بدن (97) ۔ کامیابی کے اعداد و شمار/وہاراامباکر

بیسویں صدی میں انسان کی اوسط متوقع عمر میں ہونے والا اضافہ حیران کن تھا۔ سن 1900 میں امریکہ میں مردوں کی اوسط متوقع عمر 46 سال تھی جو کہ ایک سو سال بعد 74 سال تک جا چکی تھی۔ خواتین میں یہ 48 سے بڑھ کر 80 تک۔ سنگاپور میں خاتون کی متوقع عمر 87.6 سال تھی اور وہ اپنی تین نسل پہلے کے مقابلے میں دگنی سے بھی زیادہ تھی۔ دنیا بھر میں 1950 میں مردوں کی متوقع عمر 48.1 سال تھی (اس وقت ہمیں دنیا بھر سے قابلِ اعتبار ریکارڈ مل جاتے ہیں)۔ اور یہ بڑھ کر 70.5 سال ہو چکی ہے۔ جبکہ خواتین میں 52.9 سے بڑھ کر 75.6 سال۔ ایسے پچیس ممالک ہیں جہاں پر یہ اسی سال سے زیاد ہے۔ دنیا بھر میں ہر ملک میں یہ کامیابی کی کہانی ہے۔ صرف ایک سے دد نسلوں میں ہی چالیس سے ساٹھ فیصد اضافہ ایک زبردست کامیابی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور نہ ہی اب مرنے کی وجوہات ویسی رہیں جو 1900 میں تھیَ۔ سب سے بڑا فرق انفیکشن والے امراض کا ہے۔ ٹاپ ٹین کی فہرست سے تپدق اور خناق غائب ہو گئے ہیں۔ ان کی جگہ ذیابیطس اور الزائمر نے لے لی ہے۔ حادثات سے ہونے والی اموات ساتویں سے پانچویں نمبر پر آ گئی ہیں۔ اس لئے کہ دوسرے طریقے کم ہو گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اہم بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ تاریخی اعداد و شمار میں متوقع عمر کم ہونے کی ایک اہم وجہ بچپن میں ہونے والی اموات رہی ہے۔ جب آپ پڑھتے ہیں کہ اوسط متوقع عمر 46 سال تھی تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ چالیس کے پیٹے کے لوگ قبر میں پاوں لٹکائے ہوتے تھے اور کسی کو پچاس سال سے اوپر دیکھ کر حیرت سے دانت تلے انگلیاں داب لیتے تھے۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ بچوں کی ابتدائی عمر میں اتنی اموات ہوتی تھی کہ اوسط سب کیلئے کم ہو جاتی تھی۔ اگر بچپن کے وقت سے نکل آئیں تو طویل عمر پانے کا امکان اتنا برا بھی نہیں تھا۔ مارلین زوک کے مطابق، “بڑھاپا جدید ایجاد نہیں۔ اس کا اتنا عام ہو جانا نیا ہے”۔ 1950 میں ایک ہزار میں سے 216 بچے ایسے تھے جن کی موت پانچ سال سے کم عمر میں ہو جاتی تھی۔ اب یہ 38.9 ہے۔ صرف ستر سال میں یہ شرح گر کر پانچواں حصہ رہ چکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عام شخص کو بہتر صحت کی سہولیات میسر ہیں۔ بیسویں صدی میں میڈیکل سائنس میں ہونے والی ترقی ہوشربا ہے۔
پینسلین یا سٹریپٹومائسین جیسے اینٹی بائیوٹک کی آمد نے انفیکشن کی بیماریوں پر نمایاں اثر ڈالا۔ صدی آگے بڑھتی گئی اور نئی ادویات آتی گئیں۔ 1950 میں دئے جانے والے نسخوں میں نصف ادویات وہ تھیں جو اس سے پچھلے صرف دس سال میں دریافت ہوئی تھیں۔
دوسری پیشرفت ویکسین تھیں۔ خناق کے لاکھوں مریض ہوتے تھے۔ 1980 تک اس کا بڑی حد تک صفایا ہو چکا تھا۔ کالی کھانسی اور خسرے کے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا گیا۔ پولیو ہزاروں لوگوں کو اپاہج کر دیتا تھا۔ چند دہائیوں میں اسے ویکسین کی مدد سے بڑی حد تک شکست دی جا چکی تھی۔ جانیں بچانے میں ویکسین اینٹی بائیوٹکس سے زیادہ موثر ثابت ہوئی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایسا نہیں کہ اس میں تمام کریڈٹ میڈیکل سائنس کو جاتا تھا۔ 1960 کی دہائی میں برطانوی ماہرِ امراض مک کیون نے ایک عجیب بات دریافت کی۔ وہ میڈیکل ریکارڈز کا تجزیہ کر رہے تھے۔ انہیں معلوم ہوا کہ تپدق، خسرہ، کالی کھانسی اور لال بخار جیسی بیماریوں میں ہونے والی کمی ادویات کی آمد سے پہلے ہونے لگی تھی۔ 1828 میں برطانیہ میں تپدق سے ہونے والی اموات ایک ملین میں 4000 تھیں۔ 1900 میں یہ گر کر 1200 رہ گئی تھی، جبکہ 1925 میں صرف 800۔ ایک صدی میں یہ 80 فیصد کمی تھی۔ اور اس میں دوا کا کوئی بھی کردار نہیں تھا۔
بچوں میں لال بخار سے اموات 1860 میں 2300 فی ملین تھیں جو 1935 میں کم ہو کر 100 فی ملین تک آ گئی تھیں۔ اس کمی کے پیچھے نہ ہی ویکسین اور نہ ہی ادویات تھیں۔
مک کیون کا کہنا تھا کہ بیماریوں کی پسپائی میں ادویات کا حصہ بیس فیصد ہے۔ باقی اسی فیصد کا تعلق بہتر نکاسی آب، بہتر غذا، بہتر لائف سٹائل سے ہے۔ یہاں تک کہ ریلوے کی آمد سے بھی۔ کیونکہ اس سے خوراک کی تقسیم بہتر ہوئی ہے۔ تازہ گوشت اور سبزیاں شہروں تک پہنچنا ممکن ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مک کیون کے تھیسس کو تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ ان کے مخالفین نے نشاندہی کی کہ مک کیون نے اپنے تھیسس میں منتخب بیماریوں پر تجزیہ کیا تھا جو ان کے نقطہ نظر کی حمایت کرے۔ میکس پیروٹز نے لکھا کہ پبلک ہیلتھ کے بارے میں ان کے کئی مفروضے ٹھیک نہیں تھے۔
ہم زندگی کے دورانیے میں اضافے کا کریڈٹ کسی طرف بھی زیادہ دیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم ماضی کے مقابلے میں وباوں اور بیماریوں سے زیادہ محفوظ ہیں اور ان پر قابو پانے کی زیادہ بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔
لیکن یہاں پر ایک مسئلہ ہے۔ یہ اضافہ ہر ایک کیلئے یکساں نہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
طویل عمر ہونے میں امیر ہونا مدد کرتا ہے۔ اگر آپ امیر ملک کے خوشحال شہری ہیں تو یہ توقع کر سکتے ہیں کہ نوے سال کے قریب کی عمر تک پہنچ سکیں گے۔ جبکہ کوئی غریب پسِ منظر کا شخص، جو اتنی ہی ورزش کرتا ہے، اتنی ہی نیند لیتا ہے، اتنی ہی اچھی غذا کھاتا ہے، لیکن بینک بیلنس کم ہے ۔۔۔ شاید دس سے پندرہ سال کم عمر پائے۔
ایک ہی جیسے طرزِ زندگی کے باوجود یہ بہت بڑا فرق ہے۔ اور ہمیں معلوم نہیں کہ ایسا کیوں ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply