غزل/فیصل فارانی

ہوا کے چلتے ہی پھولوں نے کی ہے من مانی
کسی کی راہ میں بکھرنے کی جانے کیا ٹھانی؟

ہجوم ایساکہ گُھٹنے لگا تھا دَم میرا
سو اُس کے دل سے نکلنے میں عافیت جانی

ہَوا مزاج تھا محصور مُجھ میں کیوں رہتا؟
کبھی رہا ہے کناروں کے درمیاں پانی؟

مجھے خبر تھی رہِ دل میں دل سے جاؤں گا
عجیب شخص ہے پھر بھی نکلنے کو ٹھانی

Advertisements
julia rana solicitors london

سُلگتا اَبر کہیں سے اُتر ہی آتا ہے
جلائے رکھتا ہے دل کو پھر آگ سا پانی

Facebook Comments

فیصل فارانی
تمام عُمر گنوا کر تلاش میں اپنی نشان پایا ہے اندر کہِیں خرابوں میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply