شعراء کی بیماری ء نزول۔۔ذیشان محمود

شاعروں کا دعویٰ ہے کہ انہیں جب تک نزول کی خاص کیفیت نہ میسر آ جائے ،وہ شعر نہیں لکھ سکتے۔واقعی نزول تو خاص کیفیت کے بعد ہی ممکن ہے۔ لیکن شاید دعویٰ نزول میں وہ نثر نگاروں کو  بھول گئے ہیں۔ کیونکہ شاعروں کے بالمقابل نثر نگار بھی اسی خاص مخفی بیماری کا شکار ہیں۔ جن کالم نگاروں کے کئی کئی دن نہ کالم آتے ہیں نہ مضمون۔ اس مخفی بیماری کو خفیہ رکھتے ہوئے وہ سارا ملبہ ہاٹ ایشو پر ڈال دیتے ہیں کہ آج کل کوئی ہاٹ ایشو نہیں۔ بعض سے پوچھو تو کہتے کہ آ ج کل قلم چلتا ہی نہیں۔ کیونکہ کیفیتِ  نزول نہیں آتی۔ یہ سن کر منٹو (یعنی نواز الدین) کا سگریٹ سلگا کرمیز کرسی پر بیٹھنا اور کاغذ پھاڑ پھاڑ کر پھینکنا اور اپنے بال نوچنا یاد آگیا۔ وائے افسوس !اس بیماری کا علاج کراچی کے معروف عامل جنید بنگالی کے پاس بھی نہیں۔

شاعروں کا اس بیماری میں مبتلا ہونے کا یہ دعویٰ بالکل غلط نہیں تو سو فیصدی حقیقت پر بھی مبنی نہیں۔ زمانہ جاہلیت اس بات پر شاہد ہے کہ کئی شعراء ارتجالا طویل قصائد کہہ ڈالتے تھےجواب بھی زبان و ادب کا شہرہ آفاق کلام گردانا جاتا ہے۔ حارث بن حلزہ یشکری کا ارتجالی کلام اتنا پائے کا تھا کہ سبعہ معلقات میں جگہ پا گیا اور سونے کے پانی سے لکھ کر کعبہ کے پردوں پر لٹکایا گیا۔ پھر ابو تمام کے فی البدیہہ اشعار بھی ادب کا حصّہ ہیں، جو خلیفہ المعتصم باللہ کے عہدِ خلافت میں عربی زبان کا سب سے بڑا قصیدہ گو شاعر تسلیم کیا گیا۔ ابوالعتاہیہ کا نام بھی قابلِ ذکر ہے۔

اردو میں بھی بدیہہ گوئی از قسم شاعری ہے۔ جسے تازہ تازہ نزول کہا جاتا ہے۔ جس میں امیر خسرو اور میر تقی میر جیسے شعراء کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ امیر خسرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک عورت سے پانی مانگا۔ اس نے کہا کہ پہلے کھیر، چرغہ، کتا اور ڈھول کے الفاظ استعمال کرکے شعر کہیں، امیر خسرو نے ارتجالاً کہا
کھیر پکائی جتن سے، چرغہ دیا جلا
آیا کتا کھا گیا، تو بیٹھی ڈھول بجا، لا پانی لا

نثر نگاروں پر یہ الزام ہے کہ انہیں کون سی محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہاں عنوان دو۔ وہاں مضمون تیار، یہاں کوئی سیاسی کھیل تماشا  ہوا تو کالم تیار۔ تو جناب یہ خصوصیت ہر دو شاعر اور قلمکار دونوں میں پائی جاتی ہے۔ کئی شاعر ہیں جنہیں آپ بس عنوان دیں اور دو منٹ میں بر وزن ، ذو معنی شعر تیار۔ ایسے ہی شعراء کے مزاحیہ شعر اور رباعیات ہر روزنامے میں کالم نگاروں کے اہم سیاسی کالمز کے درمیان سیاسی کارٹون کی طرح گھسیڑ دی جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انہیں کیسے روزانہ بلا ناغہ نزول ہوتا ہے۔؟

ہاں ایک مثال موسمی شاعروں کی ایسی بھی ہے جنہیں ہفتہ میں یا مہینہ میں ایک بار ایک نظم یا غزل نزول ہو جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عمر رفتہ سے نزول کے ساتھ کمزوریٔ یاداشت کا  بھی مسئلہ ہو جاتا ہو۔ موسمی شاعروں سے ہر گز موسمی قصائی مراد نہیں جو بقر عید پر اُمڈ آتے ہیں اور گوشت کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔ یہاں خاص موسم میں خاص موقع پر خاص کیفیت میں شاعری کرنے والے مراد ہیں۔

یہ امر بھی غور طلب ہے کہ پیشہ ور شاعروں کو نزول کی شکایت نہیں ،یہ بیماری صرف موسمی شاعروں میں پائی جاتی ہے۔ لیکن اسی ایک نظم یا غزل پر دنیا فدا ہو جاتی ہے۔ اور اتنی شہرت مل جاتی ہے جتنی روزنامے کے ملازم شاعر کو سارا سال نہیں مل پاتی۔ ایسے شعراء کی تمام عمر بھر کی کمائی تین سے چار نحیف اور لاغر مجموعے ہوتے ہیں جو شہرت اور کمال کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں۔ ورنہ سوشل میڈیا کے زمانہ میں ہر اینٹ کے نیچے اور ہر موبائل کے پیچھے شاعر پایا جاتا ہے۔ جنہیں ادب کے بجائے بے ادب لوگ پسند کرتے ہیں۔

اس بیماری میں چند مقررین بھی مبتلا ہیں۔ لیکن چینلز کی کثرت نے ہر کس و ناقص کو مقرر یعنی زبان دارز بنا دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بلاوجہ طول دینے سے بہتر ہے کہ بدیہہ گوئی اور ارتجالا شاعری کی مثالیں آپ گوگل کر لیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ میں قطعاً اس کیفیت نزول کا مخالف نہیں۔ کیونکہ شاعری اور نثر نگاری کی تاثیر ہی اصل فرق ہے جو نزول سے پیدا ہوتی ہے ،بناوٹ سے نہیں۔

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply