احساس کمتری ایک لاعلاج مرض

دورِ جدید تحقیق و جستجو کا دور ہے ہم جانتے ہیں کہ آج زندگی کے مختلف شعبوں اور علوم کی مختلف شاخوں میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے ۔ آج کا انسان ستاروں پر کمندیں پھینک رہا ہے ۔ اس نے زندگی کے ہر شعبے میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ اگر گذشتہ دور کا انسان اس دنیا کو دیکھے تو یقیناًورطہ حیرت میں گم ہوکر رہ جائے لیکن ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی مسائل بھی دن بدن پیچیدہ سے پیچیدہ ہو تے جا رہے ہیں ۔ جن کو عام لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ لہٰذا ہمیں زندگی کے ہر شعبے اور علوم میں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو قوم کی رہنمائی کر سکیں، ایسے افراد ہمیشہ اعلیٰ تعلیم سے پیدا ہوتے ہیں ۔
ہمارے ہاں افسوسناک امر یہ ہے کہ جس مسلم امہ کو پوری دنیا کی کمانڈ کرنا تھی اور سب کو لیڈ کرنا تھا آج وہی قوم در بدر بھکاری نظر آ رہی ہے۔ جہاں تک میرا ذاتی تجربہ ہے اور جو میں نے محسوس کیا وہ ہمارے جوانوں کا احساس کمتری کا شکار ہونا ہے۔ اکثر نوجوان یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے ۔ گو یا کہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہماری نوجوان نسل لکیر کی فقیر یا کنویں کے مینڈک کی مثل ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بارہا قرآن پاک میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے ہر شے کو انسان کے لیے مسخر کر دیا ۔
دراصل بنیادی طور پر ہماری کامیابی کی سب سے بڑی رکاوٹ احساسِ کمتری ہے اور پھر اس کا احساس بھی نہیں ہے ۔بس جس سے بات کرو وہ یہی کہتا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی حال نہیں ۔ یہ ہو گیا وہ ہو گیا ۔ کوئی ترقی کی طرف یا اس نقصان کے ازالہ کے لیے محنت اور کوشش کرنا گوارہ ہی نہیں کرتا گویا کہ ہمارا معاشرہ اقبال کے اس شعر کی مکمل عکاسی کر رہا ہے،
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ہمارے نواجون اگر ہمت کریں اور اپنی خداد صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں تو وہ عالم اسلام اور ملک پاکستان کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اس میں شرط یہی ہے کہ ہر بندہ اپنی ذمہ داری کو قبول کرے اور ملک و قوم کے لیے اپنی خدمات پیش کرے اس طرح کا درس حدیث پاک سے بھی ملتا ہے سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔‘‘
اور میرے راہنما علامہ اقبال نے اسی کی طرف ہی تو اشارہ کیا ہے کہ
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
بدقسمتی سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے وہی پرانی جہالیت والی روش آج تک نہیں بدلی کہیں علاقائی تعصب ہے تو کہیں نسلی تفاخر ۔ ہم نے اپنے آپ کو ایک خاص علاقے کے لیے مخصوص کر کے گویا کہ مقید کر دیا ۔
کوئی کشمیری ہے تو اس کو پاکستان سے اور پنجابی کو سندھی اور بلوچی کو پٹھان سے نفرت ہے ہم نے اپنی قومیت کو بھلا دیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم دو قومی نظریہ کو بھی بھول چکے ہیں جو کہ ہمارے پاکستان کی بنیاد ہے میرے اقبال نے کیا خوب فرمایا کہ
فرقہ بندی ہے اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں کرنے کی یہی باتیں ہیں
میدان خالی ہے امت مسلمہ کے وقار کی بحالی کے لیے خدارا،ا ٹھیے اور اپنے بچوں کو دین و دنیاوی ہر دو علوم سے آراستہ و پیراستہ کر کے ملک و قوم اور آنے والی نسلوں کے لیے رہنما مہیا کرنے میں اپنا کردار ادا کیجیے ۔

Facebook Comments

محمد مجیب صفدر
اپنی ہی ذات میں مگن اپنی ہی تلاش میں رہتا ہوں جب خود سے ملاقات ہو گی تو تعارف بھی ہو جائے گا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply