ہمیں ڈوب مرنے چاہیے۔۔آغرؔ ندیم سحر

جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں نے جھنجوڑ کر رکھ دیا’دیکھتے ہی دیکھتے بستیاں کی بستیاں اُجڑ گئیں’ہنستے بستے گھر ویران ہو گئے’ایک گھر کے دس افراد تو دوسرے کے چار افراد’ایک نوجوان کی بیوی اور دو بچے ریلے میں بہہ گئے’تونسہ شریف میں ایک گھر کے چھ افراد سیلاب سے لقمہ اجل بن گئے’درجنوں کچی بستیوں اور جھگیوں کا نام و نشان مٹ گیا’ایک ہی بستی کے بائیس بچے اورسولہ بزرگ عورتیں سیلاب کی نذر ہو گئیں’ڈیر ہ غازی خان اورراجن پور میں بھی درجنوں گھر زیرِ آب آ گئے،بلوچستان میں دو لاکھ ایکڑ کا رقبہ سیلاب سے متاثر ہوا’کوئٹہ’جھل مگسی’زیارت’مردان’ایبٹ آباد’سبی سمیت کتنے ہی علاقے سیلاب بہا لے گیا۔میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیوز اور تصاویر نے رونگٹے کھڑے کر دیے’ایسی تصاویر جنھیں شیئر کرنے کی سکت ہی نہیں ہے مگر حیف صد حیف !میرے حکمران ہمیشہ کی طرح اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں’شورش کاشمیری نے شایدپاکستانی حکمرانوں کے لیے ہی کہا تھا کہ :
میرے وطن کی سیاست کا حل مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

سیلاب کی موجودہ تباہی کے بعد عوام الناس کی طرح سے کئی اہم سوالات اٹھائے جا رہے ہیں’میں وہ سوالات آپ سب سے بھی شیئر کرتا ہوں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) نے تقریباً  دس روز قبل پانچ صفحات پر مون سون پیپر شائع کیا گیا تھا جسے تمام وزارتوں کو بھی بھیجا گیا تھا’اس پیپر میں سیلا ب سے متاثر ہونے والے علاقوں کی تفصیل بتائی گئی تھی لیکن اس کے باوجود اضلاع کے ہیڈز نے کسی طرح کا کوئی احتیاطی قدم نہیں اٹھایا،جیسا کہ سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں میں این ڈی ایم اے کی اطلاع کے مطابق مساجد میں اعلان کروایا جا سکتا تھاتاکہ لوگ اپنے بچوں’قیمتی سامان اور جانوروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر سکتے’کسی بھی ضلع میں Safe evacuation کے انتظام نہیں کیے گئے’ایمرجنسی ہیلپ لائن،بوٹس اور تیراکی ماہرین کو اکٹھا نہیں کیا گیا،کسی بھی ضلع میں سیف سینٹرزنہیں بنائے جہاں خواتین اور بچوں کے لیے ٹینٹ لگا کر رہنے کے انتظامات کیے جاتے’خود نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی(NDMA) نے بھی لیٹر جاری کرنے کے علاوہ خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے ۔قومی ٹیلی ویژن نے بھی مجرمانہ غفلت کا ارتقاب کیا اور اس رپورٹ کو مناسب طور پر مشتہر نہیں کیا۔ این ڈی ایم اے نے جن علاقوں کے بارے الرٹ جاری کیا تھا ان میں بلوچستان کے برکھان’بولان زیارت’جعفر آباد’خضدار’کوہلو’سبی اور لسبیلا ،خیبر پختونخواہ کے ایبٹ آباد’ہری پور’کوہاٹ’مانسہرہ’مردان’پشاور’صوابی ،پنجاب کے اٹک’چکوال’فیصل آبادُگوجرانوالہ’گجرات’حافظ آباد’منڈی بہاؤالدین’لاہور’میانوالی’مری’شیخوپورہ اور سیالکوٹ،سندھ کے تمام اضلاع’گلگت اور آزاد جموں کشمیر کے بھی کچھ اضلاع اس فہرست کا حصہ تھے۔

این ڈی ایم اے کی مندرجہ بالا الرٹ فہرست جاری ہونے کے بعد بھی ہماری انتظامی مشینری نے احتیاطی اقدامات کیوں نہیں اٹھائے؟دوسرا سب سے اہم سوال کہ جب ہماری انتظامیہ کو علم ہے کہ ہر سال فلاں فلاں علاقوں میں تباہی ہوتی ہے تو ایسی صورت حال میں مستقل اقدامات کیوں نہیں کیے جا رہے؟ہم اتنے بے حس کیوں ہو گئے ہیں گزشتہ دس برسوں سے ہم ایک جیسی تباہی بھگت رہے ہیں’ہر سال لاکھوں کا جانی ومالی نقصان اٹھا رہے ہیں’ہر سال حکومتی عملہ سیلاب گزر جانے کے بعد متاثرہ علاقوں میں پہنچتا ہے اور واویلا مچاتا ہے مگر آج تک انتظامیہ سیلاب سے بچنے کے لیے کوئی واضح روڈ میپ تیار کیوں نہیں کر سکی’ہم آج تک زمینی و آسمانی آفات سے بچنے کا کوئی واضح منصوبہ تیارکیوں نہیں کر سکے؟ہر سال سیلاب آتا ہے’زلزلے بھی آتے ہیں اور بیماریاں بھی’مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے پاس ان مصائب سے بچنے کے لیے کسی بھی طرح کی منصوبہ بندی موجودنہیں ہے۔

راجن پور میں جس شخص کے تین بچوں اور بیوی ریلے میں بہہ گئی ہے’کیا ہم اس کا دکھ سمجھ ر ہے ہیں؟دو بچے دیکھتے ہی دیکھتے یتیم ہو گئے’کیا ہم ان کے درد کو سمجھ پا ر ہے ہیں؟ایک دیہاڑی دار مزدور نے پانچ سال کی محنت سے دو کمرے کا گھر بنایا تھا جو سیلاب بہا لے گیا’کیا ہم اس کی تکلیف سمجھ سکتے ہیں؟ایک گھر میں دو بچیوں کا جہیز تیار پڑا تھا’وہ گھر بھی بہہ گیا اور دو بچیوں کا جہیز بھی’کیا ہم اس اذیت کو محسوس کر سکتے ہیں؟ایک بڑھیا اس لیے رو رہی ہے کہ اس کی بہو اور دو بیٹیاں پانی بہا لے گئے’ان کی لاشیں تک نہیں مل سکیں’کیا ہم اس ظلم کا ازالہ کر سکتے ہیں؟ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ میرے ملک کے سیاست دانوں اور حکمرانوں کو اس سے کیا مطلب؟ان کا مسئلہ تو پریس کانفرنسز اورگالم گلوچ ہے۔ان خود غرض اور تماش بینوں کو کیا فرق پڑتا ہے کوئی مرے یا جیے’ان کو صرف اس سے غرض ہے کہ پنجاب اسمبلی کا الیکشن کیسے جیتا جائے’وفاق میں حکومت کیسے مضبوط کی جائے’سندھ ہمارے ہاتھ سے نکل تو نہیں رہا’کے پی کے میں ملاں فضل الرحمن کیسے کلین سویپ کر سکتے ہیں’بزدار دوبارہ کیسے بھاری اکثریت سے واپس آ سکتا ہے’چودھری برداران پنجاب میں تحریک انصاف کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں’اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کے یہ مسائل تو یہ ہیں۔انہیں اس بات کی کیا فکر کے جنوبی پنجاب کے لوگ بزدار کو ہاتھ اٹھا اٹھا کر بددعائیں دے رہے’ساڑھے تین سالوں میں بزدار اپنے وسیب کو بھی اس قابل نہیں بنا سکا کہ سیلاب سے محفوظ رہ سکے’پی پی پی آج تک سندھ کو اس قابل نہیں بنا سکی کہ وہاں صاف پانی میسر آ سکے یا وہاں آسمانی آفات سے بچا جا سکے’تحریک انساف گزشتہ دس سالوں میں خیبر پختونخواہ میں کوئی حفاظتی پالیسی نہیں بنا سکی’پنجاب میں نون لیگی صرف لوٹ مارکرتے رہ گئے اور پنجاب ڈوب گیا۔بلوچستان بھی ہمیشہ سیاسی چالبازوں کی قبضے میں رہا’جس کا نقصان آج بلوچی بھگت رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یقین کریں! سیاست دانوں کو تو چھوڑیں’وہ تو آتے ہی دیہاڑیاں لگانے کے لیے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں اسی پانی میں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے کہ ہم پچھلے ستر سال سے جنھیں منتخب کرتے آ رہے ہیں’وہ آج تک ہماری نسلوں کے لیے کچھ نہیں کر سکے۔ہم جن کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہیں’وہ تو اپنی اولادوں کا بینک بیلنس بنانے’انھیں اسمبلیوں میں پہنچانے کے لیے آتے ہیں’ہم سب کو ڈوب مرنا چاہیے کہ ہم پچھلے ستر سال سے نہ کوئی مخلص لیڈر پیدا کر سکے ہیں اور نہ ہی کوئی مسیحا’ہم بکاؤ قوم ہیں’کبھی دو چار ہزار کی خاطر ہم خود بک جاتے ہیں اور کبھی بیس پچیس کروڑ کی خاطر ہمارا انتخاب بک جاتا ہے’ہم ایسے ہی رہیں گے کیوں کہ بے حس قومیں ایک دن کی روٹی کا سوچتی ہیں اور عظیم قومیں اگلی نسلوں کا’ہمارے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ ہمیں ڈوب مرنا چاہیے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply