بے عزتی خراب ہوتی ہے۔۔عارف خٹک

میں یو اے ای، یورپ، روس یا نارتھ امریکہ جاؤں تو فیس بک پر اعلان کرکے نہیں جاتا کیونکہ میں اپنے پرستاروں سے مل کر ان کو مایوس نہیں کرنا چاہتا لہذا جو بھرم سوشل میڈیا پر ہے وہ قائم رہے تو  بہتر  ہے۔

ہم پاکستانیوں کی سب سے بڑی خراب عادت یہ ہے کہ ہمیں بعد میں پتہ چلے کہ فلاں دانشور ہمارے شہر آیا تھا تو فوراً جاکر اس کی وال پر اس پھوپھی جیسا ردِعمل دے رہے ہوتے ہیں جو شادی میں اس بات پر منہ پھلا کر بیٹھی ہوتی ہے کہ کاش آج اماں زندہ ہوتی۔ فوراً لکھ دیتے ہیں۔ “حضور بتایا نہیں کہ آپ شہر آئے تھے اس قابل نہیں سمجھا؟”۔ حالانکہ پورے شہر کو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پشاور کا وہ بدنام ترین شخص دھڑلے سے آیا ہے جس سے کُرک کی کھوتیاں بھی گز بھر کھونگھٹ نکال کر پردہ کرتی ہیں، بس نہیں پتہ ہوتا تو ان  موصوف کو نہیں پتہ ہوتا۔

یار دوستوں کو بھی معلوم ہے کہ جب کسی شہر جاتے ہیں اور بتلا کے جاتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کے قریبی دوست کمنٹ میں   نمودار ہوکر کہتے ہیں۔
“یار آج لالہ موسی پہنچا ہوں کاش ایک دن پہلے بتا دیتے۔تو اپنی  محبوب ہستی کے  دیدار کیلئےرُک جاتا۔”

حقیقت میں وہ اندرون بھاٹی گیٹ میں اَدھ ننگا تھڑے پر بیٹھا ہوا محلے کی عورتوں میں گیان بانٹ رہا ہوتا ہے۔

“اس باڑ عمران خان نے شہباز شڑیف نوں صحیح دیتا اے”۔

اللہ کے بندوں جب جیب اجازت نہیں دیتی تو ا ُچھل اُ چھل کر سوشل میڈیا پر خود کو سیٹھ عابد کا بیٹا بتانے کی کیا ضرورت ہے۔؟

تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، ہمارے سوشل میڈیا انفلوئنسرز بھی تو احساس کمتری کی ماری ہوئی مخلوق ہیں ۔ گھر والے اس قابل نہیں سمجھتے کہ د ُکان سے پچاس روپے کے  ٹماٹر منگوا کر دیں کہ اس میں بھی ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ اپنے فین کلب کو اس بات پر قائل کرچکے ہوتے ہیں بچپن سے آگاتھا کرسٹی اور میکسم گورکی کو پڑھتا آیا ہوں۔ حالانکہ آگاتھا کی اسپیلنگ بھی لکھ کر دیں تو یہ بھی کارنامہ ہے۔ ذلالت کی ان گہرائیوں میں پڑے رہتے ہیں کہ گر بدقسمتی سے ریحام خان ٹیوٹر پر کوئی جواب سے نواز ڈالے تو مہینوں وہی اسکرین شارٹ چہار سو فیس بک پر لٹکا کر گھومتے ہیں۔ لاہور یا کراچی پدھارے تو یوں اعلان کرتے ہیں جیسے ظل سبحانی اکبر بادشاہ کا ظہور دوبارہ ہندوستان ہوا ہو ،اور لوگوں کی قدم بوسی ان کی قسمت بدل سکتی ہے۔ فوٹو سیشن کیلئے کوئی آئے یا نہ آئے ہمارے مولوی ضرور آئیں گے۔ بیچارے یہ سمجھتے ہیں کہ موصوف کیساتھ عکس بندی کی شکل میں سو دو سو حسینائیں فرینڈ لسٹ میں آجائیں گی ،چار پانچ سو اور دوست مل جائیں گے تو چھ ماہ بعد ہم بھی دانشوری کی دُکان کھول کر بیٹھ جائیں گے۔ اگر ایسے دانشور بنتے تو ہم بھی چچا مستنصر حسین تارڑ، محترم عطاءالحق قاسمی اور بزرگ احمد اقبال کے گھٹنوں سے سر لگا کر پروگرام اپنے اندر انسٹال کروا لیتے یا دو ایک فوٹو کھینچ کر دس بارہ کتابیں لکھ ڈالتے۔

ایک دن گھر میں دوسری شادی کا ذکر خیر چھیڑ دیا۔ ابا حضور جلال میں آگئے
“میں تیرا باپ ہوکر ایک پر گزارہ کررہا ہوں اور جس نطفے سے تیرا وجود آیا ہے اس سے آگے نکلنے کی بات کررہے ہو۔ آرام سے بیٹھ جاو”۔
جواب آں غزل ہوئے
“ابا بیگم بوڑھی ہوتی جارہی ہے اور اس قابل بھی نہیں ہے سوشل میڈیا پر تصویر لگا کر فین کو بتایا جائے کہ ہماری طرح ہماری بیگم بھی ادیب ہے”۔
ابا نے گھورا۔ گویا ہوئے
“اپنی مرضی سے شادی کی ہے ناں۔ لوگ روس سے کوہ قاف کی پریاں لیکر آتے ہیں تم وہاں سے بھی وہ منہ لیکر آئے جو یہاں بآسانی دستیاب تھا۔ لہذا چپ رہنے دو، ورنہ ایسی اولاد ناہنجار کیلئے ادھر ہمارے پشتو میں ایک بہت برا لفظ ہے”۔

دروغ برگردن محترم رشید یوسفزئی کے، کہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو کسی نے بتایا کہ فلاں “عالم” کے سارے کے سارے بیٹے سوشل میڈیا کے درخشندہ ستارے ہیں تو مولانا نے ہنستے ہوئے فرمایا
“ایسے ستاروں پر بھی لعنت ہو جو اردو زبان کیلئے بے عزتی کا باعث ٹھہریں ۔ کاش فلاں “عالم” کو اللہ ان بیٹوں کے بدلے سات کھوتوں سے نوازتا تو کم از کم علاقے کے لوگوں کا بھلا ہوتا”۔

دانشوری کوئی اللہ کی دین نہیں ہے بلکہ ایک بیماری ہے جو کسی کو بھی لگ سکتی ہے سو اگر آپ اس بیماری سے گلے ملیں گے، چومیں گے تو آپ بھی بیمار ہوسکتے ہیں۔

خیر بتا رہا تھا کہ ان ڈرامہ بازیوں سے دونوں (قاری و عالم) باہر نکل آئیں کہ شاہی سواری پدھار چکی ہے۔۔۔ اور کمنٹ میں بندہ لکھ دے کہ کاش ظل الہی پہلے مطلع فرماتے تو بندہ لالہ موسی نہیں پدھارتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بے عزتی خراب ہوتی ہے یار!

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply