میڈلز جیتنے والوں کے سفر کی انہونی روداد۔۔سیّد مصعب غزنوی

پاکستان کے لیے کامن ویلتھ گیمز میں میڈلز جیتنے والے یقیناَ ملک و ملت کے لیے فخر کا باعث ہیں، مگر آپ میں سے کتنے لوگ ان اتھلیٹس کے میڈلز جیتنے تک کے سفر کی کہانی جانتے ہیں؟

دیگر ممالک کے بین الاقوامی اتھلیٹس کے مقابلے پاکستان کے ارشد ندیم، انعام بٹ اور دستگیر بٹ کے گولڈ میڈلز سمیت دیگر سلور و برانز میڈلز جیتنے والوں کا سفر بالکل آسان نہیں ہوتا۔

جو بات میں کہہ رہا ہوں محض کتابی بات نہیں ہے بلکہ میں بہت وثوق سے یہ بات کہہ رہا ہوں، اس کا مجھے بہت اچھے سے تجربہ بھی ہے۔
میرا چھوٹا بھائی سید عمار غزنوی بھی ایک اتھلیٹ ہے، وہ باکسنگ میں فیصل آباد ڈویژن کی نمائندگی کرتا ہے۔ پنجاب باکسنگ چیمپئن شپ کا آغاز فیصل آباد میں ہوا تو عمار بھی اپنی ویٹ کیٹگری کی جانب سے شریک تھا، روزانہ اسے 60 کلومیٹر کا سفر طے کرکے چیمپئن شپ کے لیے پہنچنا ہوتا تھا اور وہ بھی بِنا کوچ کے۔ عمار کو کوچ بھی انٹرنیشنل میسر تھا اس کے باوجود وہ کوچ صاحب روزانہ چیمپئن شپ کے مقابلہ جات کے لیے نہیں پہنچ سکتے تھے۔

ہمارے لوکل علاقوں میں اندھا دھند بس سروس چلتی ہے جسے مختلف ناموں کے طیارے سے پکارا جاتا ہے، جیسا کہ گجر طیارہ، وڑائچ طیارہ، چوہدری طیارہ وغیرہ وغیرہ۔ ان بسوں میں 80 افراد کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے مگر اس میں ہر وقت کم از کم 350 سے 400 لوگ سوار ہوتے ہیں۔ بس میں بیٹھنے کے ساتھ ساتھ کھڑے ہونے والے بھی 80 ہی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے سر پیر پر چڑھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔

ان بسوں میں غیر محرم مرد اور عورت اکٹھے کھڑے ہوجائیں تو یقین کیجئے نکاح کی گنجائش بھی باقی نہیں بچتی۔
اور یہ تشبیہ نہیں کھرا سچ ہے، جو ہر صاحبِ شعور فرد جس نے اس بس میں سفر کیا ہو آپ کو بتاسکتا ہے۔

عمار روزانہ اس اندھا دھند بس سروس پر فیصل آباد پہنچتا اور پھر مختلف چنگچی رکشوں پر سواری کے بعد اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوتا۔ اللہ کے خاص کرم کے بعد عمار کی محنت رنگ لائی اور وہ فائنل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ یقیناَ یہ ایک بڑی کامیابی تھی جو باکسنگ رنگ میں تنہائی جیسے سائیکالوجیکل افیکٹ کے باوجود حاصل ہوئی تھی۔

فائنل والے دن میں نے عمار کی حوصلہ افزائی کے لیے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا اور رینٹ پر گاڑی بک کرواکر عمار کو، اس کے کوچ کو اور عمار کے دو دوستوں کو بھی ساتھ بٹھا لیا۔ اس دن عمار اور اس کے استاد کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی، اور یہ خوشی کا احساس مجھے بخوبی تھا۔ سفر کی آسانی خوش قسمت لوگوں کو ہی میسر ہوتی ہے ورنہ تو سفر لوکل پاکستانیوں کے لیے سوائے اذیت کے کچھ بھی نہیں۔

اس خوشی کا اندازہ شاید آپ کو یہ بات سن کر ہوجائے جو مجھے عمار کے کوچ نے 6 ماہ بعد ایک ملاقات میں کہی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے، مصعب بھائی میں اب تک 4 سے 5 سو قومی و بین الاقوامی مقابلہ جات میں شریک ہوا ہوں لیکن آپ نے جو سفر کروایا اس جیسا آرام دہ سفر کبھی نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ ہم چین کامن ویلتھ گیمز کے لیے گئے تو بھی ہم ذاتی پیسوں پر بسوں کے ذریعے چین پہنچے تھے، اور ہمیں پہنچتے پہنچتے دو دن لیٹ ہوگئی تھی۔

فائنل میں بڑے شہروں کی ٹیمز کی ملی بھگت کی وجہ سے عمار کو فائٹ ہروادی گئی، جس سے عمار کا حوصلہ تو ٹوٹا ہی ہوگا میرا حوصلہ بھی ٹوٹ چکا تھا۔ وہ بیچارہ لگاتار محنت سے فائنل میں پہنچا تھا اور فائنل میں بڑے کلبز کی ملی بھگت اسے اندر تک توڑ چکی تھی۔ اس کے بعد عمار نے باکسنگ چھوڑ دی، اور میری بارہا سختی کے باوجود دوبارہ کبھی رِنگ میں نہیں اترا۔

یہ پوری کہانی کے اہم نکات سن لیجئے،
قومی کھلاڑیوں کو کوئی سفری اخراجات نہیں ملتے
قومی و بین الاقوامی مقابلہ جات میں ذاتی پیسوں پر شریک ہونا ہوتا ہے ورنہ آپ کی جگہ کوئی امیر زادہ شامل ہوجائے گا

اولمپکس سے جو پیسے ملتے ہیں وہ پاکستانی آفیشلز کھا جاتے ہیں اور کھلاڑیوں کو کچھ نہیں ملتا، مثال کے طور پر ہمارے شہر کی ایک بچی کامن ویلتھ گیمز انڈیا میں سلور جیت کر آئی تو اسے انعام میں 10 لاکھ روپے ملے جس میں سے اس بچی کو صرف 2 لاکھ ہی پہنچ سکے باقی پاکستان اولمپکس یا ایتھلیٹس کمیشن کے اہلکاروں نے کھا لیے۔

حکومتی سطح پر ان کھلاڑیوں کی ٹریننگ کا کوئی انتظام نہیں
پرائیویٹ ٹریننگ سینٹرز میں تیار ہوئے لڑکوں کو ہر بین الاقوامی مقابلے کے لیے پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن اپنا لیبل لگا کر لے جاتی ہے، یعنی کسی کے کیے پر اپنا نام۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کھلاڑیوں میں سے کسی کو بھی سکالر شپ نہیں ملتی
ایسی صورتحال کے باوجود اگر ہمارے کھلاڑی کچھ کرکے دکھا رہے ہیں تو ہمارے یہ لڑکے دنیا کے دوسرے کھلاڑیوں کی نسبت سپر انٹلیکچوئل ہیں، سلام ان کھلاڑیوں کی محنت اور لگن کو۔ اور سلام بے شرم پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے بے ضمیر ذمہ داران کو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply