کتاب تبصرہ/ارقم’کا کشمیر۔۔قمر رحیم

کشمیر کوہم نے سات رنگوں والی آنکھوں سے بھی دیکھا لیکن اس کے رنگ شمار نہ کرسکے۔اس کے جھرنوں کے موتیوں کو کوئی مصور بنا سکا نہ کسی کیمرے کی آنکھ انہیں دیکھ سکی۔اس کے آنسوؤں کی جھیلوں میں لوگ ایسے ڈوبے کہ پھر نکل نہ پائے۔ لکھنے والوں نے صدیوں لکھا پر اسے بیان نہ کرسکے۔اس کے ماضی پہ تضاد، اس کے مستقبل پہ تضاد۔اس کے حال پہ ماتم کی صف ، گذشتہ چوبیس سالوں میں استاد محترم محمد کبیر خاں کے دھواں دار کمرے میں بچھتی رہی۔ ہم بڑے شوق سے سنتے رہے داستان غم مگر ایک دن استاد محترم کے ائیر کنڈیشن کے پھیپھڑے جام ہو گئے۔ کاری گر دودن تک اس کے پھیپھڑوں کی صفائی کرتا رہا۔ کمرہ بھر گیا مگر پھیپھڑے صاف نہ ہوئے۔ ہم نے اس ماحول میں بھی اپنی صف ماتم بچھائے رکھی اور حسب سابق اپنا محرم ،اپنا عاشورہ منایا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک جھٹکے پرجب کبیر صاحب نے سگریٹ چھوڑ دیے تو دل کو ایک دھچکا سا لگا۔حتیٰ کہ ایک دن انہوں نے پونے دو کمروں کا وہ گھر بھی چھوڑ دیا۔مگر خواب دیکھنے نہ چھوڑے۔ ہم نے بہت انہونے خواب دیکھے اور چند ایک کے پیچھے یوں بھاگے کہ بریک ہی فیل ہو گئی۔کبیر صاحب کے یار غار،کریم صاحب غم کی چادر لپیٹے پہلے ہی بحریہ ٹاؤن اور تراڑ کھل کے پر فضا مقام پر اہلیہ محترمہ سے جا ٹکرے۔ کبیرصاحب جام شورو کی آغوش میں جا بسے جب کہ چیلا ابھی تک آوارہ گردی کے موڈ پر ہے۔‘‘جدھر گئیاں بیڑیاں ، اُدھر گے ملاّح’’کی ریت بھی ٹوٹ گئی۔ ریتوں ،روائتوں کے بیان میں یہ تذکرہ بھی ہوا کہ کوئی ادبی شمارہ نکالنا چاہیے۔کبیر صاحب نے اپنے ‘‘کنّ’’ دکھائے تو ‘‘چیلے’’ کی ‘‘رِڑی’’ ختم ہو گئی۔‘‘کھِلّّی پَٹ پَٹ’’ کر انہیں ‘‘کنّ ’’ ہو گیا تھا ۔کچھ ہی عرصے بعد ‘‘چیلے’’ کو ڈاکٹر ظفر حسین ظفر اور فیاض نقی صاحب ( تب وہ ڈاکٹر نہیں ہوئے تھے) کی زیر ِ ادارت شائع ہونے والے‘ارقم’’ کا پہلا شمارہ دیکھ کر پہلی بار اپنے ولی ہونے اورمدیران ِ ‘ارقم’کے فرشتہ ہونے کا شک گزرا۔ ‘ارقم’ دیکھ کر کبیر صاحب کے روتے چہرے پہ گلاب کھل اٹھے اور ان کی آنکھوں میں جگنو چمکنے لگے۔ڈاکٹر صغیر صاحب کی چند ایک کتابوں کے تذکرے کے دوران ، اپنے استاد، نعیم صاحب کے فرزندِ ارجمند ، ڈی آئی جی راشد نعیم صاحب سے ملاقات پر یا ایسی ہی کسی اور خوشی کے موقع کے علاوہ میں نے اکثر انہیں مغموم ہی پایا ہے۔ آج چوبیس سالہ رفاقت کے بعد جب ہم الگ ہوئے تو یہ بھید کھلا کہ غم کا یہ سایہ ہم پر بھی پڑ چکا ہے۔ رہی سہی کسرراولاکوٹ کی اشرافیہ و عوام کو دیکھ کرپوری ہو گئی۔ ہمارے شہر کی چھاتی سوکھ گئی ہے ۔مکئی کا اچھا خاصا پودا سوکھی پیلی‘ ٹانڈی’ بن کر رہ گیا۔ کچھ اشاریے البتہ ‘ بینچ مارک’ سے اوپر جا رہے ہیں ۔ جنہیں دیکھ کر کم و بیش ایک سیر خون بڑھ گیا ہے۔ ان (اشاریوں)میں ‘ارقم’ کے تازہ شمارے کا اجرا بھی ہے۔
پانچ بچوں کے بعد جب ‘ارقم ’کے ہاں کچھ نہ ہوا تو اپنے ہی پیٹ پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے پانچ سال کا طویل عرصہ گزار دیا۔پھر ایک دن خبر ملی کہ مدیران ارقم لیبر روم میں ہیں۔ یہ سنتے ہی سلامی لیے ریکوری ایریامیں ‘‘اُٹُو ٹُواں’’ بیٹھ گئے۔ اب گذشتہ ایک ماہ سے اسے گود میں لیے پھررہے ہیں۔ کسی ولیمے کی دعوت کے‘قیمتی’ اور مبارک موقع پر بیگم کے انتظار میں جھٹ سے ‘ارقم ’ کی ورق گردانی شروع کر دی۔یا فجر کی تسبیحات وغیرہ کے بعدیا کسی پارکنگ میں ضروری کام سے چھپ کرنومولود کو چومتے رہنا۔ایک دن ایک دوست نے گیارہ بجے شہر بلا کر نوید سنائی کہ موصوف دو گھنٹے لیٹ ہیں۔ پچھلی سیٹ پر پیارے ارقم کو غائب پا کر سر میں درد شروع ہو گیا۔ بھلا ہو ماموں صاحب کاجو شادی کی ایک بن بلائی دعوت میں ساتھ لے گئے۔ غرضیکہ فرصت کے تمام رات دن صرف کرنے کے بعد بھی ارقم کے تین سو صفحات اور کچھ منتخب تحاریر ہی پڑھی جا سکی ہیں۔ کچھ لوگ اتنے باصلاحیت ہوتے ہیں کہ دن رات میں موٹی موٹی کتابیں نہ صرف پڑھ لیتے ہیں ، بلکہ ان پر تبصرہ بھی لکھ دیتے ہیں۔ لیکن ایک بے پڑھے آدمی کے لیے یہ کام اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک غیر شادی شدہ عورت کے لیے حلالی بچہ پیدا کرنا۔تو کیاارقم کو چمکارنے کے لیے ہمیں دو ماہ اور درکارہیں؟ ایک آدھ ہفتے میں تو بچے کا ختنہ بھی ہو جاتا ہے۔جبکہ ارقم کا تو عقیقہ بھی ہو چکا۔حتیٰ کہ ادارہ ‘ارقم’ کے وعدے ‘وعیدوں’ سے تو لگتا ہے اگلے بچے کے معاملے میں بھی وہ اب تک‘ گھابن’ ہو چکا ہو گا۔ اس لیے سوچا چھ ماہ بعد گولے ‘‘پٹھالنے’’ سے بہتر ہے آج کی سُرسُری پر گزارہ کر لو۔ اس سے قبل بھی شروع سے ارقم کی پیدائش پر اپنی خوشی کے اظہار کا پکا ارادہ تھا ۔ اسی کیفیت میں بڑھاپا آگیامگر ارادے کو ٹوٹنے نہیں دیا۔
یہ ارقم کاکشمیر نمبر ہے۔ کور پیج چنار کے سُرخ پتوں، ڈل جھیل اور وادی نیلم کی تصویروں سے مزیّن ہے۔مجلس ِ مشاورت کے چودہ سکالرز میں سری نگر سے راجہ نذر بونیاری بھی شامل ہیں۔پتہ نہیں ہماری اکلوتی اولاد کے لیے سر ی نگر والوں کے ہاں اتنا ‘‘قال’’ کیوں پڑ گیا۔ ارقم سات حصوں یا ابواب اور 616صفحات پر مشتمل ہے۔مدیر اعلیٰ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر شمارے کے تعارف میں لکھتے ہیں‘‘ ارقم کا یہ کشمیر نمبر اصل کشمیر، اس کی تہذیب، ثقافت، تاریخ اور جغرافیے کی بازیافت کی ایک سعی ہے۔کھوئے ہوؤں کی یہ جستجو ماضی پرستی نہیں ہے۔بلکہ اپنے قد پر عزت و وقار کے ساتھ کھڑاہونے کی جانب ایک قدم ہے۔اگر لمحہ موجود کے جبر کے باعث ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو یہ نہ بتایا کہ ہم کون تھے؟ کیا تھے؟اور ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے؟ تو پھر جو کچھ آج ہمارے پاس ہے شاید اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائے’’۔
میں نے ‘‘وادی گل پوش ’’ میں ڈاکٹر صاحب کو پہلی بار قریب سے دیکھا اور کسی حد تک سمجھا۔ ان کی منقولہ تحریر اور غیر منقولہ باتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اپنے وطن اورشناخت کی بقا کی کوشش بھی ان کی زندگی کا ایک بڑا مقصد ہے۔یہ وہ قدر ہے جس نے مجھ جیسے ناقدر شناش اور بے پڑھے آدمی کے دل کوان کے اور ان کے رفقا کرام کے احترام میں سرنگوں کر دیا ہے۔میں نے ارقم کا مطالعہ ان کی تعارفی تحریر کے تناظر میں کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں زیادہ وقت صرف ہورہا ہے۔ ایسے دور میں جب پاکستان اور ہندوستان کے بڑے ادبی رسائل دم توڑ چکے ہیں یا پھر بستر مرگ پر ہیں، کشمیر کے دور افتادہ اور‘‘پچھڑے’’ ہوئے ایک قصبے سے کسی معیاری ادبی رسالے کا اجرا ہمارے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں ہے۔ارقم ہمارے اعمال نامے کے ترازو کی ایک وزنی ‘‘پنڈ’’ ہے۔ارقم کا یہ نمبر کئی اعتبار سے ایک منفرد شمارہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی انفرادیت اس کا تحقیقی رنگ ہے۔ اس کا بیشتر مواد تحقیقی مقالہ جات اور مضامین پر مشتمل ہے۔ لکھنے والوں نے کمال عرق ریزی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جس نے یقینا مدیران کے کام کو اور بھی مشکل بنا دیا ہوگا۔ خصوصاً تاریخ و تحریک کے باب میں یہ مشکل سمجھ میں آنے والی ہے۔اس مشکل کے بھاری پتھر کو کچھ دیر کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔اور چلتے ہیں ‘زبان و ادب ’کی طرف جو میرے نزدیک کسی ادبی جریدے کا اصل موضوع ہوتا ہے۔ اس باب کا آغاز خوش دیو مینی کے مضمون ‘پونچھ میں اردو ۔ ایک جائزہ’ سے ہوتا ہے۔ اس تحریر کا عنوان جواس کا مکمل تعارف ہے اور‘خوش دیو مینی’ کا نام دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ خوش دیو مینی صاحب نے اختصار اور جامعیت کے ساتھ پونچھ میں اردو کے آغاز سے ‘انجام’ تک کی کہانی لکھی ہے۔ ڈاکٹر قاسم بن حسن صاحب نے اپنے مقالہ ‘کشمیر اردو کے افسانوی ادب کے آئینے میں’ میں داستان، ناول ، افسانہ اور ڈراما کا احاطہ کیا ہے۔ مقالہ میں نمایاں ناولوں اور افسانوں کے متن پر بھی بات کی گئی ہے۔ لیکن چونکہ ادارہ ‘ارقم ’ نے مقالہ ہٰذا کی ‘‘چھانگ’’ کر لی ہے اس لیے ابھی شروع کیا ہی تھا کہ ختم ہو گیا۔ڈاکٹر فیاض نقی صاحب نے‘‘کشمیر میں اردو زبان و ادب ’’ جیسے ثقیل موضوع کو ایک طائرانہ نظر میں بیان کیا ہے گویا کمال کیا ہے۔یقینا ان کی یہ کاوش ہمارے ذوق مطالعہ کی آئینہ دار ہے۔ خود تو انہوں نے بہت پڑھا ہو گا مگر لکھنے میں ہمارے ہاضمے کو مدنظر رکھا ہے۔اس معلوماتی تحریر میں میرے لیے خوشی اور فخر کی بات یہ ہے کہ کشمیر میں اردو جن راستوں سے داخل ہوئی، پونچھ ان راستوں کی پہلی بستی تھی جہاں اس نے طویل عرصہ نہ صرف قیام کیا بلکہ راج بھی کیا۔اس کے علاوہ مجید امجد کی نظم ‘‘ابھی تم نہ آنا’’ ہے۔ جس کے چند مصرعوں کے ساتھ میں اپنی کوڑھ مغزی سے آپ کو نجات دلادوں گا۔
اعجاز نقی صاحب کا ‘لوک ادب کا خاکہ ’بہت خوبصورت ،متواز ن اور میچور تحریر ہے۔اسے دو بار پڑھا ،بعد ازاں بھی شاید اسے پڑھے بنا نہ رہا جا سکے۔لکھنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو پڑھنا پڑتا ہے اور اعجاز نقی صاحب نے یہ خاکہ بنانے کے لیے بہت پڑھا ہے ۔یقینا وہ اس خوبصورت موضوع کے انتخاب اور تحریر پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ لیکن دراصل کشمیری لوک ادب کی چادر شاید بہت بڑی نہ ہو لیکن معیار اور معیاد کے اعتبار سے وہ اتنا اعلیٰ اور قدیم ہے کہ اس کاخاکہ لکھنے کے لیے بہت نہیں کافی مطالعہ اور تحقیق کی ضرورت ہے۔لہٰذا اس خاکے کو کشمیری لوک ادب کا خاکہ نہیں ‘‘چہانولہ’’ضرور کہا جاسکتا ہے ۔لیکن صاحب ‘‘چہانولہ’’ بنانا کوئی آسان کام ہے؟ اگر کسی کو اس بات سے اتفاق نہیں ہے تو وہ اپنا ‘‘چہانولہ’’ بنا کر دکھائے، لگ پتہ جائے گا۔کشمیری لوک ادب میں ‘ہیمال اور ناگرائے ’کا قصہ دراصل ہندو میتھالوجی کی تخلیق ہے۔لیکن یہ اس قدر خوبصورت تخلیق ہے کہ بقول اعجاز صاحب یہ مسلمانوں میں بھی برابر مقبول ہے۔ یہی حال لل دید کے ساتھ بھی ہے اور حبہ خاتون کے ساتھ بھی ۔یقینا ادب کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، جغرافیائی ، نہ نظریاتی۔ اعجاز نقی صاحب نے اسے اچھی طرح سمجھا ہے۔بہرحال اگر ہم بات کو خاکے کی حدود سے باہر لے جائیں تو یہ موضوع سنجیدہ بحث کا متقاضی ہے۔ہمارے ہاں عموماً یہ تاثر پاہا جاتا ہے کہ لوک ادب کلیۃً مقامی ادب ہوتا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔لوک ادب کو عالمی ادب سے الگ کر کہ نہیں دیکھا جا سکتا۔ ہمارے ہاں اور بالخصوص وادی کشمیر میں رائج کہانیاں دیگر اقوام کے لوک ادب میں بھی تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ پائی جاتی ہیں۔اسی طرح ہالی ووڈکی Horror moviesجنّات والی اور دیگر دیو مالائی قصوں کہانیوں کی جدید شکل ہیں۔ ایسے ہی کئی ایک پہاڑی اور کشمیری کہاوتیں ہمیں اردو اورانگریزی زبان میں بھی ملتی ہیں۔اس اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ساری دنیا کے لوک ادب میں کچھ چیزیں مشترک اور ایک جیسی ہیں۔ معانی اور مفہوم میں یکسانیت سمجھ میں آنے والی ہے لیکن مواد کا ایک جیسا ہونا دلچسپ اور تحقیق طلب امر ہے۔ بہرحال کشمیر میں لوک ادب کا ارتقا ایک اہم موضوع ہے لیکن اس پر کام کرنے کی ہمت کون کرسکتا ہے۔
ارقم کا یہ شمارہ ان تھک محنت،مشقت اور جانفشانی کاحاصل ہے۔ البتہ اس جانفشانی نے اسے ایک ادبی رسالے سے تحقیقی مجلہ بنا دیا ہے۔ ظاہر ہے جس رسالے کے مدیران سمیت اس کی مجلس مشاور ت میں بھاری اکثریت ڈاکٹر حضرات کی ہو وہاں تحقیق کو ادب پر مات ہونی ہی تھی۔یہ تحقیق اگر زبان و ادب ، سیاحت، ثقافت وغیرہ تک ہی محدود رہتی تو بہتر تھا۔ لیکن جب اس نے تاریخ کشمیر اور تحریک کشمیر تک اپنے پاؤں پھیلائے تو اسے کشمیر کی ساون زدہ مٹی پربہت احتیاط سے سے چلنا پڑا۔ اس نے بچ بچاکر ایسا راستہ چنا جو اس کے کمفرٹ زون میں تھا۔ لیکن اس احتیاط میں اس کے کپڑے نہیں بچ پائے۔قصور اس (تحقیق ) کا نہیں ،ہماری مٹی ہی ایسی ہے۔اس پر بارش پڑ جائے تو اس کے چھینٹے سر سے گزر جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم مٹی گارے کی جم پل کو ارقم کی تاریخ ِکشمیر اور تحریک کشمیر دیکھ کر ‘‘کھہڑوکی ’’ لگ گئی ۔عورت سے نازک ہماری تاریخ کوایک ایسے رسالے میں جو زبان و ادب اور ایسے ہی دیگر موضوعات پر تحقیق پر مشتمل ہو، ادب کی زبان میں تو بیان کیا جا سکتا ہے ، خالص تاریخی یا نان فکشن کی زبان یا کلیے قاعدے میں اس کا بیان خاصا مشکل کام ہے۔ ارقم کی یہ کاوش قابل فکر بھی ہے اور تاریخ کو پھر سے پڑھنے کی مہمیز بھی۔گوارقم اب تحقیق کا سہرا باندھ چکا لیکن ادب سے چونکہ اس کا نکاح ٹوٹا نہیں ہے ،اس لیے تاریخ سے اس کا مُتعہ کچھ جچا نہیں ۔ہمیں اگر اپنی نسل کویہ بتانا ہے کہ ہم کون تھے اور ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے تو پھر انہیں کھلی آنکھوں سے پورا ہاتھی دکھانا ہو گا۔
25 جولائی1947ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے والیان ریاست کی تنظیم ‘‘چیمبر آف پرنسز ’’ کے سامنے انڈیپنڈینس ایکٹ یا قانون آزادی ہند کی وضاحت کرتے ہوئے ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں کہا کہ ریاستوں کو مکمل آزادی حاصل ہو گی۔تکنیکی اور قانونی طور پر وہ آزاد ہو ں گی۔البتہ اس نے ریاستوں کی مکمل آزادی کو درپیش خدشات سے بھی آگاہ کیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہی ریاستوں کو انڈیا اور پاکستان کے ساتھ معاہدہ قائمہ کرنے کا مشورہ دیا تھاجس کی گنجائش انڈی پنڈنس ایکٹ نے مہیا کر رکھی تھی(Danger in Kashmir page 48)۔اسی کی بنیاد پر مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان کے ساتھ معاہدہ قائمہ کیا تھا ۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اس معاہدہ کی موجودگی کے باجود کشمیر پر قبائلیوں کی یلغار کیوں کروائی گئی؟تاریخ سے متعلقہ یہی ایک سوال ایسا ہے جس پر بحث کو سمیٹنا ارقم کے بس میں نہیں ہے۔دوسرا ہم نقطہ 13اگست 1948ء کی قرارداد کی اس شق پرسر ظفر اللہ خان کا اعتراض تھا(Danger in Kashmir page 143) جس میں‘‘کمیشن ’’ نے دونوں ممالک سے یہ ضمانت مانگی تھی کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے لوگوں کی مرضی کے مطابق ہو گا۔اور دونوں ممالک نے اس کا عہد کیا تھا۔ یہاں پرکشمیریوں کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حق خودارادیت دیا گیا تھا۔ جسے سر ظفراللہ خان کے اعتراض کے بعد اقوام متحدہ کی دوسری،1 جنوری 1949ء کی قرارداد میں پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کے ساتھ مشروط یا محدود کر دیا گیا۔ یعنی پاکستان کو یہ تو منظور ہے کہ کشمیر بھارت کے ساتھ چلا جائے مگر ایک آزاد ملک نہ بنے۔ یہی نقطہ یا تبدیلی کشمیر کے مسئلہ کو سرد خانے میں ڈالنے کا باعث بنا۔ دنیا میں کون سا ملک ہے جو کشمیر لے کر پاکستان کے حوالے کرے گا؟ یوں کشمیر تھرڈ آپشن کی صورت میں ملنے والی ممکنہ عالمی حمایت سے محروم ہو گیا(واضح رہے کہ بیان کردہ دوسرا نقطہ کا ارقم میں کوئی تذکرہ نہیں ہے، اسے فقط وضاحت کے لیے بیان کیا گیا ہے)۔اسی طرح 1953ء میں شیخ عبداللہ کی گرفتاری کی وجہ اس کی وہ تقریریں ہیں جن میں اس نے کشمیر کی مکمل آزادی کی بات کی۔ اس نے کہا تھا کہ ضروری نہیں کہ کشمیر ی انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کریں( Behind the Vale P.193)۔ ثنا اللہ بٹ اور پنڈت پریم ناتھ بزاز نے ا ن تقریروں کو تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ اسی طرح موجودہ تحریک کا پس منظر اور محرکات بھی جب تک مکمل طور پر بیان نہیں کیے جاتے آنے والی نسلیں سچ کی تلاش میں بھٹکتی ہی رہیں گی۔ اور تاریخ یا تحریک کشمیر کا سچ بیان کرنا بعض صورتوں میں ممکن نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہم تاریخ کے جھنجھٹ میں نہ ہی پڑیں تو اچھاہے۔
آپ نے یہ بات تو اکثر سنی ہو گی کہ بھینسا مکئی میں گھس جائے تو کھیت کا کیا حشر ہوتا ہے۔جی ہاں وہی حشر ہم نے ارقم کے کشمیر کا کیا ہے۔ خصوصاً اس کی تاریخ کشمیر کا۔ ہم سے جو ہو سکتا تھا وہی کیا ہے۔ کوئی ڈھنگ کا کام آتا تو ضرور کرتے۔آدمی کا تعلق ماسیروں کے دیس سے ہو اور وہ بے پڑھا بھی ہو تو یقین جانیے وہ بھینسے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اگر آپ کو یقین نہیں ہے تو ضرور مطلع کیجیے گا ، بس لیپ ٹاپ کھولنے کی دیر ہے۔
آخرمیں دل کی بات بھی سامنے رکھ دیں کہ بہت ڈھونڈا،کہیں گل و بلبل کا تذکرہ بھی ملے کہ ‘‘طبیعت ِ کبیر خاں’’ سے فرار کی کوئی صورت نکلے مگر نہیں نکلی۔ سو حسب وعدہ مجید امجد کی مثالی نظم ،جو انہوں نے زلزلے کے بعد لکھی ہے، کے ایک ٹکڑے کے ساتھ اور مدیران ارقم اور ان کی پوری ٹیم کو محبت اور وحدت بھرے سلام کے ساتھ اجازت!
چناروں کی اجڑی ہوئی ایک بستی
کے خیمے سے
اس نے یہ پیغام بھیجا ہے
ابھی تم نہ آنا
ابھی پیا رکا جان! موسم نہیں ہے
ابھی اپنے حالات اچھے نہیں ہیں
ابھی درد کے سائے پھیلے ہوئے ہیں
ابھی کوہساروں میں لاشیں دبی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت برف اس بار بھی پڑ رہی ہے
مگر کھیلنے والے بچے نہیں ہیں
ابھی تم نہ آنا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply