آج کے دور میں عزیمت یا رخصت؟۔۔سید ثاقب اکبر

امام حسینؑ سے محبت کرنے والا ایک طبقہ ایسے بہت سے احباب کے احترام کا بھی دم بھرتا ہے، جنھوں نے یزید کے خلاف قیام نہ کیا یا امام حسینؑ کا ساتھ نہ دیا۔ اس سلسلے میں وہ ایک ’’اصول‘‘ کا سہارا لیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض مواقع پر آپ کو عزیمت یا رخصت میں سے ایک راستہ اختیار کرنا پڑ جاتا ہے۔ یزید کے خلاف قیام میں اُن کے نزدیک امام حسینؑ نے عزیمت کا راستہ اختیار کیا جبکہ دیگر بہت سی قابل احترام شخصیات نے رخصت کا راستہ اپنایا۔ گویا ان کے نزدیک رخصت کا راستہ بھی ایک ’’اسلامی اصول‘‘ کے مطابق درست ہے اور امام حسینؑ کا ساتھ نہ دینے والے افراد کے لیے اسی بنیاد پر تاویل کی گنجائش نکلتی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بہت ہی کمزور تاویل ہے اور یہی نقطہ نظر مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا ہے۔

چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ صحابہؓ نے تو بیعت کرلی تھی، حضرت حسینؓ نے کیوں نہ کی اور وہ ان کو مطعون کرتے ہیں، حالانکہ جب مسلمان حکومت پوری طاقت سے قائم ہو اور اس کے خلاف اٹھنا ہما شما کا کام نہیں، صرف وہ اٹھ سکتا ہے، جو فیصلہ کرچکا ہو کہ وہ اٹھے گا، خواہ کچھ ہو جائے، جو لوگ ایسی بات کہتے ہیں، ان کو صحابہؓ کی طرف سے صفائی پیش کرنی چاہیے نہ کہ حضرت حسینؓ کو مطعون کرنا۔ اٹھنے والے سے صفائی پیش کرنے کا کیا موقع ہے۔ صحابہ کرامؓ کی پوزیشن صاف کی جاسکتی ہے کہ ہر شخص کا یہ کام نہیں تھا۔‘‘

پاکستان میں اس وقت رجیم چینج آپریشن اپنے مختلف مراحل سے گزر رہا ہے اور اس کے خلاف مزاحمت بھی آگے بڑھ رہی ہے، ہوسکتا ہے کہ آخری معرکے میں پاکستان ایک خود مختار اور عوامی طاقت سے خوشحال ملک کی منزل حاصل کرلے۔ پاکستان کی تشکیل کے تھوڑے ہی عرصے بعد یہ ملک امریکہ کے قریب ہوگیا، خود امریکہ نے بھی عالمی سطح پر برطانوی سامراج کی جگہ لے لی، یہ قربت رفتہ رفتہ بڑھتی چلی گئی، لیکن یہ قربت ایسی ہی تھی، جیسی ایک طاقت ور کے ساتھ ایک کمزور کی ہوتی ہے۔ سامراج کے مزاج میں نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو قوی کرے۔ لہٰذا امریکہ کا پاکستان سے تعاون اس کی اپنی بالادستی کے ساتھ مشروط رہا ہے اور اس ملک میں اس کے تعاون سے بننے والی حکومتیں عام طور پر اسی کے مفادات کی آلہ کار رہی ہیں۔ عالمی سطح پر جدید نوآبادیت دراصل سامراجی اقتدار کو اوٹ میں رکھنے سے عبارت ہے۔ دیسی چہرے والوں کی حکومت کے پیچھے ولایتی چہرے، یہ ہے جدید نوآبادیت۔ یہ اصطلاح واضح کرتی ہے کہ غلام اور مقبوضہ ممالک کے نظام کے تمام عناصر دراصل ایک بڑے ہدف پر متفق رہ کر کام کرتے رہیں گے اور وہ بڑا ہدف آقا کی فرمانبرداری ہے۔

پاکستان میں یہ بات پہلے بھی کہی جاتی رہی ہے کہ امریکہ کا اثر و رسوخ اس ملک میں بہت بڑھ چکا ہے اور اس کے مختلف اداروں میں اس کا نفوذ موجود ہے۔ کئی ایسے واقعات ہوئے کہ محسوس ہوا کہ امریکی سفیر ایک ملک کا سفیر نہیں بلکہ برصغیر میں برطانوی دور اقتدار کی طرح ایک وائسرائے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ پاکستان میں امریکی مداخلت اور نفوذ پر بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ خود امریکی اداروں اور شخصیات نے اپنی دستاویزات اور کتابوں میں اس حوالے سے بہت سا مواد شائع کیا ہے۔ وہ اپنی طاقت کو ظاہر کرنے اور حکومتوں کو نفسیاتی طور پر دبانے کے لیے ایسا مواد شائع کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں بہت سے مصنفین جن میں سیاستدان بھی ہیں، صحافی بھی اور سابق فوجی بھی، اس حوالے سے بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ اس پر عمومی اتفاق پایا جاتا ہے کہ امریکہ کو آمریت کا دور زیادہ سوٹ کرتا ہے، کیونکہ ایک شخص سے ڈیل کرنا زیادہ افراد سے ڈیل کرنے کی نسبت آسان ہوتا ہے۔ اس پر بھی عام طور پر اتفاق نظر پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کسی نہ کسی صورت میں حکمران رہتی ہے، کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ۔ پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو دنیا دو قطبوں میںتقسیم ہوچکی تھی۔ پاکستان بہت جلد امریکہ کے بعض فوجی معاہدوں کا حصہ بن گیا اور روس کے خلاف اس کے عزائم کی تکمیل کے لیے اس نے امریکہ کو پاک سرزمین پر فوجی اڈے بھی مہیا کر دیئے۔

پاکستان کے مقتدر حلقے امریکہ سے تعاون کی ایک دلیل ہمیشہ سے یہ پیش کرتے رہے کہ بھارت سے پاکستان کو بہت سے خطرات لاحق ہیں اور اس کے مقابلے کے لیے اسے امریکہ کا تعاون درکار ہے۔ نیز امریکہ سے اقتصادی یا فوجی امداد کا حصول بھی اس مقابلے کے لیے ضروری ہے۔ یہ دلیل اگرچہ بعد ازاں ناکارہ ثابت ہوگئی، جب بھارت کے مقابلے میں امریکہ نے نہ فقط پاکستان کا ساتھ نہ دیا بلکہ امریکی اسلحے کے استعمال پر پابندیاں عائد کر دیں۔ پاکستان سے رقم وصول کرنے کے بعد بھی پاکستان کو اسلحے کی فراہمی روک دی۔ مشرقی پاکستان کے جدا ہونے کا تماشا کرتا رہا اور آخرکار بھارت کا تزویراتی اتحادی بن گیا۔ آج پاکستان میں کسی اہل نظر کو اس امر میں شک نہیں کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان خطے میں بھارت کی بالادستی قبول کرلے۔

امریکہ کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان روس کے مقابلے میں امریکہ کا ساتھ دے۔ پاکستان نے بھی اس سلسلے میں امریکہ کو کبھی مایوس نہیں کیا اور ہمیشہ اسے اپنا کندھا پیش کیا، یہاں تک کہ سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں اگر کسی ملک نے امریکہ کا سب سے بڑھ کر اور عریاں طور پر ساتھ دیا تو وہ پاکستان ہی ہے۔ اسی لیے امریکہ کسی دور میں پاکستان کو نان نیٹو اتحادی اور فرنٹ لائن اسٹیٹ کے اعزازات سے نوازتا رہا ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی امریکہ نے روس کے بالمقابل اپنی مکمل بالادستی قائم کرنے کی خواہش اور کوشش کو ترک نہ کیا۔ روس سے آزاد ہونے والی بہت سی ریاستوں کو اپنے نزدیک کر لیا۔ بعض کو یورپی یونین بلکہ اس سے بڑھ کر نیٹو کا حصہ بنا لیا۔ ایسے میں پاکستان سے اس کی پھر بھی یہی فرمائش رہی کہ وہ روس سے تعلقات کو بہت ہی نچلی سطح پر رکھے۔
پاکستان کچھ عرصے سے یہ محسوس کر رہا تھا کہ امریکہ کی کہہ مکرنیاں، بھارت کی سرپرستی، چین کے خلاف محاذ آرائی، پاکستان کو مختلف محاذوں میں پھنسانے کی حکمت عملی، پاکستان کو معاشی طور پر کمزور رکھنے کے لیے ایف اے ٹی ایف جیسے اداروں کا بے رحمانہ استعمال، اس بات کا متقاضی ہے کہ پاکستان نسبتاً ایک آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرے۔ تاہم پاکستان کے حوالے سے امریکہ کی عادتیں اور تجربات کسی اور پالیسی کا تقاضا کرتے ہیں اور پاکستان کے مفادات کسی اور پالیسی کا۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دور حکومت کے آخر میں روس کے ساتھ وسیع تر تجارتی اور سیاسی تعلقات کے قیام کی جو کوشش کی، اس نے پاکستان کے حوالے سے امریکہ کو سیخ پا کر دیا اور اسے لگا کہ ستر سال سے زیادہ عرصے سے ہماری فرمانبرداری میں رہنے والا ایک اہم ملک ہمارے ہاتھ سے سرکنے لگا ہے۔ اس کی دوسری بڑی نشانی افغانستان میں مداخلت جاری رکھنے کے لیے سرزمین پاکستان پر سہولیات اور اڈوں کے حصول کی فرمائش پر سابق وزیراعظم کا absolutely not کہنا تھا۔ پھر باقی ساری کہانی عوام کے سامنے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے مختلف اداروں اور سیاسی جماعتوں میں سامراج کا گہرا اثر و نفوذ متحرک ہونے لگا، لیکن اس مرتبہ عوام نے مزاحمت کی علامت عمران خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ رجیم چینج کے پیچھے موجود قوت اتنی آسانی سے اس فیصلے کو پلٹنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اس نے دبائو کے تمام حربے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں تک کہ اس سلسلے میں ماضی کے تمام تر ریکارڈ ماند پڑنے لگے۔ یہ معرکہ جاری ہے، دیکھتے ہیں کہ کون کیا کردار ادا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس ملک کے حق میں کیا فیصلہ کرتا ہے، لیکن ابھی بھی ایک طبقہ ہے جو ’’رخصت‘‘ کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ حُر کی راہ بھی روشن ہے اور حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کی رخصت کا راستہ بھی موجود ہے، انتخاب آپ کا اپنا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply