• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • محرم الحرام میں کالے کپڑے پہنیں یا سفید؟۔۔نذر حافی

محرم الحرام میں کالے کپڑے پہنیں یا سفید؟۔۔نذر حافی

مانا کہ حضرت امام حسینؑؑ سید الشہداء ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ تاہم مجھ جیسوں کو آپ کے جہاد کا ہدف ابھی تک سمجھ نہیں آیا۔ سمجھنے کا حق کسی سے نہیں چھینا جا سکتا۔ سوال کرنے پر پابندی ایک غیر مہذب رویّہ ہے۔ تحقیق کا پہلا زینہ سوچنے اور سوال کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ اگر امام حسینؑ نواسہ رسولؐ اور سید الشہداء ہیں تو اس کا بنی نوعِ انسان کو کیا فائدہ پہنچا۔؟ چودہ سو سال سے یہ جو عزاداری منائی جاتی ہے، اس عزاداری، مجالس و محافل، نوحہ خوانی و ماتم سے دنیا کو کیا ملا؟ سوال تو یہ بھی اٹھانا چاہیئے کہ آپ دنیا کو کیا دینے کیلئے نکلے تھے۔؟ بعض احباب نے مجھے بتایا کہ یزید ایک فاسق و فاجر اور بدکار حکمران تھا اور امام حسینؑ دراصل یزید کے خلاف جنگ کیلئے نکلے تھے۔ اس بات سے متعدد باتیں نکلتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ تاریخِ اسلام میں صرف یزید ہی تو فاسق و فاجر حکمران نہیں تھا، پھر یزید کے فسق و فجور میں ایسی کونسی نئی بات ہے کہ اُسے ہر جگہ فاسق و فاجر کہا جائے ؟

اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر یزید فاسق و فاجر نہ ہوتا اور بہت بڑا متقی و پرہیزگار ہوتا تو کیا امام حسینؑ اُس کی بیعت کر لیتے۔؟ یہاں پر لفظِ بیعت کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ بیعت کا مطلب کسی کو ووٹ دے کر منتخب کرنا نہیں ہے، بلکہ کسی کو تسلیم کرنا ہے۔ لوگ نبی ؐ اکرم کی جب بیعت کرتے تھے تو آپ کو منتخب نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کو تسلیم اور قبول کرتے تھے۔ یہی صورتحال سقیفہ بنی سعدہ میں پیش آئی تھی۔ وہاں جمع ہونے والے لوگوں کی کُل تعداد دس سے بیس کے لگ بھگ تھی۔ وہاں خلافت کیلئے ووٹنگ یا رائے شماری نہیں ہوئی تھی بلکہ بحث و جدال کے عالم میں خلیفہ دوّم نے آگے بڑھ کر خلیفہ اوّل کے ہاتھ پر بیعت کی، جس کے بعد وہاں بھی اور وہاں سے باہر جا کر بھی لوگوں سے بیعت لی گئی۔

صحابی رسولؐ حضرت سعد بن عبادہ شہید، حضرت عبداللہ ابن عباس، حضرت عمار یاسر شہید اور حضرت علی کرم اللہ وجہ سمیت جیّد صحابہ کرام ؓ کا اصلی اعتراض بیعت کے بجائے خلیفہ اوّل کے طریقہ انتخاب پر تھا۔ معترضین کا کہنا تھا کہ پہلے خلیفہ کا انتخاب قرآن مجید کے معیارات اور نبی ؐ اکرم کی احادیث کی روشنی میں ہونا چاہیئے تھا اور پھر بیعت لی جانی چاہیئے تھی۔ مثال کے طور پر اسلام جن جاہلانہ اقدار کو مٹانے کیلئے آیا تھا، اُن میں سے ایک نسلی اور قبائلی تعصب تھا۔ حضور نبی ؐ اکرم کے لئے قریشی و حبشی و عربی و عجمی و مکی و مدنی و مہاجرین و انصار سب ایک جیسے تھے۔ سب کیلئے میزان تقویٰ تھا۔ آپ لوگوں کا تذکیہ نفس کرنے اور انہیں تعلیم دینے میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے تھے۔ آپ نے مدینے میں مواخاتِ مدینہ قائم کرکے عملی طور پر ان تعصبات کی بیخ کنی کر دی تھی۔ آپ نے مواخاتِ مدینہ کے وقت سب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا تھا۔

بھائی بنانے کا مقصد ہی یہی تھا کہ اب کوئی تقسیم اور تفریق نہیں، اب جو ایک بھائی کے حقوق و فرائض ہیں، وہی دوسرے کے بھی ہیں۔ جو ایک کا  مقام و منزلت ہے، وہی دوسرے کا   بھی ہے۔ پیغمبرِ اسلام کی اس عدالت و مساوات کا سب سے بڑا دھچکا قریش کو لگا۔ قریش میں یہ بہت غرور تھا کہ وہ نسلِ اسماعیل میں سے ہونے، سابقہ کتابوں کے وارث ہونے اور کعبے کے متولّی ہونے کی وجہ سے مکّے کی اشرافیہ ہیں۔ پیغمبر اسلام کی عادلانہ تعلیمات نے قریشیوں کے اس تعصب کو چکنا چور کر دیا۔ چنانچہ قریشیوں نے مل کر نبی ؐ اکرم پر مکّے کی زمین تنگ کر دی۔ یہانتک کہ آپ رات کی تاریکی میں مکّے سے چھپ کر نکلے۔ پھر مدینے میں بھی ان قریشیوں نے نبی ؐ پاکؐ کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ دوسری طرف مدینے میں بسنے والے یہودی بھی نسلی طور پر انتہائی متعصب تھے۔ وہ بھی اپنے آپ کو حضرت موسیٰ کا وارث، اہلِ کتاب اور ایک برجستہ و پڑھی لکھی نسل سمجھتے تھے۔ چنانچہ نبی ؐ اکرم کی تمام تر رحمت و مہربانی کے باوجود مدینے کے یہودی مکّے کے قریشیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیا کرتے تھے۔

غزوہ بدر سے لے کر فتحِ مکہ تک ہر جنگ میں کفّار کے علمدار و سرخیل یہی قریشی رہے اور انہیں مدینے کے متعصب یہودیوں کا تعاون حاصل رہا۔ اسلام ان دونوں کا مشترکہ دشمن تھا، چونکہ اسلام انسانی برتری کا معیار نسلی تعصب کے بجائے تقویٰ کو قرار دیتا تھا۔ فتحِ مکہ کے روز جب مکہ فتح ہوگیا تو قریشیوں کا مورچہ ہی ختم ہوگیا۔ یہ اپنا مورچہ ختم ہونے کے بعد اسلام کے مورچے میں آنے پر مجبور ہوئے، چونکہ اب ان کے پاس کوئی دوسرا مورچہ باقی نہیں رہا تھا۔ انہوں نے نبی ؐ کی بعثت سے فتح ِمکہ تک اسلام کے خلاف تلوار کھینچے رکھی، لیکن نبی ؐ نے فتح مکہ کے روز بھی اِن پر تلوار نہیں کھینچی اور ان سے کسی قسم کا انتقام نہیں لیا۔ آپ نے فتح کے روز کسی قسم کا جشن بھی نہیں بنایا اور کوئی ایسی مجلس بھی نہیں سجائی کہ لوگ آکر واہ واہ کریں۔ آپ نے اپنے عمل کے ساتھ قریشِ مکہ کو یہ بات سمجھا دی کہ قریشیوں کے نزدیک فضیلت و برتری کا معیار اور جنگ و فتح کا انداز نبی ؐ پاک کی سیرت سے قطعاً  مختلف ہے۔

آپ نے بغیر ایک قطرہ خون بہائے، متکبر و کافر و مشرک قریشیوں کی ناک کو خاک پر رگڑا۔ اب یہی تو مقامِ اعتراض اور تعجب ہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کا معیار قرآن کی تعلیمات اور نبی ؐ پاک کی احادیث کے بجائے قریشی ہونا بیان کیا گیا۔ مدافعینِ خلافتِ سقیفہ کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خلیفہ اوّل اپنی عُمر کے اعتبار سے دیگر صحابہ کرام خصوصاً حضرت علی سے بڑے تھے۔ جب یہ واقعہ ہوا تو اُس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر تھی۔ اس دلیل کا بھی آپ تجزیہ کیجئے کہ اگر آپ کے پاس ایک تیس سالہ مستند پروفیسر موجود ہو، لیکن آپ اُسے اس وجہ سے اُس کے منصب سے ہٹا دیں کہ کوئی اور عمر میں اُس سے بڑا موجود ہے۔ یہ خود ایک پڑھے لکھے انسان کی توہین ہے۔ پڑھے لکھے انسان کا فائدہ ہی یہ ہے کہ کوئی چاہے اُس سے بڑا ہو یا چھوٹا، وہ اُس کی اطاعت کرے۔ اگر آپ ایک بہت بڑے مستند اور جید عالم کو اُس کی عمر کم ہونے کی وجہ سے کسی بڑے بزرگ کی اطاعت کرنے پر مجبور کریں گے تو یہ خلافِ عقل ہے۔

چنانچہ معترضین کہا کہنا ہے کہ حضرت علی کو نبی ؐپاک نے خاندانی تعلق و رشتے داری کے بجائے حضرت علیؑ کے حقیقی کمالات کی وجہ سے آپ کو بابُ العِلم، میزانِ حق، کُلّ ایمان، حیدرِ کرار اور مولا کے خطابات عطا کئے ہیں۔ اب اتنی عظیم شخصیت کو تیس سال کی عمر میں اُسے چھوٹا کہہ کر اُس کے منصب سے ہٹا دینے سے جہانِ اسلام کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے، چونکہ یہی تو تیس سال کی عمر (عینِ شباب) کام کرنے کی حقیقی عمر ہوتی ہے۔ خلیفہ دوّم کا انتخاب بھی قرآن و سنت کے مطابق یا مسلمانوں کی رائے کے بجائے خلیفہ اوّل کی پسند سے ہوا۔ خلیفہ سوم کاا نتخاب بھی قرآن و سنت یا مسلمانوں کی رائے کے بجائے چھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کے حوالے کیا گیا۔ پھر اُس کمیٹی کے بارے میں بھی یہ حکم دیا گیا کہ جو اکثریت کے فیصلے سے اختلاف کرے، اُس کی گردن اُڑا دی جائے۔ ناقدین کے نزدیک اختلافِ رائے کی صورت میں گردن اُڑا دینا بھی قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہے۔

پس خلفائے کرام کے طرزِ انتخاب پر اعتراضات حضرت امام حسینؑ سے پہلے بھی پوری شدّ و مدّ کے ساتھ موجود تھے۔ا گر طرزِ انتخاب کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان داخلی جنگ کھڑی کرنی ہوتی تو حضرت امام حسینؑ سے پہلے اُن کے والد اور بھائی ایسا کرتے۔ اگر داخلی جنگ ہی مقصود ہوتی تو امام حسینؑ بھی یزید کے خلاف لشکر اور ہتھیار جمع کرتے۔ آپ نے اپنی پوری تحریک میں کہیں بھی یہ نہیں فرمایا کہ میں یزید کا تختہ الٹنے جا رہا ہوں یا اُسے قتل کرنے یا اُس سے حکومت چھیننے کیلئے نکلا ہوں۔ اگر آپ ایسا کرتے تو آپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس میں کامیابی نہیں ہوگی۔ چونکہ ایک مدبّر قائد، رہبر اور امام ہونے کے ناطے آپ بخوبی جانتے تھے کہ سرکاری خزانہ، فوج اور لوگوں کی اکثریت یزید کے ساتھ ہے۔ بفرضِ محال اگر آپ یزید سے وقتی طور پر حکومت لے بھی لیتے تو پھر بھی ایسی حکومت زیادہ دیر تک نہ چل پاتی۔ پس امام عالی مقامؑ کی نگاہیں تخت اور حکومت کے بجائے اُس سے بڑے ایک ابدی اور لافانی ہدف پر مرکوز نہیں تھیں۔ آپ مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے قبائلی تعصب، صدیوں کی پسماندگی اور دیرینہ جہالت کے خاتمے کیلئے نکلے تھے۔

آپ دیکھ رہے تھے کہ مسلمانوں نے اسلام کو بھی اچھی طرح سے نہیں سمجھا اور زمانہ جاہلیت کے عقائد و خرافات و تعصبات کو بھی پوری طرح سے نہیں چھوڑا۔ چنانچہ آپ کو ایک ایسی قربانی دینی تھی، تاکہ مسلمان ایک مرتبہ چونک جائیں اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ اللہ کے رسولؐ نے تو ہمیں توحید کا درس دے کر ہر طرح کی غلامی سے آزاد کر دیا تھا، پھر اب ہمیں کیوں دوبارہ غلام بنایا جا رہا ہے۔؟ اُس وقت لوگوں کی ساری توجہ نمازوں، روزوں، حفظ قرآن، ادائیگی زکواۃ و حج پر تھی اور وہ غلامی کی کراہت کو محسوس ہی نہیں کرتے تھے۔ اُن دنوں مدینہ اذانوں اور نمازوں سے گونج رہا تھا، آپ مدینے سے نکل آئے اور مکّے چلے گئے۔ مکّے میں لوگ حج کرنے میں مصروف تھے، لیکن آپ نے باندھے ہوئے احرام کھول دیئے اور حج کو عمرے سے تبدیل کرکے مکّے سے بھی باہر نکل آئے۔ آپ دیکھ رہے تھے کہ لوگ نماز و روزے میں شب و روز بسر کر رہے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں سوچ رہے کہ اُن کے اِرد گِرد کیا ہو رہا ہے؟ اُن کے حکومتی اہلکار کیسے عیش و نوش میں مست ہیں اور عوام کے حقوق کیسے پامال کئے جا رہے ہیں۔؟

امام عالی مقامؑ چاہتے تھے کہ لوگ ہوش میں آئیں، اپنے جھکے ہُوئے سر اٹھائیں اور اپنے حقوق اور اپنی آزادی کا مطالبہ کریں۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج کل ہمارے ہاں جو نمازی و پرہیزگار اپنا مسئلہ لے کر تھانے جاتا ہے، جو آدمی بجلی کا ٹرانسفارمر یا بجلی کا میٹر لگوانا چاہتا ہے، جو شخص عدالت میں انصاف کیلئے چکر کاٹتا ہے یا کہیں پر نوکری چاہتا ہے تو اُس سے رشوت وصول کی جاتی ہے۔ سب لوگ نمازیں پڑھتے ہیں اور ساتھ رشوت بھی لیتے اور دیتے ہیں۔ آج کے دور میں بھی ان رشوت دینے والوں میں اتنی جرات نہیں کہ وہ مل کر رشوت خوروں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ بس رشوت دے رہے ہیں اور اس پر ہر کوئی خوش ہے کہ کم از کم میرا کام تو ہوگیا۔ یہ ہے وہ معاشرہ جہاں لوگ محرابِ عبادت سے تو چپک جاتے ہیں، لیکن معاملات میں مکمل غیر اسلامی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایسے معاشرے کی نمازوں اور حج سے امام عالی مقامؑ بیزار ہیں۔

آپ کا مقصد قیامت تک کے انسانوں کی ایسی تربیت کرنا تھا کہ جب بھی لوگوں کو زبردستی غلام بنایا جائے تو وہ غُلام بننے سے انکار کر دیں۔ آپ جانتے تھے کہ اس تربیت کی ضرورت تاقیامت رہے گی۔ چنانچہ آپ نے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ لوگوں کی تربیت کیلئے ایسی قربانی دی کہ آپ رہتی دنیا تک کیلئے نمونہ عمل بن گئے۔ آپ کی شہادت کا ذکر جہاں جہاں لوگوں نے سُنا، اُس کے بعد وہاں وہاں لوگوں نے قیام کیا۔ اب قیامت تک آپ کی عزاداری کی مجالس، نوحے اور شہادت کا مقصد لوگوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنا ہے۔ لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ صرف ذکر و فکر اور نماز روزے میں مست ہونے کے بجائے اپنے زمانے کے یزیدوں کو پہچانیں۔ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر خاموش نہ رہیں۔ جس طرح ظُلم کرنا قبیح اور بُرا فعل ہے، اسی طرح ظالموں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا بھی ایک قباحت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ گلیوں کوچوں اور بازاروں میں جلسے، جلوس اور ماتم اِس لئے ہیں کہ ہم عبادات کے ساتھ ساتھ اپنے افعال اور معاملات میں بھی مسلمان اور دیندار ہیں۔ ہم نے اپنی روز مرّہ زندگی میں بھی رشوت لینے والوں، غصب اور غبن کرنے والوں، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف جدوجہد کرنی ہے۔ ہم ایسے مسلمان ہیں، جو یمن، کشمیر اور فلسطین سمیت دنیا کی ہر مظلوم قوم کے ساتھ ہیں۔ اگر سیّدالشہداء کی مجالس و محافل اور ماتم و نوحے سے اس بیداری، تربیّت اور شعور کو الگ کر دیا جائے تو پھر اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ محرم الحرام میں کالے کپڑے پہنیں یا سفید۔ حسینؑ ابن علیؑ کپڑے تبدیل کرانے کے بجائے فکریں بیدار کرنے اور ظالموں کے خلاف لوگوں کی تربیّت کرنے کیلئے شہید ہوئے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply