• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بلوچستان میں سیلاب متاثرین کی تباہی/آنکھوں دیکھا احوال۔۔مسکین جی

بلوچستان میں سیلاب متاثرین کی تباہی/آنکھوں دیکھا احوال۔۔مسکین جی

برسوں قبل کراچی تشریف لائی ایک فارنر ٹورسٹ خاتون نے کہا تھا: Karachi never sleep.
یہ شہر کبھی سوتا نہیں ہے۔
ان خاتون کے جملے کا محور کراچی شہر کی رونقیں تھیں۔ جو کہ اب عرصہ ہوا ماند پڑتی جا رہی ہیں ، لیکن اس شہر کے شہری آج بھی آپ کو جاگتے نظر آئیں گے۔جب کبھی پاکستان کے کسی خطے پر کوئی مشکل در آئی تو یہ شہر سب سے پہلے اپنے سپوتوں کے ہمراہ وہاں پہنچا۔

جولائی 2022 کی سیلابی بارشوں نے بلوچستان کے کئی اضلاع کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھرپور کوششیں کیں لیکن شہرِ کراچی اپنے پڑوس کو ڈوبتے کیسے دیکھ سکتا تھا؟

مجھے یاد ہے جب سیلاب سے متاثرہ ایک بزرگ جس نے اپنا گھر اور ساز و سامان سب کچھ کھو دیا تھا ،کو راشن کا تھیلا تھماتے ہوئے میں نے پوچھا: چچا جان! اور کسی چیز کی ضرورت ہے؟
چاچا جس کا نام علاء الدین تھا نے گویا اپنا حق جتاتے ہوئے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا: کراچی والے پوچھتے نہیں وہ بس پہنچا دیتے ہیں ۔ انہیں پتا ہوتا ہے کہ ان کے بھائیوں کو کس چیز کی ضرورت ہے۔

کچھ بے آسرا لوگ تھے جو اپنی خراب شدہ آبادیوں کی چٹیل زمینوں پر ڈیرہ جمائے بیٹھے تھے۔ ہم راشن لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے راشن لینے سے منع کردیا اور کہا کہ ہم محنت مزدوری کرکے پیٹ کی آگ بجھانے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ سر چھپانے کو چھت درکار ہے۔

ہمارے ادارے  کی جانب سے جب ہمارا دوسرا امدادی قافلہ کراچی سے روانہ ہوا تو اس میں راشن کے علاوہ خیمے بھی تھے۔ مجھے چاچا علاء الدین کی بات یاد آگئی کہ کراچی والے اپنے بھائیوں سے پوچھتے نہیں کہ انہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔۔ کراچی والے بس پہنچا دیتے ہیں، انہیں پتا ہوتا ہے کہ ان کے بھائیوں کو کس چیز کی ضرورت ہے۔

بلوچستان میں سیلاب سے ہوئی تباہی بہت بڑی ہے۔ اسے لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ موسمیاتی تباہی بہت سی آفتیں لے کر آتی ہے اور یہ آفتیں انسان سے بہت کچھ چھین لیتی ہیں لیکن جو سب سے قیمتی چیز یہ آفتیں انسان سے چھینتی ہیں وہ انسان کی عزتِ  نفس ہوتی ہے۔

ہمارے راشن کیمپ پر راشن تقسیم ہورہا تھا۔ ضرورت مندوں کا ہجوم امڈ آیا تھا۔ لوگ باری باری راشن وصول کر رہے تھے۔ تقسیم کا عمل کافی کٹھن تھا۔ لیکن یہ مصرعہ اپنی تمام تر معنویت کے ساتھ ذہن کے دریچوں پر ضربیں لگا رہا تھا
ع
کسی درد مند کے کام آ، کسی ڈوبتے کو اچھال دے۔

ہجوم سے پرے ایک شخص کھڑا صِرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی ہمت جواب دے گئی تھی لیکن عزت ِ نفس نے اسے راشن کی لائن میں لگنے سے روکے رکھا تھا۔ ایک رضا کار کی نظر پڑی تو وہ چپ چاپ اس کے پاس گیا اور راشن کا تھیلا رکھ کر بنا کچھ کہے لوٹ آیا۔
بلاشبہ دوسروں کی مدد کرنے والا کبھی شرمسار نہیں ہوتا۔

لاکھڑا ضلع لسبیلہ کا نواحی علاقہ ہے۔ وہاں سیلابی ریلے کا پانی انسانی قد سے بلند تھا۔ ایک گھر جس کی بنیاد پختہ اینٹوں کی تھی۔ مکینوں نے بتایا کہ جب سیلاب آیا تو ہم سب چھت پر جا بیٹھے ۔
ہمارے لیے یہ منظر کافی دردناک تھا جب ہماری زندگیوں کا کُل سرمایہ ہمارے مویشی پانی میں بہہ رہے تھے۔ اگر ہمیں اپنی جانوں کی فکر لاحق نہ ہوتی تو ہم ان بے زبان جانوروں کے لیے دھاڑے مار مار کر روتے۔

جہاں حکومتی ادارے اپنی نااہلی کے سبب سیلاب زدگان کی مدد سے قاصر رہے وہیں کراچی کے مختلف ادارے اپنی مدد آپ کے تحت اشیائے خوردونوش لے کر ضرورت مندوں کی مدد کو پہنچ گئے۔

لاکھڑا کے بے آسرا لوگوں کی مدد کو پہنچنے والا پہلا امدادی قافلہ  ہمارا   تھا۔

راستے تباہ ہو چکے تھے۔ سات دن اس خطے کے لوگوں کا رابطہ دوسری دنیا سے کٹ چکا تھا۔ لوگ امداد کے منتظر تھے۔ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مدد کی جاسکتی تھی اور کسی حد تک حکومتی اداروں نے مدد کی بھی ۔ لیکن ایک حادثے کی وجہ سے یہ سلسلہ بھی جلد منقطع ہوگیا۔

سات دن زندگی اور موت کی جنگ میں زندگی جیتنے والے ایک شخص سے ہم نے پوچھا: کیسے گزارے یہ سات دن؟
امید کے سہارے! اس شخص کے لہجے کی سرد مہری ہمیں مار ڈالتی، اگر ہم اس سے مزید کچھ پوچھتے۔

حکومتی اداروں سے کئی گلِے شکوے تھے اسے۔ اس کی آنکھوں میں درد و الم کے کئی افسانے تھے۔

لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ کراچی کے مختلف اداروں نے وہاں امدادی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔بھوک و افلاس سے لڑتے لوگوں میں زندگی کی امید جاگ چکی ہے۔بچوں کے چہروں پر خوف کے آثار تاحال نمایاں ہیں۔
تین چار روز کی امدادی سرگرمیوں میں لاکھڑا کے بچوں کو فقط ایک بار ہنستے دیکھا جب مفتی جمال عتیق نے مختلف کھلونے ان بچوں میں بانٹے۔
ان کو ہنستا کھیلتا دیکھ کر ایک بار ایسا لگا کہ زندگی کا مقصد اب پورا ہوچکا ۔

مفتی طلحہ عتیق کی طرف سے ان بچوں میں نقدی روپیہ بھی تقسیم کیا گیا۔
ہمارے ادارے کے علاوہ  دیگر کئی ادارے بلوچستان کے سیلاب زدگان کی مدد  کیلئے  کوشاں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مزے کی بات یہ ہے کہ امداد کی ترسیل کرنے والے بیشتر اداروں کا تعلق کسی نہ کسی مدرسے یا اسلامی جماعت سے ہے۔ انسانیت انسانیت کا راگ الاپنے والے لادین اور لامذہب لوگ وہاں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔
بلاشبہ اسلام دنیا کا بڑا مذہب ہے جو سب سے پہلے انسانیت کا درس دیتا ہے۔

Facebook Comments

عابد علی(مسکین جی)
قلمی نام:مسکین جی فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی پیشہ؛سکرپٹ رائٹر ایٹ فوکس نیوز لیکچرار ایٹ جامعہ الرشید کراچی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply