تشدد کے خلاف جنگ لاحاصل نہیں۔۔کارل پوپر/ترجمہ:ساجد علی

انسانوں کی ایک کثیر تعداد تشدد سے نفرت کرتی اور یہ سمجھتی ہے کہ تشدد میں کمی کے لیے کام کرنا ان کی اولین ذمہ داری ہے اور وہ اس مقصد میں کامیابی کے بارے میں پر امید ہے اور اگر ممکن ہو تو انسانی زندگی سے اس کے مکمل خاتمے کے لیے جدوجہد کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ میں بھی تشدد کے ان رجائی دشمنوں میں سے ہوں۔ میں اس سے محض نفرت ہی نہیں کرتا بلکہ مجھے یقین واثق ہے کہ اس کے خلاف جنگ ہر گز لا حاصل نہیں۔ مجھے احساس ہے کہ یہ کام بہت مشکل ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تاریخ میں اکثر اوقات تشدد پر عارضی فتح بالآخر شکست پر منتج ہوئی ہے۔ میں اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کر رہا کہ دو عالمی جنگوں کے سبب جنم لینے والے تشدد کا نیا دور ابھی کسی طور پر بھی ختم نہیں ہوا۔ نازیت اور فسطائیت مکمل طور پر شکست کھا چکے ہیں، لیکن مجھے اعتراف ہے کہ ان کی شکست کا یہ مطلب نہیں کہ بربریت اور بہیمیت کو بھی شکست ہو چکی ہے۔ اس کے برعکس اس حقیقت سے چشم پوشی کرنا بے سود ہو گا کہ ان کراہت انگیز تصورات کی شکست میں بھی ان کی ایک طرح کی فتح مضمر ہے۔ مجھے تسلیم ہے کہ ہٹلر ہماری مغربی دنیا کے اخلاقی معیارات کی قدر و منزلت کو کم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ آج کی دنیا میں وحشیانہ طاقت کا استعمال اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا جنگ عظیم اول کے بعد کی پہلی دہائی میں بھی قابل برداشت نہ ہوتا۔ ہمیں بہرحال اس امکان کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ ہماری تہذیب بالآخر جدید ہتھیاروں سے تباہ ہو سکتی ہے جنہیں ہٹلر ہم پر آزمانا چاہتا تھا اور جنگ عظیم دوم کے بعد کی پہلی دہائی میں ہی ایسا ممکن تھا۔ ہٹلر ازم کی روح نے ہمارے اوپر اپنی عظیم ترین فتح اس وقت حاصل کی جب ہم نے اس کی شکست کے بعد ان ہتھیاروں کو استعمال کیا جو ہم نے نازیت کے خوف سے بنائے تھے۔بایں ہمہ، میں آج بھی کچھ زیادہ پر امید نہیں ہوں کہ تشدد کو شکست دی جا سکتی ہے۔ ہماری واحد امید یہ ہے کہ تشدد میں تخفیف کی جا سکتی ہے۔ مغربی اور مشرقی تہذیبوں کی تاریخ کے بعض طویل ادوار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ امید عبث نہیں ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ میں بیشتر دوسرے افراد کی طرح کیوں عقل پر یقین رکھتا ہوں اور خود کو عقلیت پسند قرار دیتا ہوں۔ میں اس لیے عقلیت پسند ہوں کہ مجھے تشدد کا واحد متبادل معقولیت کے رویے میں دکھائی دیتا ہے۔
دو افراد کے مابین اس بناءپر اختلاف ہو سکتا ہے کہ ان کی آرا مختلف ہوں یا ان کے مفادات یا پھر دونوں۔ سماجی زندگی میں نزاع کی متعدد ایسی صورتیں ہوتی ہیں جن کا کوئی نہ کوئی تصفیہ کرنا لازم ہوتا ہے۔ مسئلے کی نوعیت ایسی ہو سکتی ہے کہ اس کا حل نا گزیر ہو کیونکہ اس مسئلے کے حل میں ناکامی سے جنم لینے والی نئی مشکلات کا مجموعی اثر ناقابلِ برداشت تناؤ کا سبب بن سکتا ہے، مثلاً کسی مسئلے کو طے کرنے کے لیے مسلسل اور بھرپور تیاری کی حالت۔ (اسلحہ کی دوڑ اس کی ایک مثال ہے۔)کسی فیصلے پر پہنچنا لازمی ہو سکتا ہے۔
کسی فیصلے پر پہنچنے کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟ بالعموم اس کے دو ہی ممکنہ طریقے ہیں، استدلال (مثلاً کسی عالمی عدالت انصاف کے روبرو ثالثی کے لیے پیش کیے جانے والے دلائل) اور تشدد۔ مفادات کے متصادم ہونے کی صورت میں دو متبادل ہوتے ہیں: منصفانہ سمجھوتہ یا فریق مخالف کو تباہ کرنے کی کوشش۔ میرے نزدیک عقلیت پسند وہ شخص ہے جو تشدد کی بجائے استدلال اور بعض صورتوں میں سمجھوتے کے ذریعے فیصلے پر پہنچنے کی سعی کرتا ہے۔ وہ ترغیب آمیز پراپیگنڈے، ڈرانے، دھمکانے اور طاقت کے استعمال سے مخالف کو زیر کرنے کی بجائے اسے دلائل کے ذریعے قائل کرنے میں اپنی ناکامی کو ترجیح دیتا ہے۔
کسی شخص کو دلیل سے قائل کرنے اور پراپیگنڈے کے ذریعے ہمنوا بنانے میں فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ معقولیت سے میری کیا مراد ہے۔دونوں میں فرق و امتیاز دلیل کے استعمال میں نہیں ۔ پروپیگنڈہ بھی اکثر دلیل کا استعمال کرتا ہے اور یہ فرق ہمارے اس یقین میں مضمر نہیں کہ ہمارے دلائل فیصلہ کن ہیں اور ہر معقول شخص کو انھیں حتمی تسلیم کرنا چاہیے ،بلکہ یہ فرق ” کچھ لو کچھ دو “ کے رویے میں مضمر ہے۔ یہی نہیں کہ دوسروں کو قائل کرنے پر آمادہ رہا جائے بلکہ ان سے قائل ہونے کے امکان کو بھی تسلیم کیا جائے۔میں جسے معقولیت کا رویے قرار دیتا ہوں اسے اس جملے میں بیان کیا جاسکتا ہے: ” میں سمجھتا ہوں کہ میں درست ہوں لیکن میرا غلطی پر ہونا ممکن ہے اور ممکن ہے کہ آپ درست ہوں ، بہر حال ہم اس پر بحث کرسکتے ہیں کیونکہ اپنے اپنے نقطہ¿ نظر کی راستی پر اڑے رہنے کی بجائے اس طریق کار سے ہم صحیح تفہیم کے قریب پہنچ سکتے ہیں۔بشکریہ 92 نیوز

  • julia rana solicitors
  • merkit.pk
  • julia rana solicitors london

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply