کس کس طرح اس کے خلاف استعمال ہوسکتے ہیں؟

اسنوڈن نے یہ الزام عائد نہیں کیا تھا کہ بیرونی ممالک کے ایجنٹس اس کے ملک یا مغربی ایجنسیز میں داخل ہوگئے ہیں اوراس کی جاسوسی کرتے ہیں ،بلکہ اس کا کہنا یہ تھا کہ خود اس کے ملک کی انٹیلی جینس ایجنسیز اپنے عام شہریوں اورسیاست دانوں سے لے کر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی جاسوسی کرتی ہیں۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب انٹیلی جینس ایجنسیز کا کردا ر تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔پہلے وہ بیرونی ممالک کے جاسوسی نیٹ ورکس اورجاسوسوں کے خلاف برسر پیکا ہوتی تھیں۔جب کہ آج ان کی  ذمہ  داریوں میں اپنے شہریوں کو مجرموں اوردہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کی ذمہ  داری بھی شامل ہوگئی ہے اور اس حوالے سے ان کا کردار پریس،پارلیمان اوردوسرے عوامی فورمز پر زیر بحث آتا ہے اورذمہ  داری کے ساتھ ہی ان کی جواب دہی بھی کئی گناہ بڑھ گئی ہے ۔انٹیلی جینس ایجنسیز کے کردار میں یہ انقلابی تبدیلی بڑی حد تک ٹیکنالوجی کے مرہون منت ہے،جیسا کہ اسنوڈن کے کیس سے ظاہر ہوتا ہے۔

اب مغربی اوردوسرے جدید ممالک کی ایجنسز ان سافٹ  ویئر کو ڈ ز کو بریک کرنے کا کام کررہی ہیں۔جن کے ذریعے وہ خفیہ پیغامات تک پہنچ جاتی ہیں اورانہیں پتا چل جاتا ہے کہ کون کیا ارادے رکھتا ہے ۔اس مقصد کے لیے ان اداروں میں کمپیوٹرز کے بڑے بڑے سیکشنزقائم کیے گئے ہیں،جہاں یہ کام دن رات ہورہا ہے ۔اس حوالے سے این ایس اے او جی سی ایچ کیو خاصی پیش رفت کر چکی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیال رہے کہ جاسوسی کا یہ نظام9/11کے بعد بنایا گیا اورانسداد دہشت گردی میں یہ خاصا مؤثر ثابت ہورہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں دہشت گردی کی وارداتیں پس ماندہ ممالک کے مقابلے میں خاصی کم ہوتی ہیں اوراب ان کے لیے جرم ہونے سے قبل ہی مجرم تک پہنچنا ممکن ہوگیا ہے۔ایک چیخ و پکار ،گولیوں کی تڑ تڑ اہٹ ،دھماکوں کی گھن گرج  اوردرندہ صفت افراد  کو پروان چڑھانے والی قوتیں خوف و ہراس کریہہ ومکر کی آوازوں سے دنیا کو لرزا دیتی ہیں۔آج حساس ادارے گوناگوں ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں ایک دوسرے سے چپقلش رکھنے والے ملک بھی ایسی رسا کشی کا شکار ہیں کہ مل بیٹھنے کو تیار نہیں۔ روس اور یوکرینی صدر کی ملاقات اسی  تناظر میں کامیاب ہوئی ،جب امریکی سرویلنس کو  مات دیتے ہوئے ایک نئی جگہ روسی صدر پیوٹن کی یوکرائینی صدر سے ملاقات کسی نئی جگہ طے پائی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply