کبھی ہم خوبصورت تھے۔۔سعدیہ قریشی

نیرہ نور کی آواز مجھے زمانہ طالب علمی میں لے جاتی ہے ۔گھر میں صبح کا ہنگا مہ جاگ رہا ہے پانچ بہن بھائیوں میں سے کوئی سکول کی تیاری کررہا ہے کوئی کالج جانے کی بھاگ دوڑ میں ہے ،کچن کے ساتھ جڑے ٹی وی کے کمرے میں بہت رونق ہے۔ اس دور میں ہم سب کے چاچا جی مستنصر حسین تارڑ سکرین پر ابھرتے ہیں ۔ پھولوں جیسی مہکتی باتیں وقفے وقفے سے موسیقی کے ٹکڑے صبح کی   نشریات کا حصہ بنتے ہیں ۔پھر ایک اجلی آواز ٹی وی کے کمرے سے نکلتی ہے اور باہر باورچی خانے کے چولہے پر ناشتے کی آخری مصروفیت سمیٹتی امی جان کے کانوں میں رس گھولتی ہے۔ وہ اپنا چائے کا کپ اٹھائے ٹی وی کے کمرے میں آجاتی ہیں کمرہ ان کے وجود سے سج جاتا ہے۔ٹی وی سکرین پر سادگی اپنی مجسم صورت میں ڈھلی سر سنگیت کی لہروں میں بہتی چلی آتی ہے۔۔

اے جذبہء دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے

منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

ایک اجلی آواز کی پوریں بہزاد لکھنوی کے شعروں کے معنی کھول رہی ہیں۔میک اپ سے عاری سادہ چہرہ بالوں کی مانگ درمیان سے نکالی ہوئی بس اپنے ہی آپ میں گم ہو کر ایسے گانا کہ شاعری آواز سامع سب ایک ہوجاتے۔ نیرہ نور کو کبھی اے عشق ہمیں بربا د نہ کر گاتے ہوئے دیکھیں ۔کیسے اس ان کے چہرے کے خدوخال اس غزل کے اشعار کے ساتھ پگھلتے تھے۔وہ معنی کے عمیق جہانوں میں اتر کر ایک ایک مصرعے کو اپنی آواز کا پیراہن اوڑھاتی ہیں۔ پھر احمد شمیم کی نظم کو زندگی مل رہی ہے۔ کبھی ہم خوبصورت تھے کتابوں میں بسی خوشبو کی مانند سانس ساکن تھی بہت سے ان کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے میں نے یہ نظم عمر کے جس دور میں سنی وہ خوابوں کے کاسنی رنگوں سے سجا ہوا دور تھا، اس نظم کا ہر مصرعہ میرے اندر اترتا خوابوں کی پگڈنڈی بناتا اور میں اس پر چلتی رہتی۔ وہ وقت خوبصورت تھا ہم بھی خوبصورت تھے مگر اس نظم میں ایسا کچھ تھا کہ دل ہر وار ہوتا ،آنے والے دنوں کی دستک تھی ،جب زندگی ہجر وصال برت کر پرانی ہوجاتی ہے، پھر کیسا لگتا ہے یہ کہنا کہ کبھی ہم خوبصورت تھے۔۔ نظم تو احمد شمیم کی تھی مگر نیرہ نور نے اسے اپنے اندر اتار کے اپنے احساس اور جذب کی آگ سے کندن بناکر سننے والوں کی سماعتوں میں اتارا ۔اور اس طرح کہ لازوال کردیا ،اب یہ ہم سب کی زندگی کا تجربہ بن گیا۔شاہراہ حیات پر چلتے چلتے کسی روز تھکن آلود آئینوں میں اپنے ڈھلتے ہوئے خدوخال دیکھ کر کون ہے جس نے زیر لب نیرہ نور کو گنگنایا نہ ہو۔کبھی ہم خوب صورت تھے۔

امی جان کو نیرہ نور بہت پسند تھی اور نیرہ نور کی کلاسیک سادگی کو ان کی شخصیت کی بہت نایاب اور قیمتی خوبی کے انداز میں سراہا کرتیں۔اسی اور نوے کی دہائی پاکستان میں گلوکاری عروج کا وقت تھا صرف خواتین گلوکاراوں کو دیکھیں تو ایک طرف ملکہ ترنم نور جہاں تھیں۔حسین زرق برق ساڑھیاں، ہیرے جواہرات سے سجی سنوری خدوخال کو غازے کی نمایاں تہوں سے مزید خوشنما کرنے کا جتن ، پھر گاتے ہوئے نازو انداز انہیں ہزار رنگ نظارے میں بدلتے، ناہید اختر کیا خوبصورت ساڑھیاں پہنتیں ،نفاست سے کیا میک اپ گانا گاتے ہوئے ناز و انداز کی چمک سننے والے کو دیکھنے پر بھی مجبور کرتی۔ اس زمانے میں مسرت نذیر کا لونگ گواچا کی بہت دھوم پڑی، زرق برق ساڑھیاں ،گائیکی میں ان کے لونگ کا لشکارا بھی شامل رہتا ۔

اس دور کی نامور گلورکاراوں کا یہی منظر نامہ تھا ان تصویروں سے جو کولاج بنتا ہے اسے اپنے تصور میں لائیے اور دیکھئے کہ اس لشکتے پشکتے کولاج میں نیرہ نور اپنی بے مثل سادگی کے ساتھ کس وقار سے دل میں رہی ہیں۔ سادہ لباس بالوں کی سیدھی مانگ چہرے پر کیمرے کی ضرورت پوری کر تا ہلکا سا میک اپ ۔ وہ گاتے ہوئے اپنے آپ میں گم ہوجاتیں سامنے بیٹھے سامعین سے بھی نظر نہ ملاتیں۔اور نظر تو انہوں نے کبھی دنیا اور دنیاداری سے بھی نہیں ملائی تھی، شہرت کے آسمانوں پر جگمگاتی رہیں مگر ظاہری اطوار وہی رہے۔ ایک صوفی کی طرح وہ اپنے حال میں مست ،بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں، کی تصویر بنی رہیں۔ادی نور الھدی شاہ نے نیرہ نور کی شخصیت کے روحانی پہلوؤں کو آشکار کر تا ہو ا کیا کمال مضمون تحریر کیا ہے۔ اس تحریر میں نیرہ اپنی زندگی کے اصل سچ کے ساتھ نظر آتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نیرہ نور سے یہ سوال ہمیشہ ہوتا رہا کہ آپ نے گلوکاری کیوں چھوڑ دی ؟تارڑ صاحب کے ساتھ گزشتہ برس ایک ملاقات میں ان کے اسی سوال کا جواب قناعت میں لپٹی نیرہ نور نے یوں دیا کہ میں جاننا چاہتی تھی میں کون ہوں ؟میرادنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے ؟ میرا رب مجھ سے کیا چاہتا ہے ؟کائنات کی وسعت پر پھیلے ہوئے یہ سوال جاننے کے لیے دنیا کی بھیڑ سے نکلنا پڑتا ہے۔یہ ان کے لیے زندگی کا سب سے ضروری کام تھا جس کی خاطر انہوں نے شہرت اور گلیمر کی چکاچوند قربان کی۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ گلیمراور شہرت کی خواہش کبھی ان کا مطمح نظر نہیں رہی، اس وقت بھی جب وہ این سی اے کی طالبہ تھیں اور گلوکاری کا ابھی آغاز کیا تھا ۔ ان کی شخصیت کا یہی روحانی پہلو جس میں قناعت تھی ، جس میں اللہ کے ساتھ لو لگی ہوئی تھی، ان کی شخصیت کی بے مثل سادگی میں جھلکتا تھا۔ وہ ہمیشہ سے اسی راستے کی مسافر تھیں اور اسی راستے پر چلتی ہوئی وہ اپنے رب کے حضور ایک اطمینان سے بھری روح کی صورت پیش ہو گئیں۔ ان کا مسئلہ باطن اور روح تھا ظاہر اور دنیا داری نہیں تھا ۔نیرہ نور ہمیشہ سے اسی راستے کی مسافر تھیں بس ہمیں ان کے اس سفر کا اندازہ تب ہوا جب وہ اپنی منزل تک پہنچ گئیں۔ رب انہیں دائمی رحمتوں میں آسودہ رکھے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply