جلیں گے گھر سب کے۔۔نعیم احمد باجوہ

پہلے راحت اندوری کا حقیقت افروز شعر ملاحظہ فرمالیں پھر ایک مکالمہ آپ کی نذر کرتے ہیں۔

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

آگ لگانے والے بہرحال اسی خوش فہمی میں ہیں کہ ان کے گھر محفوظ ہیں ۔اور ہر بار’’ گو رپیا کوئی ہور ‘‘کا معاملہ جاری رہے گا۔ یہ آگ ان تک پہنچے گی نہ اس کی لپٹیں۔اس سے بڑی حماقت کوئی اور کیا ہوگی۔ایک فصل بڑے اہتمام سے بوئی گئی ہے۔ حسبِ  منشا ایک دو بار اس کے ’’اثمار ‘‘ سے مستفید بھی ہوچکے ہیں۔نفرتوں کے ببول اُگائے ہیں تو پھل پھول بھی زہر آلود ہی ملیں گے۔ المیہ اس ملک کا یہی ہے کہ طاقت کے نشے میں چُورہو کر ،کسی ایک طبقہ کو نشانے پر رکھ کر اقدامات کر لئے جاتے ہیں۔لیکن ایسا کرنے والے ہر بار یہ بات مگر بھول جاتے ہیں کہ ’’لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں۔‘‘

باقی مثالیں ایک طرف ۱۹۷۴ میں طاقت کے نشے میں چُو رایک فیصلہ آپ نے کر لیا لیکن کبھی مڑ کر یہ دیکھنے کی توفیق بھی ملی کہ اس کے بعد نفرتوں کی فصیل مٹناتو درکنار ، پست قامت بھی نہ ہوئی، بلکہ آنے والے ہر دن میں اونچی سے اونچی ہوتی جاتی ہے۔ایک طبقہ کو بزور طاقت اقلیت قرار دے کر اور اپنے آپ سے الگ شمار کر نے کے بعد بھی اکثریت کے مذہب اور عقیدے کو تحفظ کیوں نہیں مل سکا۔ یہاں بحث کسی عقیدے کے سچا یا جھوٹا ہونے کی نہیں کی جارہی۔ بات طاقت کے گھمنڈ میں معاشرے کے ایک حصے کو پیستے جانے اور اس خوش فہمی میں رہنے کی ہے کہ ہمیں ا س کے نتائج بھگتنا نہیں پڑیں گے۔

تاریخ کے طالب علم کو یہ بھی بتا دیجئے کہ آج تک طاقت کے زور پر ، لاشیں گرانے کے دم پر ، نفرتوں کو ہوا دے کر،قتل و غارت گری کے سہارے لے کر، صلیبوں پر ٹانک کر ،غاروں میں بند کر کے،زندہ جلا کر ،جسموں کو نوچ کر ، جیتے جاگتے انسانوں کو دو لخت کرکے کسی عقیدے کو مٹایا جا سکا ہو ۔؟ پھر یہ زعم کیسا کہ انہیں ہتھیاروں سے احمدیوں کو ختم کر دیا جائے گا۔

مذموم مقاصد کے لئے پید اکی گئی تحریک لبیک کے ’’مجاہدین‘‘ کو پالا گیا ہے۔ ان کو انسانوں کے روپ میں درندگی کی بد ترین مثالیں قائم کرنے کی تربیت دی گئی۔معصوموں کا خون ارزاں ہےاور درندوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔نہیں یقین تو تازہ مثال دیکھ لیجئے۔۱۲ ،اگست۲۰۲۲ جمعہ کا روز ہے ۔ چناب نگر کے بس اسٹاپ پر ایک شخص اترتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس شہر میں اٹھانوے فیصد آبادی احمدیہ جماعت کی ہے۔ اس لئےاسے اپنا شکارتلاش کرنے کے لئے کسی تردد کی ضرورت نہیں ہوگی۔وہ ایک بوڑھے شخص کو ٹارگٹ کرتاہے۔ ہمت اور جوانمردی بس اتنی سی ہے کہ کسی نوجوان کو منتخب کرنے کے بجائے ایک باسٹھ سالہ بوڑھے کو نشانہ بناتا ہے۔مکالمہ کچھ یوں ہے۔

’’چاچا تم قادیانی ہو‘‘

’’نہیں میں تو احمدی ہوں ۔ میرا تعلق جماعت احمدیہ ہے۔ ‘‘

’’تم قادیانیت چھوڑ دو ۔‘‘

بھئی کون ہو تم ۔ جان نہ پہچان۔ کہاں سے آئے ہو۔ کیا چاہتے ہو۔

بولو خادم رضوی زندہ باد۔بولولبیک یا رسول اللہ ۔

پر کیوں ؟

اچھا نہیں بولتے تو لو پھر ۔۔۔۔۔

ا س کے ساتھ ہی چھبیس سالہ مذہبی جنونی ایک باسٹھ سالہ بزرگ کے سینے میں خنجر گھونپ دیتا ہے او رپے در پے وار کرتا چلا جاتا ہے۔ قاتل پر قابو پائے جانے تک وہ اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔ وقوعہ سے چند میٹرز کے فاصلے پر ہسپتال کی ایمرجنسی ہے لیکن باسٹھ سالہ بزرگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں ۔ اپنے ہی شہر میں ،اپنی ہی گلی میں۔ جرم کچھ اور نہیں صرف جرمِ وفا ہے۔

احمدی کہتے ہیں ہم خوف زدہ ہیں کہ اپنے ہی شہر میں محفوظ نہیں رہے۔ ایک ایسے شہر میں بھی محفوظ نہیں جہاں اٹھانوے فیصد آبادی احمدیوں کی ہے ۔ ایک ایسے شہر میں جس کو آباد احمدیوں نے کیا۔ احمدی بات کرتے ہیں کہ ان کو اس ملک میں جس کے لئے ان کی بے مثال قربانیاں ہیں ،رہنے کی اجازت کیوں نہیں ؟۔ ان کا قصور کیا ہے،کیا جرم سرزد ہوا ہے۔؟شاید وہ بزرگ بھی آخری لمحات میں یہی پوچھ رہے ہوں میرا جرم کیا ہے؟کیا احمدی ہونا جرم ہے۔ نہیں احمدیوں کا پُرامن رہنا جرم بنا دیا گیا ہے۔ احمدیوں کا خاموشی سے لاشیں اٹھاتے جانا اور اپنے قبرستان بھرتے جانا جرم ہے۔ یہی جرم ہے کہ اس لاش کو سٹرک پر رکھ کر دھرنا کیوں نہ دیا۔کیوں سرگودھا روڈ بند کر کے ہزاروں لوگوں کی زندگی اجیرن نہ کی۔ کیوں توڑ پھوڑ کر کے ملکی املاک کو نقصان نہ پہنچایا۔اس معاشرے میں ایسا نہ کرنا سنگین جرم بنا دیا گیا ہے۔ پُرامن رہنا جرم شمار ہوتا ہے۔طاقت کے زور پر گذشتہ نومبر میں جی ٹی روڈ بند کر کے ، اربوں کی اکانومی تباہ کر کے اپنےمطالبے منانے والوں کی بات سنی گئی۔ ان کو مراعات بھی دی گئیں ۔ جیلوں کے دروازے بھی کھول دیے گئے۔

۱۲   اگست کو ہونے والے واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ قاتل، خادم رضوی کی رٹی رٹائی لائنیں دہرا رہا ہے ۔ٹویٹر پر ایک نابغہ نے اس پر یوں تبصرہ کیا ’’ ایک فیک ویڈیو کی بنا پر تحریک لبیک کو ملزم ٹھہرایا جا رہا ہے۔‘‘

پوچھو اس بیوہ سے کہ خاوند کے سہارےکے بغیر بچیوں کی پرورش کرنے کے پہاڑ کو سر کرنا کتنا دردناک ہے۔پوچھو ان تین معصوم بچیوں سے کہ باپ کے قتل کے کیا معنی ہوتے ہیں ۔ اورڈرو اس وقت سے جب تمھارے ہی جیسا کوئی اور جنونی تمھارے کسی پیارے کی گردن پر ایسا خنجر رکھ دے۔پھر بھی یہی کہنا کہ ویڈیو فیک ہے۔

سن رکھو !نفرتو ں کی فصلیں ،محبت کے پھول پیدا نہیں کر سکتیں۔عقیدوں کی بنیاد پر معاشرے کو تقسیم کرتی سرحدیں اتنی آسانی سے مٹائی نہیں جا سکتیں جب تک وہ سینکڑوں ہزاروں کے خون کا خراج وصول نہ کرلیں۔آج احمدی کے قتل پر خوش ہونے والوں کی اپنی باری کتنی دور ہے؟

آج ریاست خاموش ا س لئے ہے کہ پروردہ ہیں۔مذمت اس لئے نہیں کر سکتے کہ اسی درندے کا رخ مذمت کرنے والے کی طرف ہو جائے گا۔ کسی اقلیت سے تعلق رکھنے والے کے قتل پر اسے شہید نہیں کہہ  سکتے۔ اس کے خاندان سے تعزیت نہیں کر سکتے۔خاص طو رپر احمدی شجرہ ممنوعہ قرار دیے گئے ہیں۔ان کے حق میں ہمدردی کے دو بول بولنے سے اپنے عقیدے کی صفائیاں میلاد کر وا کر ، عمرے پر جا کر ، مقامات مقدسہ سے اہرام میں تصویریں شیئر کر کے کرنا پڑے گی۔عقیدوں کا گروی رکھنا اور کیا ہوتا ہے؟پھر بھی اکثریت کو زعم ہے کہ وہ آزاد ہے ۔

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے !

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء لکھاری کی  ذاتی ہیں، ادارے کا ان سے اتفاق ضروری نہیں 

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply