یومِ آزادی اور اشرافیہ۔۔زین سہیل وارثی

مورخہ 14 اگست 2022ء کو الحمداللہ مملکت خداداد پاکستان اپنی آزادی کی پلاٹینم جوبلی منا رہا ہے۔ پاکستان کو بنے 75 سال گزر گئے اس دوران مملکت اور ریاست کے معاملات وہی ہیں جو 1947ء میں تھے۔جمہوریت کی وہی گھسی پٹی فلم چل رہی ہے جس میں ایک جماعت ریاست کی لاڈلی بن جاتی ہے اور دوسری کے ساتھ سوتیلے پن والا سلوک شروع ہو جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کی صورتحال دیکھ لیں۔ جمہوریت اور جمہوری اقدار کا پروان چڑھنا نا ممکن ہے۔ سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین آمریت کی ہی خوبصورت اشکال ہیں۔

معیشت ابھی تک اپنے قدموں پر کھڑی ہونے سے قاصر ہے، اور صورتحال مزید مخدوش ہونے کا امکان ہے، کیونکہ معیشت کی نبض دیکھنے والے بنیادی مسائل حل کرنے سے عاری ہیں۔ جن میں آبادی کے بے ہنگم اضافہ پر قابو پانا، برآمدات میں اضافہ، درآمدات میں کمی اور ٹیکس کولیکشن میں اضافہ ہے۔ کسی زمانے میں سیٹو، سینٹو سے معیشت کو چلایا جاتا تھا، کبھی جہاد افغانستان، اور کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ کوئی بنیادی معاشی اصلاحات کا نہ امکان ہے اور نہ  ہی ممکن ہیں۔

مذہب اتنے مسالک میں بٹ چکا ہے کہ اب باقاعدہ آپ سے مسلک کی بنیاد پر نا صرف سوال کیے جاتے ہیں بلکہ اسکی بنیاد پر توہین کے فتوے بھی جاری کئے جاتے ہیں۔ جب ایک مسلک کا جن بوتل سے باہر نکل آتا ہے تو بذریعہ آپریشن اس جن کو بوتل میں ڈالنے کی بجائے اس جن سے ریاست مذاکرات شروع کر دیتی ہے۔ کبھی پیسے دے کر ان کو راضی کیا جاتا ہے یا کبھی انکی شرائط کو مان کر انھیں اپنا نظام نافذ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔

تعلیم، صحت، اور بنیادی سہولیات میں ہم نے اتنی ترقی کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں کوئی بھی عالمی سطح پر قابل ذکر نہیں، نیز نجانے کتنے بچے سکول جانے سے قاصر ہیں۔ صحت عامہ کا حال یہ ہے کہ لوگ سرکاری ہسپتال جانا پسند نہیں کرتے ہر بندہ جو صاحب استطاعت ہے وہ نجی ہسپتال کو ترجیح دیتا ہے۔ پولیو جیسا مرض جس سے تقریبا ً اکثر ممالک جان چھڑوا چکے ہیں ابھی تک ہمارے پانی میں اس کے جرثومے  موجود ہیں اور بیرون ملک سفر کرنے کے لئے ہمیں اس کا ویکسینیشن سرٹیفکیٹ دکھانا پڑتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہم دنیا کی آبادی کے لحاظ سے تیسری بڑی مملکت اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہیں۔

ترقی کا اندوہناک سفر ملاحظہ فرمائیں ،ہم زرعی ملک ہیں اور زرعی اجناس درآمد کرتے ہیں۔ وہ ملک جو ایٹم بم بنا سکتا ہے لیکن اپنے مقامی وسائل سے مقامی موٹرسائیکل، گاڑی اور دیگر اشیاء بنانے سے قاصر ہیں اور جو اشیاء ہم بناتے بھی ہیں وہ عالمی معیار پر بھی پوری نہیں اترتی ہیں۔ وہ ٹیکسٹائل جس پر ہم بے انتہا فخر کرتے ہیں اس کے لئے کپاس ہم درآمد کرتے ہیں۔ پانچ دریاؤں کی زمین ہے اور پچھلے 45 سال سے کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا۔

نوحہ و مرثیہ ہیں جنھیں ہر یوم آزادی پر ہم پڑھ لیتے ہیں اور دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں۔ پڑھنے والے ہمیں ملحد، غدار اور وطن فروش سمجھ لیتے ہیں، 75 سال میں سن بدلے ہیں غریب و عام آدمی اسی طرح ننگے پاؤں، بے آسرا و بے  سروساماں ہیں، جس طرح برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے وقت مملکت خداداد پاکستان کے راستہ پر گامزن تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے اغیار غاصب تھے اب ہم وطن اشرافیہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لوگوں کی خام خیالی ہی ہے یہ ملک عوام الناس کے لئے بنا تھا یہ ملک اشرافیہ نے اشرافیہ کے لئے بنایا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply