پادری نے آخری دعائیہ کلمات ادا کیے اور سب لوگ دھیرے دھیرے قبرستان سے نکلنے لگے۔کچھ ہی دیر میں اس خستہ حال قبرستان میں بنی ایک تازہ قبر کے قریب فقط ایک ہی شخص رہ گیا ۔سر جھکائے،وہ شدید سرد موسم سے بے نیاز مٹی اور برف کے ملغوبے سے ٹیک لگائے بہت دیر بیٹھا رہا ۔۔برف باری جو کچھ دیر کے لیے رکی تھی،اس وقفے میں بے حد عجلت میں سارتر کی تدفین کی گئی تھی اور اسے اپنے عزیز دوست اور انقلاب پرور محنت کش کو یوں عجلت میں آخری سفر پہ روانہ کرتے ہوئے مجرمانہ حد تک غفلت کا احساس کھائے جا رہا تھا ۔۔”سارتر!میرے دوست! تمہارا لہو مجھ سمیت ہر مزدور پہ قرض رہے گا۔” وہ دھیرے سے بڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا اور قبرستان سے باہر چل دیا۔
پرانی برف جو سخت ہو چکی تھی اس کے قدموں تلے آ کر کرچ کرچ کی بھدی آوازوں کے ساتھ ٹوٹنے لگی اور اس کا ذہن اسے آج دوپہر کے اس منحوس وقت میں واپس لے گیا جب اس کے دیکھتے دیکھتے سارتر کو کان نمبر تیرہ نے نگل لیا تھا۔۔اسے یاد آیا تب بھی اس نے ایسی ہی کرچ کی آواز سنی تھی ۔وہ کیا تھی؟یا گردن کی ہڈی ٹوٹنے کی آواز؟؟؟
اس نے غور کرنا چاہا۔”یا جسم پہ بھاری پتھروں اور ٹرالی کے تصادم سے پیدا ہونے والی آواز”؟ وہ زیادہ غور نہ کر سکا اور ایک زبردست متلی نے اسے سڑک کے کنارے دوہرا ہو جانے پر مجبور کر دیا۔۔وہ کچھ دیر جھکا قے کرتا رہا پھر اٹھ کر آستینوں سے منہ پونچھا اور مردہ قدموں سے روس کی اس نواحی بستی کی طرف چلنے لگا جو کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے بسائی گئی تھی اور جہاں اس کا اور سارتر کا گھر بھی تھا۔”وہ اب گھر میں ہو گا مگر سارتر۔۔آہ!” اس نے کوشش سے اس خیال کو جھٹکا۔آسمان سے برف پھر سے گرنے لگی تھی ۔اس نے پھٹی ہوئی برساتی کے بٹن بند کر لیے اور قدموں کی رفتار بڑھا دی۔۔”کس غضب کی ٹھنڈ ہے آج!اس نے خاموشی سے گھبرا کر خود کلامی کی “کاش گھر میں کچھ پینے کو رکھا ہو” ۔اس وقت اسے کچھ برانڈی اور آگ کی تپش کی بہت شدت سے طلب ہو رہی تھی۔۔
جب تک وہ گھر پہنچا برفباری میں شدت آ چکی تھی۔اس نے دروازہ کھولا اور برساتی پر جمع ہونے والے برف کے گالوں کو جھٹک کر گرایا،اسے اتارا اور دیوار میں گڑے ایک کیل پر لٹکا کر اندر داخل ہو گیا۔
وہ ابھی تک اپنے کام کے لباس میں ہی تھا جس پر کوئلے کے سیاہ نشانوں کے علاوہ بے حد احتیاط برتنے کے باوجود کہیں کہیں سارتر کے خون کے دھبے بھی تھے۔اس نے دانستہ خود کو اس بارے میں سوچنے سے باز رکھا۔ “کرسٹینا! !کرسٹی ۔۔۔کہاں ہو تم” وہ معمول سے قدرے اونچی آواز میں اپنی بیوی کو پکارنے لگا جو شاید کمرے سے ملحقہ کوٹھڑی میں کچھ پکا رہی تھی۔ اس کی آواز سن کر اس نے ذرا سی گردن باہر نکالی اور قہر آلود لہجے میں غرائی” اگر تمہیں ایک اور انقلابی کینچوے کو دفنا کر گھر آنے کی فرصت مل ہی گئی ہے تو ایسے چلا چلا کر بتانے کی کیا ضرورت ہے ” وہ کٹھور نیلی آنکھوں والی ایک سخت دل عورت تھی جس کے چہرے کے عضلات ہمیشہ کھنچے رہتے تھے ۔پال نے اسے کبھی مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔۔اور کتنی عجیب بات تھی،اس نے اسے کبھی روتے ہوئے بھی نہیں دیکھا تھا۔
اس کے جواب اور انداز نے پال کو اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ آج گھر میں پکانے کے لیے کچھ بھی موجود نہیں ہے۔۔”تو اب وہ کیا کرے” اس نے بے بسی سے سوچا۔اس نے صبح ایک خشک ڈبل روٹی کے ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں کھایا تھا اور قے کے بعد وہ اپنے معدے میں ایک اینٹھن سی محسوس کر رہا تھا۔
کرسٹینا اب دوبارہ سے باورچی خانے کے طور پر استعمال کی جانے والی کوٹھڑی میں غائب ہو چکی تھی۔ پال کچھ دیر تو یونہی کھڑا رہا ،پھر حرارت کی طلب کے ہاتھوں مجبور ہو کر باورچی خانے میں داخل ہو گیا۔اس کی بیوی آتش دان سلگانے کی کوشش میں نڈھال ہو رہی تھی اور وہ گیلے کوئلوں کے ٹکڑے جل کر ہی نہیں دے رہے تھے جو کان کے مالکان کی جانب سے ہر مہینے مزدوروں کو دیے جاتے تھے۔۔دھوئیں سے دم گھٹا جا رہا تھا اور وہ کھانستے کھانستے بے دم ہو رہی تھی۔
آخر کار جانے کون سی پھونک رنگ لائی اور شعلے بھڑکنے لگے۔۔کرسٹینا ہانپ رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا ۔پال آتش دان کے سامنے جا بیٹھا اور لوہے کی ایک سلاخ سے راکھ کریدنے لگا۔” کچھ پینے کو رکھا ہے کیا “؟ طلب سے مجبور ہو کر آخر کار اس نے کرسٹینا کو پکار ہی لیا جو آتش دان کے سامنے بندھی رسی پر ننھے جوش کے گیلے کپڑے لٹکا رہی تھی۔۔پال کی بات پر اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا جانگیہ تار پہ دے مارا اور نفرت سے بولی” میرا لہو رکھا ہے! اگر انقلاب لا چکے ہو تو یاد کر لو کہ تنخواہ کا آخری روبل ختم ہوئے بھی آج دوسرا دن ہے ،جوش کو بخار ہے اور اس کی دوائیں بھی ختم ہیں ۔۔
” پال ٹھنڈی سانس بھر کر پھر سے راکھ کریدنے لگا۔۔”جوش کی دوائیں !کھانے کا سامان ۔۔۔برانڈی کی طلب اور سارتر کی موت ۔۔۔ان سب نے اس کو اتنا مضحمل کر دیا کہ اس پہ غنودگی سی طاری ہونے لگی۔اس نے آتش دان کے سامنے ٹانگیں پسار لیں اور ٹھٹھرے ہوئے اعصاب کو آگ کی گرمی سے راحت پہنچانے لگا۔
جانے کتنی دیر وہ اسی طرح پڑا رہا ،پھر دروازے پر ہونے والی دستک اور کچھ افراد کے بولنے کی آوازیں اس کے حواس بیدار کر گئیں ۔اس نے باہر نکل کر دروازہ کھولا تو اپنے چند مزدور ساتھیوں کو کھڑا پایا۔وہ آج کے حادثے اور اس کے بعد کے لائحہ عمل کے بارے میں بات کرنے آئے تھے اور سب سے اچھی بات یہ تھی کہ فریڈ کے ہاتھ میں ایک بڑا سماور تھا جس میں گرم حرارت بخش قہوہ تھا۔
وہ سب آتش دان والی کوٹھڑی میں چلے آئے اور پرجوش باتوں، انقلابی تقریروں اور انتقام کی گرمی سے لبریز ارادوں نے پال کو اس منجمند کیفیت سے باہر دھکیل دیا ۔
فریڈ نے تیسری بار گرم قہوے سے اپنی پیالی کو لبالب بھرا اور ایک بڑا سا گھونٹ بھرنے کے بعد کہنے لگا ” ساتھیو!! سارتر کی موت حادثہ نہیں بلکہ سازش تھی۔۔کان کنوں کا انچارج جان گیا تھا کہ سارتر مزدوروں میں انقلابی تحریک کے کتابچے اور پوسٹر تقسیم کرتا ہے اور تم سب لوگ جانتے ہی ہو کہ امیروں اور سرمایہ داروں کو مزدوروں کی یہ جرات کبھی برداشت نہیں ہوئی۔” وہ سانس لینے کو رکا اور پھر تکلیف سے اس کی آواز بھنچ گئی۔” انچارج نے اسے جان بوجھ کر کان نمبر تیرہ کے اس کمپارٹمنٹ کی طرف بھیجا جس کے بارے میں اسے بتایا جا چکا تھا کہ اس کی چھت مخدوش ہے اور پٹریاں بیٹھ رہی ہیں ۔
محنت کش ساتھیو! سارتر کو قتل کیا گیا ہے۔۔آؤ اس کے قتل کا انتقام لینے کا عزم کریں ۔”اس کی آواز رندھ گئی اور سب یک زبان ہو کر بولے۔” ہم سارتر کی قربانی، انقلاب کے لیے دیا گیا اس کا لہو کبھی رائیگاں نہ جانے دیں گے۔،دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے تک، آخری سرمایہ دار کو فنا کے گھاٹ اتارنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔” اس قسم کے من پسند، جذباتی ماحول نے پال کو بھوک کااحساس بھلا دیا تھا اور وہ پورے جوش و خروش سے اب لینن کے نظریات کا پرچار کرنے میں مگن تھا۔
کرسٹینا کوٹھڑی سے ملحقہ کمرے میں ننھے جوش کو گود میں لیے بیٹھی تھی اور پال کی اس بے معنی لاف گزانی اور جوشیلی گفتگو سے بے حد نفرت محسوس کر رہی تھی۔
اس کی اب تک کی زندگی میں ان نعروں نے کوئی انقلاب نہیں دکھایا تھا ۔وہ کان کن کی بیٹی تھی اور اپنی ماں کو اسی طرح کے اجتماعات کے لیے قہوہ تیار کرتے ہوئے دیکھتی بڑی ہوئی تھی ۔اس کا باپ بھی مزدور لیڈر تھا اور سارتر ہی کی طرح وہ بھی ایک دن کان میں سانسیں ہار بیٹھا تھا ۔کرسٹینا کو انقلاب اور انقلابیوں سے نفرت تھی۔پھر بھی اس نے پال سے شادی کرلی ۔۔۔افسوس سے سر جھٹک کر اس نے جوش کو دودھ دینے کے لئے بلاؤز اونچا کیا۔بچہ بخار سے اس قدر نڈھال تھا کہ ماں کی چھاتی سے دودھ کھینچنے میں بھی ناکام ہو رہا تھا۔وہ اسے دھیرے دھیرے تھپکنے لگی۔وہ زندگی سے رعنائیاں اور لطف کشید کرنا چاہتی تھی ۔۔۔اچھے لباس، عمدہ کھانے اور پرسکون زندگی ۔۔مگر پال “ہونہہ اس نے تنفر سے سر جھٹکا ۔وہ اس کی ان خواہشات کو سطحی اور عامیانہ قرار دیتا تھا ۔اس کا کہنا تھا کہ ایسا طرز زندگی انسانیت کی ترقی کے لیے بے سود ہے۔انسانیت کی معراج دولت مشترکہ اور یکساں نظام زندگی کے رائج ہونے میں ہے ۔ مگر ان سب اونچے آدرشوں کے باوجود۔۔پال اور اس کے ہم خیال انقلابی اپنی فطرت میں انقلاب برپا نہیں کر سکے تھے۔۔مزدوروں کی اس بستی میں ہر چوتھے دن کوئی انقلاب زادہ جنم لے کر زندگی کی کان کو ناخنوں سے کھودنے آن پہنچتا ۔
زندگی۔۔۔جو سنگ سلیمانی سے بھی زیادہ سخت تھی۔اور اس کے باپ، شوہر اور سارتر جیسے پاگل پن کا شکار لوگ اسے اپنی ہتھوڑیوں اور درانتیوں سے تراش کر بے مثل بنانا چاہتے تھے اور ہر ضرب سے ان کے استخوان کے ٹکڑے انہی کوچھیدتے تھے ۔ لہو تھوکتے؛پھیپھڑوں میں کوئلے کا برادہ جمع کرتے سیاہ نصیب مزدور ۔۔جن کا مقدر کوئلے کی سیاہی سے تحریر کیا گیا تھا ۔۔
جوش اب گہرے سانس لے رہا تھا۔ کرسٹینا نے فکر مندی سے اس کے تنفس کی رفتار کو دیکھا اور بے بسی کے احساس نے اسے اندر سے دہرا کر کے رکھ دیا ۔” کب!آخر کب یہ آزمائش ختم ہو گی اے خداوند؟؟کیا جوش بھی پہلے دو انقلاب زادوں کی طرح ۔۔؟؟”وہ فاقہ زدہ انقلاب زادے کو تھپکتی ہوئی سوچ رہی تھی۔۔ اور نفرت سے اس کے جبڑے بھنچے ہوئے تھے۔”یہ جو انقلاب کی باتیں کرتے ہیں ۔۔جو بھوک اور پیٹ بھرنے کو امیروں اور جانوروں سے منسوب کرتے ہیں ۔”ہماری زمین “ہمارا نظام” اور “دولت مشترکہ کی باتیں کرتے ہیں ۔۔یہ قابل نفرت کینچوے آخر کس ذہنی بیماری کا شکار ہیں؟ ؟آخر یہ “ہماری بھوک” ،” ہماری غربت” اور ” ہماری بیماری” کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ اس نے دانت اس قدر زور سے پیسے کہ جبڑے میں درد کی لہر دوڑ گئی۔۔اور یہ جھوٹے انقلابی جن کے نزدیک لینن کے نظریات گیہوں، دھان اور دوا سے زیادہ اہم ہیں اور جن کے نزدیک پیٹ کی بھوک ثانوی اہمیت رکھتی ہے،اپنی ذات میں انقلاب کیوں ںنہیں لے آتے؟ ” وہ سوچوں کے اژدہام میں پھنسی ہوئی تھی ۔۔”کیوں پیدا کرتے ہیں یہ زندگی کو ترستے قابل رحم انسان؟؟آخر ان کے نفس ان کے بھوک زدہ شکموں کی مانند سکڑ کیوں نہیں جاتے؟”نفرت اس کے نرخرے کو گھونٹنے لگی تو اس نے زور سے زمین پر تھوک کر بستر سے کمر ٹکا لی۔۔ادھر کوٹھڑی میں بھی قہوے کا سماور ختم ہو چکا تھا اور آتش دان میں بھڑکتے شعلے بھی آخری سانس لے رہے تھے۔
پال اور اس کے ساتھی اپنا سارا غم و غصہ اور انتقامی جذبات ایک دوسرے کے کانوں میں انڈیل کر قدرے پرسکون تھے اور ایک ایک کر کے وہ سب رخصت ہونے لگے۔سب سے پہلے فریڈ نے خالی سماور اٹھایا اور نیم اندھیری کوٹھڑی کے دروازے پر جوتے ٹٹولتے ہوئے بولا” اچھا ساتھیو! اب کل ملتے ہیں ۔ تم سب لوگ ذرا جلدی آ جانا ۔ہمیں سارتر کی بیوہ کے لیے کچھ چندہ بھی جمع کرنا ہے۔” سب نے ملی جلی آوازوں میں اس کی تائید کی اور فریڈ برساتی لپیٹ کر رخصت ہو گیا۔۔۔کچھ دیر بعد باقی لوگ بھی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے اور پال نے داخلی دروازے کے آگے لکڑی کا ایک بڑا سا ٹکڑا جما کر اسے بند کر دیا۔۔
برف ابھی بھی گر رہی تھی۔۔وہ اندر داخل ہوا اور کمرے میں موجود واحد بستر کی جانب بڑھا جس پہ کرسٹینا جوش کو گود میں لیے نیم غنودگی کی کیفیت میں بیٹھی تھی ۔
پال کرسٹینا کے قریب بیٹھ گیا اور رات کے اس سرد اندھیرے میں وہ کچھ قربت کے لمحات کا خواہاں تھا۔مگر کرسٹینا نے نفرت سے اسے پرے دھکیل دیا اور کروٹ لے کر لیٹ گئی ۔بخار سے پھنکتا ہوا ننھا جوش اس کے پہلو میں پڑا تھا ۔پال نے خفیف سا ہو کر بستر کے دوسرے سرے پر خود کو سکیڑ لیا اور غلیظ، سیلے کمبل کو اچھی طرح لپیٹ لیا جس میں جگہ جگہ سوراخ تھے۔۔
مٹی کے تیل کا لیمپ آخری بار بھڑک کر بجھ گیا اور کمرے میں گھپ اندھیرا قابض ہو گیا۔
کرسٹینا نے اندھیرے میں اپنے من پسند تصورات کو مجسم کرنا شروع کر دیا۔۔وہ عمدہ لباس میں ملبوس، اونچی ایڑھی کے جوتوں میں خود کو روس کی سڑکوں پر ٹہلتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔اس کے جسم پر سمور کا کوٹ تھا اور وہ اس کی نرمی کو اپنے مشقتوں کے عادی بدن پر ایک کیف آگیں لمس کی مانند محسوس کر رہی تھی ۔۔عمدہ صابن سے دھلے اس کے سنہری بال سرد ہوا میں لہرا رہے تھے۔ ۔سڑکوں پر روشنیاں تھیں ۔۔زندگی۔۔۔سامان راحت و عافیت تھا ۔۔بھاپ دیتے ابلے ہوئے آلوؤں پر پگھلتے پنیر کی مہک اسے جنت میں لے جانے لگی۔۔اس کی آنکھیں سرور سے بند ہو گئیں ۔۔۔۔
دوسرے سرے پر لیٹا پال بھی ماسکو کے چوک میں جمع ہوتے، سرخ پھریرے لہراتے ہوئے محنت کش دیکھ رہا تھا۔۔سب سے آگے وہ خود تھا اور اس کے ہاتھ میں سارتر کی خون آلود قمیض تھی ۔۔۔انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر دیا تھا۔جاگیر داروں کے کچلے ہوئے جسم جا بجا بکھرے ہوئے تھے اور محنت کشوں کی درانتیوں اور ہتھوڑیوں نے زندگی کو جواہر بے مثل میں ڈھال دیا تھا۔۔یکساں نظام زندگی ۔دولت مشترکہ کی حسین دیوی ان پر مہربان ہو چکی تھی ۔اس نے اطمینان کی سانس لیتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں ۔
اپنے اپنے من پسند تصورات میں ڈوبے ہوئے انہیں خبر ہی نہ ہوئی کہ کب ان کے درمیان لیٹے ہوئے انقلاب زادے نے آخری سانس لی اور اُنہیں اس جہنم میں سلگتا چھوڑ کر نجات پا گیا۔۔۔۔
کمرے میں اندھیرا مزید سیاہ ہو گیا تھا۔۔برف باری ہوتی رہی۔۔سارتر کی قبر بھی برف کے ڈھیر میں بدلنے لگی۔۔صبح وہاں ایک اور ننھا ڈھیر تعمیر ہونے والا تھا۔۔زندگی کی کان کو ناخنوں سے کھودنے والے سے مشقت واپس لے لی گئی تھی!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں