وزیرِ دفاع کا تاریخ سے کھلواڑ

چند دن قبل اسمبلی فلور پر ایک بار پھر وزیرِ دفاعِ کرپشن جناب خواجہ آصف نے طعنوں سے بھرپور خطاب کیا۔ اِس بار تحریکِ انصاف کے ساتھ ساتھ اُن کا نزلہ جماعتِ اسلامی پر بھی گرا۔ جناب کو وزیرِ دفاعِ کرپشن میں نے اِس لیے کہا کہ موصوف کا دھیان ملکی دفاع سے تو ہمیشہ ہی غافل رہا ہے اور آجکل وہ صرف حکمران خاندان کی کرپشن کا دفاع کرنے میں اپنا پورا پورا حصہ ڈال رہے ہیں، کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے درباری وزراء اُن پر سبقت لے جائیں اور بادشاہ سلامت سے زیادہ قریب ہو جائیں اور خواجہ صاحب ہاتھ ملتے رہ جائیں۔”کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے”فیم وزیر نے فرمایا کہ جماعتِ اسلامی نے تخلیقِ پاکستان کی مخالفت کی اور آج تک تاریخ کی رانگ سائیڈ پہ کھڑی ہے۔ خواجہ صاحب کو شاید تاریخ یاد دلانے کی ضرورت ہے حالانکہ جناب کو شاید تاریخ سے نہ کوئی واسطہ ہے اور نہ دلچسپی۔ مجھے آج کے بارے میں تو بات نہیں کرنی کیونکہ جماعت کی طرزِ سیاست سے کہیں نہ کہیں مجھے بھی اختلاف ہے لیکن تاریخ سے کھلواڑ کی جو کوشش وزیر موصوف نے کی ہے اُس پر میں ضرور کچھ گزارشات اور سوالات جناب خواجہ آصف کی خدمت میں رکھنا چاہوں گا۔
نمبر ایک یہ کہ اگر جماعتِ اسلامی پاکستان کے قیام کی مخالف تھی تو سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جمعیت علماء ہند کے ماہنامے الجمیعہ کی ادارت سے استعفیٰ کیوں دیا! یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جمعیت علماء ہند ایک قومی نظریے کی علمبردار تھی اور قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کے برعکس قومیت کی بنیاد عقیدے کی بجائے وطنیت کو سمجھتی تھی۔
نمبر دو یہ کہ قیامِ پاکستان کی مخالفت کے باوجود سید مودودی”مسئلہ قومیت” اور “مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش”کے عنوان سے دوقومی نظریے کی تشریح اور وکالت کیوں کر رہے تھے اور مسلم لیگ اپنے خرچ پر اُن کا لٹریچر چھپوا چھپوا کر عوام میں مفت کیوں تقسیم کر رہی تھی؟
نمبر تین یہ کہ اگر جماعتِ اسلامی پاکستان کا قیام نہیں چاہتی تھی تو سید مودودی زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کہ جس پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت کا تصور نہ ہو، ایسے ٹکڑے کو پورے ہندوستان پر ترجیح دینے کی بات کیوں کر رہے تھے؟
نمبر چار یہ کہ قیامِ پاکستان کی مخالفت کرنے والی جماعتِ اسلامی کے بانی سربراہ سید مودودی کو قیامِ پاکستان سے قبل مسلم لیگ نے دستور ساز کمیٹی کا رکن کیوں مقرر کیا تھا؟
نمبر پانچ یہ کہ اگر جماعتِ اسلامی کو پاکستان کا قیام منظور نہیں تھا تو سید مودودی نے کس بات کے پیشِ نظر اپنا نمائندہ قائدِاعظم کے پاس بھیجا تھا کہ وہ قائدِاعظم کے پاس جا کر اُن کو جماعت کے کام کی نوعیت سے آگاہ کرے؟
نمبر چھ یہ کہ تقسیمِ ہند کے مخالف سید مودودی کو تصورِ پاکستان کے خالق علامہ اقبال کیوں نہ پہچان سکے اور ان کی تحریریں شوق سے پڑھوا کے کیوں سنتے رہے اور انہیں حیدر آباد سے پنجاب کیوں بلا لیا حالانکہ اس سے پہلے علامہ اقبال جمعیت علماءہند کی قیادت اور مولانا حسین احمد مدنی کو آڑے ہاتھوں لے چکے تھے۔
نمبر سات یہ کہ کیا وجہ تھی کہ جماعتِ اسلامی تو قیامِ پاکستان کی مخالف تھی لیکن سید مودودی نے سرحد میں ریفرنڈم کے وقت مؤقف اپنایا کہ اگر میرا ووٹ سرحد میں ہوتا تو پاکستان کے حق میں پڑتا، یہ تضاد کیوں تھا اگر وزیر موصوف سمجھا سکیں!
نمبر آٹھ یہ کہ قیامِ پاکستان کی مخالف جماعت کے بانی سربراہ کو پاکستان بننے کے بعد ریڈیو پاکستان سے اسلامی ریاست کے خدوخال کے موضوع پر تقاریر کرنے کی دعوت کیوں دی گئی جبکہ اُس وقت تو خود بانئ پاکستان قائدِاعظم ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے موجود تھے!
اور پوچھنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن آخری بات یہ کہ اگر جماعتِ اسلامی پاکستان کے قیام کی مخالف تھی تو جب 1971 میں پاکستان دو ٹکڑے ہو رہا تھا تو جماعت متحدہ پاکستان کے نعرے کیوں بلند کر رہی تھی، جماعت کو تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ جس ملک کے قیام کی وہ مخالف تھی وہ ملک دو ٹکڑے ہو رہا تھا لیکن جماعت کے لوگ کیوں متحدہ پاکستان کو بچانے کیلیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے تھے اور آج بھی کیوں جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کی قیادت راضی برضا پھانسیوں کے پھندوں کو چوم رہی ہے؟
خواجہ صاحب کو کوئی بتائے کہ
مٹی کی محبت میں “اِن”آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہ تھے
خواجہ صاحب کو کوئی یہ بھی بتائے کہ تخلیقِ پاکستان کے اصل مخالفین ان کی کابینہ میں بھی شریک ہیں۔ کشمیر کمیٹی بھی آپ نے انہی کے سپرد کر رکھی ہے جس کا پروٹوکول تو وہ پورا لے رہے ہیں لیکن کشمیر کا نام بھی ان کی زبانوں پر نہیں آتا۔ آج بھی جب وہ ہندوستان جائیں تو اکھنڈ بھارت کی بات کرتے ہیں لیکن تخلیقِ پاکستان کے وہ اصل مخالفین آپ کو کیوں دکھائی دیں گے اور وہ بھی اس آڑے وقت میں جب وہ بھی آپکی قیادت کی کرپشن کے دفاع میں آپ ہی کی طرح مصروف ہیں۔
تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو گِلہ تھا کہ جماعتِ اسلامی تو سپریم کورٹ میں شریف خاندان کو بچانے گئی ہے اور اگر وہ حقیقت میں اپوزیشن کر رہی ہوتی تو لیگی وزراء کی توپوں کا رخ اکیلی تحریکِ انصاف کی طرف نہ ہوتا بلکہ جماعت پر بھی وہ اسی طرح گرجتے برستے، لیکن یہ کیا ہوا کہ جب وزیرِ دموصوف نے جماعتِ اسلامی پر گلی محلے کی عورتوں کی طرح طعنوں کی بوچھاڑ کی تو تحریکِ انصاف کی صفوں میں موجود بڑی تعداد خواجہ آصف کی ہاں میں ہاں ملاتی نظر آئی۔ میرا خیال یہ ہے کہ خواجہ آصف کی تقریر جماعت کیلیے blessing in disguise ثابت ہو سکتی ہے اگر جماعت سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعاون کے حوالے سے اپنی حکمتِ عملی ترتیب دیتے ہوئے خواجہ آصف کی تقریر اور اُس پر تحریکِ انصاف کے وابستگان کے ردِ عمل دونوں کو سامنے رکھے۔ ایک بات البتہ ثابت ہو گئی ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ جو بھی ہو، حکمران جماعت اور حکمران خاندان کے جھوٹ اور تضاد بیانیاں ظاہر ہو چکی ہیں۔ پانامہ کیس نے حکمرانوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ عدالتی معرکہ بھلے وہ جیت بھی جائیں، اُن کی اخلاقی ساکھ کو بے پناہ ڈینٹ پڑ چکے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہماری سیاست میں اخلاقیات کو نہ تو سیاستدان اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی ووٹرز۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply