• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تقریب یومِ آزادی جامعہ تفہیم القرآن اوسیاہ۔۔حسان عالمگیر عباسی

تقریب یومِ آزادی جامعہ تفہیم القرآن اوسیاہ۔۔حسان عالمگیر عباسی

اوسیاہ جامعہ تفہیم القرآن میں ہفتہ وار درس کلام اللہ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس بار اتوار خوشیوں بھرا رہا۔ 14 اگست کو چھٹی ہوتی ہے لیکن اس بار اتوار 14 اگست کی چھٹی بھی ڈکار گیا  ۔ بچے پریشان تھے تو ان کو ان کی فیملیز کے ساتھ مدرسہ تفہیم القرآن میں مدعو کیا گیا جہاں انھوں نے مدرسے کے طلبا  کا ٹیلنٹ چاٹنا تھا۔ آغاز درس قرآن سے ہوا لیکن اس میں اختصار کو اہمیت دی گئی کیونکہ رنگا رنگ تقریب میں قرآن و حدیث کی بات نے بار بار جگہ بنانی تھی۔

زندہ قومیں اپنی شناخت و پہچان کو برقرار رکھنے کے لیے قومی ہیروز کی قدر کرتی ہیں اور انھیں یاد کرتی ہیں۔ ان بابرکت الفاظ سے پروگرام کا آغاز ہوا لیکن باقاعدگی لانے کے لیے قرآنی آیات کی تلاوت کے لیے کسی قرآن کے طالب علم کو دعوت بھی دی گئی جس نے اپنی بہترین آواز کی مدد سے خوب داد وصول کی۔ ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملائکة الا تخافوا ولا تحزنو! یہ آیات تھیں۔ ان آیات میں خوشخبری ہے لیکن خدا نے اس خوشی کو حق کہنے اور اس پہ ڈٹ جانے سے مشروط کر رکھا ہے۔ طالب علم مدرسہ تفہیم القرآن حامد المحمود نے حمد پیش کرتے ہوئے کہا کہ زمین و آسمانوں میں خدا کا نور غالب ہے گویا وہ قرآن کی آیت یریدون لیطفئوا نور اللہ بافواھھم واللہ متم نورہ کو ترنم اور گائکی میں ادا کر رہا ہو!

لا یؤمن احدکم حتی اکون اور اگلے چند الفاظ کے مطابق رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اہمیت ہے لہذا تاشفین نے نعت کے ذریعے اس حقیقت کو منفرد انداز میں پیش کیا جس کے الفاظ کچھ یوں تھے:
اللھم صل علی سیدنا و مولانا محمد!

تاشفین مدرسے کا طالب علم ہے اور اس نے قرآنی آیت بھی دہرائی: ان اللّٰہ وملائکتہ یصلون علی النبی یایھا الذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما!

ساتھ ہی قومی ترانے کی دھن اور سبز ہلالی پرچموں کی بہار نے محفل میں چار چاند لگا دیے۔ خواتین، مردوں اور بچوں حتی کہ بوڑھوں کی موجودگی میں اس ترانے کی اہمیت مزید بڑھتی سنائی دی۔

قرآن کی روشنی میں علم کی اہمیت، فضیلت اور عظمت کا بتلانا مدرسے کے کسی خوش نصیب طالب علم کے حصے میں آیا جس نے بار بار کہا کہ جاہل اور پڑھے لکھے برابر نہیں ہو سکتے اور فرشتوں نے عالم کو سجدہ کیا تھا اور جو دلیل لائی وہ سنہری حروف میں مندرجہ ذیل ہے:
لا یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون!

اس نے فضیلت میں یہ بھی کہا کہ پہلی آیت کے پہلے لفظ کے مطالب میں ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اقرا یعنی پڑھو! حصول علم کو اس نے جنت کا راستہ کہا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا یعنی جو ہماری راہ میں کوشش کرتا ہے اس ہم ہمیشہ صراطِ مستقیم پہ ہی رکھتے ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ ایک عالم ہمیشہ شیطانی ہتھکنڈوں سے واقف ہوتا ہے۔ علمی محفل پہ فرشتے پر بچھا لیتے ہیں اور عالم ہی ایک عابد سے افضل قرار دیا گیا ہے کیونکہ چاند بھی تو ستاروں سے افضل ہے!

ایک طالب علم مقرر نے کہا کہ احکام الٰہی و شریعت کا نفاذ ہی دراصل قیام پاکستان کا اولین مقصد تھا۔ پروگرام کنڈکٹر بھی ساتھ ساتھ احادیث سناتے پائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ روایت میں آتا ہے: ترکتم فی امرین یعنی میں تمھارے بیچ دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں خدا کی کتاب اور نبی کی سنت, لہذا انھیں تھامے رہو اگر گمراہی سے بچنے کی خواہش زندہ ہے!

ایک دوسرے طالب علم مدرسہ ہذا نے یاد دلایا کہ لا ایمان لمن لا امانت له یعنی خائن ہمیشہ بے ایمان ہوتا ہے! اس نے مزید کہا کہ پاکستان ایک امانت تھی لیکن اسے اسلام کی عملی تجربہ گاہ نہ بنا کے بہت بڑی خیانت کی گئی اور ساتھ ہی دعا دیتے ہوئے کہا:

خدا کرے  کہ میری  ارض پاک پہ اترے وہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

ملی ترانہ بنام اے قائد اعظم ترا احسان ہے ترا احسان پڑھا گیا اور بھرپور انداز میں پڑھا گیا! سب نے مل کر گایا۔ سب کی آواز آواز کم موسیقار کی موسیقی زیادہ معلوم ہوتی تھی!

حافظ عبد الرحمن نے انگلش سپیچ یا انگریزی تقریر بموضوع یوم آزادی پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ریاست مدینہ کے بعد وہ پہلی ریاست ہے جو نظریے پہ معرض وجود میں آئی تھی لیکن فلسفہ ہی زندہ بچا ہے اور تلقین کہیں گم گئی ہے جس کو ڈھونڈنا ہماری قومی ذمہ داری اور فرض شناسی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کے چیدہ چیدہ نکات میں برادر ہوڈ یعنی بھائی چارہ، جسٹس یعنی انصاف اور پیس یعنی امن کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔

حافظ شمائل (سابق طالب علم) کے خیالات کچھ ان الفاظ میں تھے:
پاکستان خوابوں کی تعبیر
امت کی تقدیر
اک فکر و خیال
اس کا یہ بھی ماننا تھا کہ ہمیں یہ در و دیوار اس لیے پیارے ہیں کیونکہ لازوال قربانیوں سے یہ وطن معرض وجود میں آیا تھا لہذا جذبہ اخوت کے ساتھ جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ہمارا ملی فریضہ ہے۔ ملک کی اصل کے بحالی کے لیے تگ و دو ہی حقیقی عمل ہے۔ اس نے روایتی انداز اپناتے ہوئے ‘پاکستان زندہ باد’ سے تقریر کا اختتام کیا۔

ایک انتہائی ذہین طالب علم نے
‘قرآن کو کیسے سمجھا جائے’ کے رہنما اصول و قوانین و ضوابط بھی بتائے اور عملاً گردانوں کو دہرا کر بتایا کہ ہم مدرسے میں کیا کچھ کرتے ہیں!

پروگرام کنڈکٹر و ممبر مدرسہ بورڈ نے مدرسے کا منفرد مقام بھی بتایا اور کہا کہ یہاں اساتذہ کو بچے پہ ظلم ڈھانے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس روایتی انداز یعنی بچوں پہ ظلم و تشدد سے ایسی ڈٹی کھڑی روگردانی اس ادارے کے ماتھے کا جھومر اور انفرادیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدرسہ ہذا کے بچوں کا اعتماد زبردست بحال ہے اور وہ وژن لیے ہوئے ہیں اور ان کا مستقبل جدیدیت کی رو سے بھی منور نظر آرہا ہے۔ مزید کہنا تھا کہ یہاں کے بچوں کو لے کے اساتذہ کا ماننا ہے کہ یہ بچے قرآن کے طالب علم ہیں اور قرآن کسی بھی تعلیم کے حصول پہ قدغن لگانے سے مکمل گریزاں ہے اور وہ قرآن سے یہ کہتے ہوئے مثالیں اٹھا لائے:
افلا یتدبرون؟
افلا یتفکرون؟
افحسبتم انما خلقنکم عبثا؟
ان فی اختلافات اللیل و النھار لایت لاولی الالباب!

ایک طالب علم نے آزادی کی فضیلت بتاتے ہوئے کہا کہ آزادی اپنے افکار و نظریات کی آزادانہ اشاعت جبکہ غلامی اپنے ہی نظریات کا جنازہ اور ان سے روگردانی اور ایک مجرمانہ خاموشی اور جبر کی ایک شرمناک شکل ہے لہذا شکران نعمت میں کمی لانا بہت ہی شرمندگی کی بات ہے۔

ایک مقرر طالب علم کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مقصد 1973 کا آئین ہے جس کی رو سے حاکمیت اللّہ کی ہے یا اقتدار کا اصل مالک صرف خدا تعالیٰ ہے یعنی اصولاً پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزاری جا سکے! اس طالب علم کی سوچ جو اس نے جناح و اقبال و دیگر اکابرین پاکستان سے مستعار لے رکھی تھیں دراصل چودہ سو سالہ پرانی آیات ہی کا ترجمہ تھیں مثلاً:

ومن لم یحکم بما انزل اللہ
فاولئک ھم الظالمون

ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفاسقون

ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون

مہتمم و میزبان پروگرام نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قرآن سیکھنے اور سکھانے والا مستند روایت و حدیث صحیحہ کی رو سے سب سے افضل ہے اور اس مدرسے کا فارغ التحصیل ان شاءاللہ حافظ قرآن، گرامر کا استاد، عربی زبان کے اصولوں و قوانین کا ماہر، اور معاشرے کے لیے ایک مربی و محسن کا درجہ لیے ہوئے ہوگا جس کے لیے 70٪ قرآن کا ترجمہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا۔

دیگر مقررین سیاسی و سماجی رہنما عطا الرحمن عباسی صاحب، غلام احمد عباسی صاحب، جمال انیس عباسی صاحب کے چیدہ چیدہ خیالات اور مرکزی نکات کہتے ہیں کہ:

• آج دن میں پرچم کشائی ہوئی تو رو رہا تھا یا دوسرے الفاظ میں آنسوئوں ٹپک رہے تھے کیونکہ ملک بدترین خائنوں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہے نتیجتاً شدید مایوسی ہوئی لیکن آج مدرسہ ہذا میں بچوں کے جذبات دیکھ کر دوبارہ امید زندہ ہو چکی ہے!

• جس جذبے سے ان بچوں نے حقیقی و مطلوب پاکستان کا آج اس تقریب میں نقشہ کھینچا ہے اس پاکستان کے قیام اور تکمیل کی اینٹیں ان شاءاللہ یہی بچے ہیں!

• جب تک یہ ٹھنڈے و میٹھے بچے اور ان کے گرم اور جوشیلے جذبات ہماری دھرتی پہ موجود ہیں ہم جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی مکمل یقین دہانی کرواتے ہیں!

•یہ پاکستان کے چند اداروں میں سے ایک ہے جہاں عربی کی گردانوں کے ساتھ ساتھ بھائی بھائی کی خاص گردان بھی پڑھائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں فرقہ واریت کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے!

•بچوں و سامعین کی تالیاں بتائیں گی کہ پروگرام کتنا زبردست تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے مدرسہ تالیوں سے گونجنے لگا! جب کہا گیا کہ جنھیں پسند نہیں آیا وہ استغفار پڑھیں تو آوازیں مدھم ہونے لگیں لیکن پسند کرنے والے حضرات اللّہ اکبر کہیں کا کہا گیا تو تکبیر کی بلندی دیکھنے والے تھی!

• ہم پہلے ہی دو لخت ہو چکے ہیں لہذا کشمیر کی جدائی ملک کی تباہی تصور کی جائے گی کیونکہ کشمیر کے بغیر تکمیل کی باتیں صرف بے بنیاد ہیں!

• ہم اپنا تن من دھن اس لیے دیتے ہیں تاکہ خدا کا نام اونچا ہو کیونکہ قرآن کا ماننا ہے کہ کلمة اللہ ھی العلیا!

Advertisements
julia rana solicitors london

• آخر میں صدر مدرسہ بورڈ نے کہا کہ ان شاء اللہ اس مقصد کے حصول کے لیے ہم نسل تیار کریں گے۔ سب بولیں ان شاءاللہ! پورا مدرسے میں ان شاءاللہ سننے میں آیا۔ آخر میں مختصر اور جامع دعا سے پروگرام کا اختتام ہوا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply