• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • باجا پاکستان کا پاپولر لیڈر بن چکا ہے۔۔محمد اسد شاہ

باجا پاکستان کا پاپولر لیڈر بن چکا ہے۔۔محمد اسد شاہ

ڈاکٹر میرا بچپن کا دوست ، اور برطانیہ میں مقیم ہے ,اللّہ نے اسے بہت خوبیوں سے نوازا ہے ، ڈاکٹر بننے کے بعد اس نے چند ہی سال پاکستان میں گزارے ، اور پھر جلد ہی وہ برطانیہ چلا گیا ،شادی ہوئی تو بیوی کو بھی ادھر لے گیا ،زمانہ طلب علم سے ہی اسے سیاسی معاملات پہ غور کرنے اور بحث کرنے کا شوق ہے ،ہم جب کبھی اکٹھے بیٹھتے ، ڈاکٹر سیاست پہ گفت گو شروع کر دیتا ، سکول کے زمانے میں اسے کھیلوں یا ایسی دیگر سرگرمیوں سے کوئی دل چسپی نہیں تھی ۔ میڈیکل کالج میں تعلیم کے دوران البتہ ڈاکٹر کو صحت اور تن درستی کی اہمیت کا احساس شدت سے ہوا تو کالج فیلوز کے ساتھ مل کر بیڈمنٹن کھیلنا شروع کر دی ، کبھی چھٹیوں میں گھر آتا تو مجھ سے ملنے بھی آتا اور ہم شام کو بیڈمنٹن ضرور کھیلتے تھے ، لیکن اس کا ذہن زیادہ وقت سیاست کی طرف ہی رہتا ،ایک آدھ گیم کر کے ہی اکثر وہ تھک جاتا اور سیاسی سوالات شروع کر دیتا ،میرے پوچھنے پر اس نے تسلیم کیا کہ وہ میڈیکل کالج میں بھی اسی طرح کھیلتا تھا کہ کھیل کم اور سیاسی باتیں زیادہ ، یہ شوق اس کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا گیا ۔ برطانیہ میں وہ گزشتہ 20 سالوں سے رہ رہا ہے ،وہاں کی سیاست پہ سرسری نگاہ ضرور رکھتا ہے ، لیکن اس کو اصل لطف پاکستان کے حالات پر باتیں کر کے ہی آتا ہے ،ہر تیسرے چوتھے دن مجھے فون کرتا ہے اور کسی نہ کسی سیاسی مسئلے پر تقریر شروع کر دیتا ہے ، بظاہر وہ مجھ سے پوچھ رہا ہوتا ہے ، لیکن درحقیقت وہ مجھے لیکچر سنا رہا ہوتا ہے ۔ اوورسیز پاکستانیوں کے متعلق جو ایک عمومی رائے قائم ہے ، وہ اس سے بہت مختلف ہے ، جذباتی ہونے کے باوجود وہ کسی نام نہاد لیڈر اندھا مقلد نہیں ، بلکہ بہت باشعور آدمی ہے ۔بس ایک خرابی ہے کہ وہ سوال کرتا ہے تو پورا جواب نہیں سن سکتا ۔ اپنے سوال کا جواب بھی خود اس کے اپنے ہی پاس ہوتا ہے ،وہ سوال کر کے دراصل اپنے سامع کو صرف تیار کرتا ہے ،سامع کے چند جملے تحمل سے سنتا ہے اور پھر اپنا خطاب شروع کر دیتا ہے ، سامع کو پورے تحمل سے اس کا تفصیلی جواب سننا پڑتا ہے ۔ چنانچہ وہ ہر ایک کے ساتھ سیاسی گفت گو نہیں کرتا ۔ اس کے ہر دوست کے لیے اس کی پوری گفت گو سننا بہت اہم ہے ۔ یہ کام اس نے برطانیہ میں موجود اپنے چند پاکستانی دوستوں کے علاوہ پاکستان میں میرے ذمے بھی لگا رکھا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

گزشتہ روز اس نے مجھے فون کیا اور حسب عادت بہت جذباتی ہو رہا تھا ۔ اس کو اس بات پر شدید صدمہ ہے کہ لاہور جیسے شہر کی سڑکوں پر پاکستان کے قومی پرچم کی توہین ہو رہی ہے ۔اس کی گفت گو کا لب لباب یہ تھا کہ لاہور کی شاہ راہوں کے ہر کھمبے اور ٹاور پر پاکستان کا پرچم نیچے لگانا اور تحریک انصاف کا جھنڈا اوپر لگانا پاکستان کے پرچم اور پوری قوم کی توہین ہے ۔ڈاکٹر کو اس بات پر غصہ تھا کہ یہ کام اس سیاست دان کے زیر سایہ ہو رہا ہے جسے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین معزز ججز نے وزیر اعلیٰ پنجاب قرار دیا ۔ اس کے پاس اتنے اختیارات ہیں کہ اس کا بیٹا بھی سوشل میڈیا کے ذریعے سرکاری احکامات جاری کرتا ہے ، ڈاکٹر کو اس بات پر بھی صدمہ ہے کہ پورے لاہور ، بل کہ پورے پاکستان میں کسی کو بھی پورے ملک اور پوری قوم کی اس توہین پر کوئی غصہ نہیں آیا ۔ پورے لاہور میں اس توہین کے خلاف کوئی جلوس نہیں نکلا ، کسی سیاست دان نے کوئی بیان نہیں دیا اور کوئی پریس کانفرنس نہیں کی ۔پورے ملک میں قومی پرچم کا کوئی وارث یا سرپرست نظر نہیں آیا ۔سرکاری ملازمین قومی پرچم تو اتارتے رہے لیکن تحریک انصاف کا پرچم اتارنے کی ان میں ہمت تھی ، اور نہ ہی انھیں اجازت ۔ خود پی ٹی آئی میں سے بھی کوئی آواز بلند نہیں ہوئی کہ پاکستانی پرچم کا کتنا تقدس ہے؟ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ تحریک انصاف کے سپورٹرز کو باشعور اور محب وطن سمجھتا رہا ، لیکن یہ لوگ بھی پارٹی پرچم کے مقابلے میں قومی پرچم کو عزت دینے پر تیار نظر نہیں آئے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جیسے ہی یہ شرم ناک اور توہین آمیز حرکت سامنے آئی ، لوگ جوق در جوق گلیوں اور سڑکوں پر آ جاتے اور وطن سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ، لیکن برطانیہ میں چلنے والے کسی بھی پاکستانی نیوز چینل سے ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ ڈاکٹر انٹرنیٹ پر پاکستانی اخبارات دیکھتا رہا ، لیکن وہاں بھی ایسی کوئی خبر نہیں تھی کہ قومی پرچم کی ایسی توہین پر پاکستان میں غم و غصہ کا کوئی اظہار ہوا ہو ۔ تحریک انصاف کی مخالف سیاسی جماعتیں بھی خاموش رہیں ۔کیا ان کی غیرت بھی نہیں جاگی؟ عوام کیوں نہیں اٹھے؟ دوسرے شہروں اور دیہات کے لوگ کیوں سوئے رہے ؟ کیا زندہ دلان لاہور بھی اب زندہ نہیں رہے ؟ کیا ان کے ضمیر اور شعور زندہ ہیں؟ کیا بائیس کروڑ میں کسی ایک کو بھی تکلیف محسوس نہیں ہوئی؟ تبادلوں پر نوٹس لیا جا سکتا ہے ، لیکن قومی پرچم کی توہین پر کسی نے نوٹس کیوں نہیں لیا؟ کیا قومی پرچم کی عزت کا کوئی قانون نہیں؟ کیا پنجاب اسمبلی یا کسی صوبائی اسمبلی نے اس کا نوٹس لیا؟ کیا قومی اسمبلی یا سینیٹ کے ارکان کو قومی پرچم کی اس توہین پر کوئی صدمہ ہوا؟ کیا صدر مملکت کو قومی پرچم کی توہین پر کوئی ایکشن نہیں لینا چاہیے تھا؟ کیا اس ظلم پر کسی تھانے میں مقدمے کی کوئی درخواست  آئی؟ ڈاکٹر بار بار پوچھ رہا تھا کہ کیا کروڑوں لوگوں کا یہ سارا ملک سو رہا ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ پورا ملک قطعاً سو نہیں رہا ۔ گلی گلی ، محلے محلے میں باجا بج رہا ہے اور باجے کے شور میں لوگوں کو نیند کہاں آ سکتی ہے؟ ڈاکٹر نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا کہ اگر باجے کا اتنا شور ہے کہ لوگ قومی پرچم کی توہین پر بھی خاموش ہیں ، تو اس باجے کو روکا کیوں نہیں جاتا؟ میں نے کہا؛ “باجا اب اس ملک کا پاپولر لیڈر بن چکا ہے ، وہ دن رات بجتا ہے ، لیکن کوئی اسے روک نہیں سکتا ۔”

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply