سیلاب کس کے خواب ہیں؟۔۔انجنیئر ظفر وٹو

پاکستان میں بڑے سیلاب کچھ سالوں کے وقفے سے آتے رہتے ہیں۔ وفاقی سیلابی ادارے (فیڈرل فلڈ کمیشن) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں اب تک بیس سے زیادہ بڑے سیلاب آچُکے ہیں۔ یعنی ہر تیسرے یا چوتھے سال کے بعد ایک سیلاب ۔
پاکستان میں 2010 کے سپر فلڈ کے بعد قومی اور صوبائی سطح پر ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹیز بنائی گئیں جس کے ساتھ ہی واضح ہوگیا کہ ہم نے سیلاب کو تباہی و بربادی پیدا کرنے والی ایک آفت سمجھ کر نپٹنا ہے نہ کہ اسےاک نعمت اور پانی کی لامحدود مقدار کو ذخیرہ کرنے کا موقعہ سمجھ کر۔
کاش کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ“ فلڈ اپر چیونٹی ہارنسنگ اتھارٹیز “ (سیلابی موقع کے استعمال کے ادارے) بنا لیتے۔
پچھلے ماہ “سیلاب ہی تو ہمارے خواب ہیں” کے عنوان سے ایک پوسٹ کی تھی جس میں کچھ تجاویز دی تھیں کہ کیسے ہم سیلاب سے تباہ کاریوں کی بجائے اس سے بے پناہ فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ کیسے اس آفت کو ایک نعمت میں بدل سکتے ہیں۔
تاہم کل عارف انیس نے اپنی پوسٹ میں ایک دوسرے زاوئیے سے بتایا ہے کہ سیلاب سے تو کئی لوگوں اور ملکی اور غیر ملکی اداروں کی بلئین ڈالر کی اکانومی پہلے ہی چل رہی ہے۔ ان کی زبانی سنئے اور سر دھنیے
“ کوئی بیس برس قبل، سی ایس ایس کرنے کے بعد سول سروس اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہونے کے لیے لازمی ریسرچ ورک اور پریزینٹیشن کی باری آئی تو تب میں نے “واٹر کرائسس ان پاکستان” کا انتخاب کیا. ریسرچ کے دوران معاملے کی سنگینی کا جان کر میری سٹی گم ہوگئی جب معلوم ہوا کہ پندرہ ارب ڈالرز سے زیادہ قیمت کا پانی ہر سال سمندر میں چلا جاتا ہے. جب میں نے تب کے ارسا کے چئیرمین کے ساتھ انٹرویو میں یہ نکتہ اٹھایا تو انہوں نے اس کچے افسر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا “اس لیے کہ ہر سال سیلاب میں افسر لوگ، ٹھیکیدار، سیاست دان اور رسہ گیر پانچ سو ارب بناتے ہیں. یہ پانچ سو ارب سالانہ کی اکانومی ہے تو اس لیے یہ سیلاب ہمیشہ آتے رہیں گے”. میں ہکا بکا بیٹھا نوٹس لے رہا تھا تو انہوں نے کھنکار کے کہا “یہ بات آف دا ریکارڈ ہے، انٹرویو میں نہ لکھ دینا “.
صرف 2010 کے بد ترین سیلاب میں 2 کروڑ سے زائد آبادی متاثر ہوئی اور 20 لاکھ پاکستانی بے گھر ہوئے اور صرف ایک سال میں پاکستانی معیشت کو 10 ارب ڈالر کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔
ہمارا ملک پانی کی شدید کمی کا شکار دنیا کے چند ایک خاص علاقوں میں شامل ہے اور اتنے زیادہ سیلابی پانی کو بغیر استعمال یا ذخیرہ کئے آبادیوں یا زرعی زمینوں میں تباہی پھیلانے کے لئے کھلا چھوڑ دینا یا سمندر برد کر دینا شرمناک ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ کی تنبیہ کے مطابق 2030ء تک پاکستان میں سالانہ 27لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہو سکتے ہیں ،اس وقت ہر سال 7 لاکھ 15 ہزار افراد سیلابی پانی کی بے رحم موجوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply