• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بلوچ قومی مسئلہ اور پاکستانیوں کی منافقت ـ ۔۔ ذوالفقار علی زلفی

بلوچ قومی مسئلہ اور پاکستانیوں کی منافقت ـ ۔۔ ذوالفقار علی زلفی

بلوچستان کے تین اضلاع پنجگور، خضدار اور آواران اس وقت پاکستان کی جانب سے بدترین جارحیت کا شکار ہیں ـ یوں تو پورا بلوچستان پاکستانی فوج کی چھاؤنی ہے مگر فی الحال مزکورہ بالا تین اضلاع بالخصوص تحصیل مشکے اور اس کے قرب و جوار کی صورتحال انتہائی خراب ہے ۔ـ دستیاب معلومات کے مطابق تاحال پچاس سے زائد خواتین اپنے بچوں سمیت لاپتہ کی  جاچکی  ہیں جن میں معروف بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی ہمشیرہ نور خاتون بھی شامل ہیں، ـ فضائی بمباری اور شدید شیلنگ کے باعث متعدد مکانات تباہ ہوچکے ہیں جہاں متعدد ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے، ـ بلوچی حال احوال سسٹم کے ذریعے پہنچنے والی اطلاعات کے مطابق گولیوں سے چھلنی دس لاشیں برآمد ہوچکی ہیں جن میں سے ایک ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے کزن کی بتائی جارہی ہے جبکہ ایک معصوم بچی کی بھی خستہ حالت میں لاش ملی ہے ـ۔
بلوچستان میں جاری کشت و خون کو چونکہ میڈیا بلیک آؤٹ کا سامنا ہے اور متاثرہ علاقوں میں انٹرنیٹ و موبائل کنکشن بھی منقطع کیے جاچکے ہیں اس لئے دستیاب معلومات کو بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویسٹ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچانے کوشش کررہے ہیں۔سوشل میڈیا پر بلوچ اطلاعیہ پوسٹوں پر پاکستان کے شہری طبقے کا ردعمل ہمیشہ کی طرح ایک دفعہ پھر مایوس کن ثابت ہوا ـ۔
بعض افراد یہ کہتے پائے گئے کہ اگر چند روز قبل بلوچستان میں قتل ہونے والے دس پنجابی محنت کشوں کا قتل جائز تھا تو یہ بھی ہے اور اگر وہ ناجائز تھا تو اس کی حمایت بھی نہیں کی جاسکتی ـ یہ بے رحمی کا ننگا مظاہرہ ہے، گویا خواتین و بچوں کا اغوا، مکانات کی تباہی، درجنوں افراد کاقتل اور وحشت ناک آپریشن کے جائز و ناجائز ہونے کا پیمانہ پنجابی محنت کش کے قتل پر بلوچ ردعمل سے مشروط ہے ـ۔
کچھ افراد کا ماننا ہے چونکہ بلوچ علیحدگی مانگتے ہیں اس لئے پاکستانی فوج کے پاس سوائے جارحیت کے اور کوئی راستہ نہیں ـ ان افراد کے مطابق علیحدگی پسند بلوچوں کو فوجی ردعمل پر رونا نہیں چاہیے ـ اس منافقانہ ردعمل پر جی چاہتا ہے سر دیوار پر مارا جائے ـ یہی وہ افراد ہیں جو کشمیر پر بھارتی جارحیت کے خلاف آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں اور فلسطین کے معاملے پر زمین کو تانبہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ـ یہاں وہ اپنے اس منافقانہ نکتہِ نظر سے مختلف راستہ اختیار کرتے ہیں اور “رونا” جیسے تضحیک آمیز الفاظ کے استعمال سے خواتین کے اغوا اور بلوچ نسل کشی کو جواز فراہم کرتے ہیں۔ ـ
سوشل میڈیا پر ایسے افراد بھی نوٹ کیے  گئے ہیں جو اطلاعیہ پوسٹوں کو خاموشی سے لائک کرکے نکل جاتے ہیں ـ یہ منافقت کی دوسری قسم ہے قبل ازیں پنجابی محنت کشوں کے قتل پر ان لوگوں نے نہ صرف ہفتوں احتجاج کیا بلکہ بلوچ سرمچاروں و ان کے حامیوں کو نسل پرستی اور فاشسٹ کی گالی بھی دیتے رہے ـ یہ افراد اپنا تعارف مارکسسٹ کی حیثیت سے کرواتے ہیں لیکن ان کے نکتہِ نظر کے تحت ایک مارکسسٹ کو بین الاقوامیت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی محبِ وطن بھی ہونا چاہیے گوکہ اپنے اس رجحان کا وہ کھلم کھلا اعلان نہیں کرتے مگر ان کے اعمال و رویے ان کے اس دوغلے پن کی مکمل گواہی دیتے نظر آتے ہیں ـ
ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ سوال اٹھاتا نظر آتا ہے کہ تمام بلوچ سردار پاکستانی اسمبلیوں کا حصہ رہے ہیں اور آج بھی ان کی اکثریت اسمبلیوں میں براجمان ہے ایسے میں یہ کیسے مان لیا جائے آزادی بلوچ اکثریت کا مطالبہ ہے ؟ ـ یہ سوال کافی دلچسپ ہے ـ پہلے کہا جاتا تھا بلوچستان کا مسئلہ چند سرداروں کا پیدا کردہ ہے’ اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر اسے دو ڈھائی ضلعوں کا بھی مسئلہ قرار دیا گیا ـ اب جب بلوچ جدوجہد نے واضح کردیا کہ یہ خالصتاً عوامی جدوجہد ہے تو انہوں نے پینترا بدل کر سرداروں کی عدم موجودگی کو تحریک کی کمزوری سے تعبیر کرنا شروع کردیا ہے ـ “یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات۔” ـ
بلوچ قومی مسئلے پر پاکستانی دانشوروں سمیت پورا پاکستانی معاشرہ کنفیوژ نظر آتا ہے بلکہ صاف طور پر کہا جائے تو پاکستان کا شہری طبقہ منافق کے تمغے کا بلا شرکت غیرے حق دار ہے ـ چند دنوں قبل ایک پاکستانی آن لائن لبرل میگزین پر ایک خاتون لکھاری نے بلوچستان کے حوالے سے توسیع پسندانہ خیال کا اظہار کیا ـ راقم نے جب میگزین ایڈیٹر کی  وال پر ان کے اس خیال پر سوال اٹھایا تو ایڈیٹر نے فرمایا “بلوچستان پاکستان کی اکائی ہے اور ہر شہری کو اس پر رائے رکھنے اور اس رائے کے اظہار کی آزادی ہے” ـ راقم نے ان کے اس خیال پر دوسرا سوال اٹھایا کہ کیا بے رحمانہ رائے اور بلوچستان کو اکائی کی بجائے کالونی سمجھنے جیسے معاملے پر دوسرے فرد کو بھی تنقید کرنے کی آزادی ہے؟” ـ اس پر اعتدال پسندی کی شہرت رکھنے والے ایڈیٹر چراغ پا ہوگئے اور انہوں نے راقم کو ہرلحاظ سے “فارغ” قرار دے دیا ـ اندازہ لگایا جاسکتا ہے بلوچ اور بلوچستان کے معاملے پر پاکستان کا “معتدل” ، “لبرل” اور “جمہوریت پسند” طبقہ کہاں کھڑا ہے ـ۔
بلوچ قومی مسئلے کو پاکستان کا تقریباً ہر کالم نگار، دانشور اور صحافی پاکستانی حب الوطنی کی عینک سے دیکھتا اور اسی عینک سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے ـ یہی وجہ ہے ٹنوں کے حساب سے مواد موجود ہونے کے باوجود وہ مسئلے کی تفہیم ایک طرف بلوچ شناخت کے حوالے سے بھی لاعلم نظر آتا ہے ـ اچھے خاصے “پڑھے لکھے” پاکستانی بھی بلوچ کو “بلوچی” لکھتے اور پکارتے ہیں ۔ـ
پاکستانی معاشرے کی لاتعلقی، منافقت اور بے رحمی نے آج ہر بلوچ کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے اس کا مقابلہ صرف پاکستانی عسکری اسٹبلشمنٹ اور اس کے مالیاتی حصہ دار میڈیا و سیاسی جماعتوں سے ہی نہیں بلکہ پاکستانی شہری طبقے سے بھی ہے ـ اس سوچ کا نتیجہ کتنا خوفناک ہوسکتا ہے اس کے بارے میں سوچنا بھی محال ہے ـ۔

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply