الھجرہ علی خطی رسول اﷲﷺ (حصّہ سوئم)۔۔منصور ندیم

عموما ًہم اپنے بہترین دوست کے لئے اک لفظ “یارِ  غار” استعمال کرتے ہیں، لفظ “یارِ غار” آج ہمارے ہاں بہترین رازدان، ہم عصر دکھ درد شریک دوست کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس لفظ کی نسبت رسول ا ﷲﷺ کے سفرِ  ہجرت کے ساتھی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ سے ہے، جو سفر ہجرت میں آپ رسول  اﷲﷺ کے ساتھ غار ثور میں رُکے تھے، غار ِ ثور میں سیدنا ابو بکر کے ایثار و دوستی کے جذبے نے اس لفظ کو ایک استعارہ بنادیا۔ جب آج سے ۱۴۰۰ برس پہلے رسول اللہﷺ کو مدینہ کی جانب ہجرت کرنے کا حکم ملا تھا, آپ ﷺ کے اس سفر کا علم بہت ہی کم لوگوں کو تھا جن میں سیدنا ابوبکر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما شامل تھے۔ کفار نے حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا تاکہ آپ کو شہید کر دیا جائے۔ اس لئے آپ ﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اہل مکہ کی امانتیں واپس کرنے کی ذمہ داری دے کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوئے تھے۔

اس سفر کا آغاز ۱۲؍ربیع الاول ۱۳؍ اور عیسوی سنہء 622 ستمبر جمعے کے دن حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے مکان سے شروع ہوا تھا، رسول ا ﷲﷺ سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کے مکان کی طرف تشریف لے گئے جو حضرت خدیجہؓ کے مکان سے قریب ۳۰۹ میٹر کے فاصلے پر اس جگہ واقع تھا جہاں آج کل کعبہ میں باب فہد کے سامنے Hilton hotel کی بلڈنگ بنی ہوئی ہے۔ اسی کے راستے میں آپ اپنی چچازاد بہن حضرت ام ہانیؓ کے گھر کے سامنے پڑے ہوئے میدان میں حَزْورَۃ نامی مقام پر بھی کچھ دیر کے لئے رکے، اس میدان میں قبل از اسلام اور دورِ نبوت میں مکہ کا معروف تجارتی بازار لگا کرتا تھا، یہاں کھڑے ہو کر آپ نے دعا بھی فرمائی، اس کے بعد آپ سیدنا ابوبکرؓ کے مکان پر تشریف لے گئے، یہاں سے رسول  اﷲﷺ نے مدینہ جانے کے لئے تجارتی قافلوں والے عام راستے کی بجائے ایک علیحدہ راستہ اختیار کیا تھا۔ رسول ا ﷲﷺ نے مکہ مکرمہ کو چھوڑتے وقت ابتدا مدینہ کی بجائے اس کی مخالف سمت میں سفر کیا تھا اور آکر غار ثور میں پناہ لی تھی، سیدنا ابو بکر کے گھر سے غار ثور کا فیصلہ قریب ۵۵۰۰ میٹر کی مسافت پر تھا۔

غار ثور میں قیام کے دوران رسول ا ﷲﷺ کے ساتھ صرف سیدنا ابوبکر تھے، اور یہ غار پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔ آج کل یہ پہاڑ مکہ  کی معروف زیارات میں آتا ہے، جہاں پہاڑ پر غار ثور تک جانے کے لئے کچھ راستہ ہموار کیا گیا ہے اور کچھ ابتدائی سیڑھیاں بھی بنائی گئی ہیں۔ چونکہ قریش کے مشرکین آپ رسول  اﷲﷺ کی جان لینے کے درپے تھے، اس لئے یہ مدینہ کے مخالف راستے کی جانب تین دن تک غار ثور میں مقیم رہے کہ جب قریش کے لوگ ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے اور یہ سمجھ لیا گیا کہ تین دن گزر چکے ہیں، اس عرصے میں یقیناً وہ دونوں یہاں سے نکل کر بہت دور پہنچ چکے ہوں گے، قریش کے سرداروں کی جانب سے رسول  اﷲﷺ کو تلاش کرنے والے بھی تیز رفتار سواریوں پر گئے اور ناکام واپس آچکے تھے۔ ان تین دنوں کے قیام میں کچھ لوگ اس غار ثور تک بھی پہنچ گئے تھے، لیکن حکم ربی کی وجہ سے جب غار کے دھانے پر مکڑی نے جالہ بن دیا تو انہیں گمان ہوا کہ چونکہ یہاں مکڑی کا جالا موجود ہے تو اس میں کوئی داخل نہیں ہوا ہوگا۔ غار ثور میں ان تین دنوں کے قیام میں سیدنا ابو بکر صدیق کے بیٹے حضرت عبداللہ ، اور عموما بیٹی حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ اور غلام عامر رضی اللہ عنہ رسول  اﷲﷺ اور سیدنا  ابو بکر کے لئے خوراک کا انتظام کرتے تھے کہ عبداللہ بن ابی بکر روزانہ رات کو غار کے منہ پر سوتے اور صبح سویرے ہی مکہ چلے جاتے اور پتہ لگاتے کہ قریش کیا تدبیریں کر رہے ہیں؟ جو کچھ خبر ملتی شام کو آکر رسول  اﷲﷺ کو اطلاع کرتے سیدنا ابوبکر صدیق کے غلام حضرت عامر بن فہیرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رات گئے چراگاہ سے بکریاں لے کر غار کے پاس آ جاتے اور ان بکریوں کا دودھ سیدنا ابوبکر صدیق اور رسول  اﷲﷺ پی لیتے۔

الھجرہ علی خطی رسول ا ﷲﷺ نمائش میں یہ ویڈیو میں نظر آنے والا مصنوعی غار آپ دیکھ سکتے ہیں۔ جسے میں داخلے کے بعد اس کے دھانے پر مکڑی کا جالا بھی دکھایا گیا ہے۔

نوٹ : غار ثور پہنچ کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پہلے خود غار میں داخل ہوئے تھے اور اچھی طرح غار کی صفائی کی تھی تب اپنے بدن کے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر غار کے تمام سوراخوں کو بند کیا۔ پھر رسول ا ﷲﷺ غار کے اندر داخل ہوئے تھے، اور سیدنا ابوبکر صدیق کی گود میں اپنا سر رکھ کر سو گئے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک سوراخ کو اپنی ایڑی سے بند کر رکھا تھا۔ سوراخ کے اندر سے ایک سانپ نے بار بار یار غار کے پاؤں میں کاٹا مگر سیدنا صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خیال سے پاؤں نہیں ہٹایا کہ رسول ا ﷲﷺ کی نیند میں خلل نہ پڑجائے مگر درد کی شدت سے یار غار کے آنسوؤں کے آنسوؤں کے چند قطرات سرور کائنات کے رخسار پر گرگئے۔ جس سے رسول ا ﷲﷺ کی آنکھ کھل گئی، اپنے یارِ غار کو روتا دیکھ کر بے قرار ہو گئے پوچھا ابوبکر ! کیا ہوا ؟ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے۔ یہ سن کر رسول  اﷲﷺ نے زخم پر اپنا لعاب دہن لگا دیا جس سے فوراً ہی سارا درد جاتا رہا۔ رسول ا ﷲﷺ تین رات اس غار میں موجود رہے۔

ریفرنس (زرقانی علی المواهب جلد اول صفحہ ۳۲۲)

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

اگلے حصے میں غار ثور سے سفر ہجرت کے مقامات کا احوال ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply